سانحہ 9 مئی کی تحقیقات کے لئے عدالتی کمیشن بنایا جائے!
سال رواں کے دوران 9 مئی کو تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی اسلام آباد ہائی کورٹ سے گرفتاری کے بعد ہونے والے احتجاج، ہنگاموں، توڑ پھوڑ اور تخریبی سرگرمیوں کا معاملہ اس وقت قومی سیاست کا اہم ترین اور سب سے پیچیدہ معاملہ بن چکا ہے۔ ایک سیاسی پارٹی کو عتاب کا نشانہ بنایا گیا ہے اور سینکڑوں لوگ مختلف مقدمات میں گرفتار کیے جا چکے ہیں۔ ایک سو کے لگ بھگ فوج کی تحویل میں ہیں۔
سپریم کورٹ کا پانچ رکنی بنچ فوجی عدالتوں میں شہریوں کے ٹرائل کے طریقے کو مسترد کرچکا ہے۔ لارجر بنچ کے اس حکم میں آرمی ایکٹ کی ان دفعات کو بھی ختم کرنے کا حکم دیا گیا ہے جن کے تحت کسی شہری کو فوجی عدالت میں پیش کیا جاسکتا ہے۔ فاضل ججوں نے حکم دیا تھا کہ 9 مئی کے واقعات میں ملوث افراد کے خلاف عام فوجداری عدالتوں میں مقدمے چلائے جائیں۔ اب نگران حکومت، وزارت دفاع اور متعدد صوبوں کی نگران حکومتوں نے اس عدالتی فیصلہ کے خلاف نظر ثانی کی اپیلیں دائر کی ہیں لیکن ابھی تک عوام کو یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ سانحہ 9 مئی میں ملوث جن ایک سو کے لگ بھگ افراد کو فوج کے حوالے کر کے ان کے خلاف فوجی عدالتوں میں مقدمے قائم کرنے کا اعلان کیا گیا تھا، سپریم کورٹ کے حکم کے بعد ، ان لوگوں کے ساتھ کیا سلوک روا رکھا گیا ہے۔ موجودہ صورت حال میں تو یہی محسوس ہوتا ہے کہ یہ درجنوں لوگ نہ تو کسی عدالت میں پیش کیے جائیں گے اور نہ ہی انہیں رہا کیا جائے گا۔ حکومت اور عدلیہ کے درمیان قانونی تنازعہ کی مدت میں انہیں کسی عدالتی کارروائی کے بغیر پراسرار حالات میں گرفتار رکھا جائے گا۔
ملک میں لاپتہ افراد کے تناظر میں دیکھا جائے تو سانحہ 9 مئی کے ملزمان اس حد تک ضرور خوش قسمت ہیں کہ انہیں کسی نہ کسی ’الزام‘ میں کوئی قانونی دفعہ لگا کر گرفتار کیا جاتا ہے اور اگر کوئی عدالت انہیں ضمانت دینے کا اقدام کرتی ہے تو اس عدالتی حکم پر عمل درآمد کرنے سے پہلے ہی متعلقہ شخص کو کسی دوسری دفعہ کے تحت گرفتار کر لیا جاتا ہے۔ ایک بار پھر اپیل اور ریلیف لینے کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے لیکن ریاستی ادارے عدالتوں کی وضاحت کے مطابق قانون کی تشریح اور نفاذ کو ماننے پر آمادہ نہیں ہیں۔ ایک سو سے زائد جن افراد کو فوجی عدالتوں میں مقدمے چلانے کے لیے فوج کے حوالے کیا گیا تھا، ان کی صورت حال اس حد تک ضرور لاپتہ کیے گئے افراد سے قدرے بہتر ہے کہ ان کے بارے میں باقاعدہ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کو مطلع کیا گیا ہے کہ کون لوگ فوج کی تحویل میں ہیں۔ لیکن اس سے بڑھ کر ان کے شہری حقوق کا تحفظ دیکھنے میں نہیں آیا۔ حالانکہ سپریم کورٹ کے حکم کے بعد ان افراد کے مقدمات فوری طور سے فوجداری عدالتوں میں منتقل ہونے چاہئیں۔
اٹارنی جنرل پاکستان نے سپریم کورٹ میں شہریوں کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے مقدمہ میں دلائل دیتے ہوئے فوجی عدالتوں کی خوشگوار تصویر پیش کی تھی۔ ان کا دعویٰ تھا کہ ان عدالتوں میں ملزمان کے تمام شہری حقوق کا تحفظ ہو گا۔ انہیں معمولی سزا دی جائے گی یا جرم ثابت نہ ہونے پر بری کر دیا جائے گا۔ بلکہ یہی نہیں ملکی قانون کے مطابق ان تمام افراد کو کوئی ناقابل قبول فیصلہ آنے کی صورت میں اعلیٰ عدلیہ میں اپیل کرنے اور انصاف حاصل کرنے کا موقع دیا جائے گا۔ یہ خوشنما وعدے کرتے ہوئے اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان البتہ یہ واضح کرنے میں ناکام رہے کہ اگر فوجی عدالتوں نے محض ’تھپکی دے کر یا متنبہ‘ کر کے ملزموں سے گلو خلاصی کرانی ہے تو حکومت ان لوگوں کے معاملات سول عدالتوں میں لاکر انہیں سزا دلوانے کا اہتمام کیوں نہیں کرتی۔ اس بات پر کیوں اصرار کیا جا رہا ہے کہ بعض لوگوں کو فوجی عدالتوں سے ہی سزا ملنی چاہیے؟ اس معاملہ میں صرف حکومت یا اٹارنی جنرل نے ہی غیر حقیقت پسندانہ اور بنیادی حقوق سے متصادم رویہ اختیار نہیں کیا بلکہ گزشتہ دنوں سینیٹ نے ایک قرار داد منظور کی جس میں سپریم کورٹ کے فیصلہ کے خلاف سخت الفاظ استعمال کرتے ہوئے یہ ’درخواست‘ کی گئی کہ عدالت عظمی اس معاملہ پر نظر ثانی کرے اور ملکی دفاع و سلامتی پر حملہ کرنے والے ان ’عناصر‘ کے مقدمات کو فوجی عدالتوں میں جاری رکھنے کا حکم دیا جائے۔ یہ معاملہ بدستور زیر غور ہے اور سپریم کورٹ نے نظر ثانی کی درخواستوں پر سماعت کا کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا۔
دوسری طرف عمران خان سمیت تحریک انصاف کے 900 کے لگ بھگ لوگوں کو 9 مئی کو توڑ پھوڑ کرنے، عسکری تنصیبات پر حملے کرنے اور شہدا کی یادگاروں کو نقصان پہنچانے کے الزامات میں نامزد کیا گیا ہے۔ آج ہی لاہور کی ایک عدالت نے گزشتہ کئی ماہ سے گرفتار پی ٹی آئی کے متعدد لیڈروں پر فرد جرم عائد کی ہے۔ ان میں یاسمین راشد، سینیٹر اعجاز چوہدری اور سابق ممبر صوبائی اسمبلی جمیل شامل ہیں۔ ان لوگوں کو متعدد دوسری دفعات میں بھی گرفتار کیا گیا ہے جن کی فرد جرم بعد میں عائد کی جا سکتی ہے۔ تحریک انصاف کے چئیر مین عمران خان اور دیگر متعدد لیڈروں پر سانحہ 9 مئی کی سازش کرنے اور عسکری اداروں پر حملے کرنے پر آمادہ کرنے کے الزامات عائد ہیں۔ قیاس کیا جاتا ہے کہ انہیں بھی کسی نہ کسی مرحلے پر کسی عدالت سے سزا دلوائی جائے گی۔ معاملہ 9 مئی کے احتجاج میں شرکت یا اس روز ہنگامہ آرائی کی منصوبہ بندی کے الزامات تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ ایسے ہر اس لیڈر یا شخص کو زچ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جس پر تحریک انصاف سے تعلق اور عمران خان سے وفاداری نبھانے کا شبہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ متعدد لیڈر یا تو زیر زمین چلے گئے ہیں یا گرفتاری کے بعد اچانک رونما ہو کر سانحہ 9 مئی کی مذمت کرتے ہیں اور عمران خان سے راہیں علیحدہ کرنے کا اعلان کرتے ہیں۔
تحریک انصاف کی قیادت نے یہ غلطی ضرور کی ہے کہ اس روز قابو سے باہر ہو جانے والے ہنگاموں اور بعض حساس مقامات پر حملوں کی مذمت کرنے سے گریز کیا اور ریاستی اداروں کے بارے میں عدم تشدد کی پالیسی اختیار کرنے کا اعلان بھی نہیں کیا گیا۔ البتہ یہ ایک سیاسی فیصلہ ہے۔ ایسے کسی سیاسی لیڈر یا پارٹی پر تنقید تو کی جا سکتی ہے لیکن انہیں ایسا کوئی موقف اختیار کرنے پر سزا کا مستحق سمجھنے کا حقدار نہیں سمجھا جاسکتا۔ نہ ہی یہ طریقہ ملکی نظام قانون کے شایان شان ہے کہ کثیر تعداد میں ایک ہی پارٹی سے تعلق رکھنے والے سیاسی لیڈروں کو متعدد غیر متعلقہ مقدمات میں گرفتار کر کے جیل میں بند کر دیا جائے اور کسی بھی قیمت پر ان کی ضمانت نہ ہونے دی جائے۔ عمران خان کا معاملہ اس حوالے سے نمایاں اور اہم مثال کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے۔
اس سے قطع نظر کہ عمران خان نے ریاستی اداروں کے خلاف ’بغاوت‘ کروانے میں کیا کردار ادا کیا تھا، اس حقیقت کو کیسے نظر انداز کیا جائے کہ اقتدار سے محروم ہونے کے ایک سال سے زائد عرصہ تک وہ پوری قوت سے حکومت اور ریاستی اداروں کو چیلنج کرتے رہے تھے لیکن ان کے خلاف کوئی قانونی کارروائی دیکھنے میں نہیں آئی۔ البتہ سانحہ 9 مئی کے فوری بعد صورت حال یکسر تبدیل ہو گئی۔ جو لیڈر ہمہ وقت ملکی سیاسی مباحث کا مرکز بنا ہوا تھا، اسے میڈیا پر ’ناپسندیدہ شخصیت‘ قرار دیا جا چکا ہے اور وہ جیل میں بند درجنوں مقدمات میں ’انصاف‘ حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ عمران خان کے خلاف توشہ خانہ کیس میں سزا ہو یا سائفر یا برطانیہ سے آنے والے 190 ملین پاؤنڈ کا معاملہ ہو، ان کی گرفتاری اور مسلسل حراست کا حقیقی تعلق 9 مئی کے واقعات سے ہے۔ حکومت کی طرف سے کسی باقاعدہ اعلان کے بغیر بھی یہ واضح کیا جا چکا ہے کہ بعض سیاسی عناصر نے فوج میں انتشار پیدا کرنے اور بغاوت کے آثار پیدا کرنے کی سازش کی تھی، اس لیے انہیں معاف نہیں کیا جاسکتا۔ اسی لیے اب بعض سیاسی عناصر یہ دلیل بھی دیتے ہیں کہ عمران خان اور تحریک انصاف کو جن الزامات کا سامنا ہے اس کا تعلق سیاسی امور سے نہیں ہے بلکہ ریاست کے خلاف سازش سے ہے۔ اس لیے کوئی سیاسی لیڈر انہیں معاف کرنے یا رہا کرنے کا مطالبہ نہیں کرتا۔
لمحہ بھر کے لیے اگر اس دلیل کو مان بھی لیا جائے تو بھی عمران خان اور تحریک انصاف کے تمام لوگوں کے خلاف 9 مئی کو رونما ہونے والے واقعات میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا جائے۔ مناسب عدالتی فورم پر شواہد جمع کروائے جائیں تاکہ انہیں اپنے جرم کی سزا مل جائے۔ اور فوج و دیگر اداروں پر شہریوں اور سیاسی لیڈروں کے خلاف جابرانہ ہتھکنڈے اختیار کرنے کا الزام بھی عائد نہ ہو۔ اس حوالے سے خاص طور سے فوج کا کردار غیر واضح ہے۔ یہ خبریں ضرور سامنے آئی ہیں کہ 9 مئی کے واقعات کے حوالے سے متعدد اعلیٰ فوجی افسروں کے خلاف کارروائی کی گئی ہے۔ اس سے یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ صرف سیاسی لیڈروں کی ہی گرفت نہیں کی جا رہی بلکہ فوجی افسروں کا احتساب بھی کیا گیا ہے۔ لیکن اس بارے میں کوئی معلومات سامنے نہیں آئیں کہ ان افسروں کے خلاف کیا الزامات عائد تھے اور انہیں کیا سزائیں دی گئی ہیں۔
اس کے علاوہ 9 مئی کے واقعات میں ملوث شہریوں کے خلاف کارروائی میں فوج کا کردار واضح نہیں ہے لیکن دیکھا جاسکتا ہے کہ جو لوگ تمام تر بے ادائیوں کے باوجود آزادی سے گھوم پھررہے تھے، انہیں یک بیک عتاب کا سامنا کرنا پڑا۔ اس لیے یہ معاملہ بدستور راز ہی ہے کہ ان لوگوں کو سبق سکھانے میں فوجی ادارے کس حد تک متحرک ہیں۔ البتہ شہریوں کے مقدمے فوجی عدالتوں میں چلانے کی بحث اور شدید حکومتی خواہش و کوشش کی بنا پر دیکھا جاسکتا ہے کہ سانحہ 9 مئی فوج کی دکھتی رگ بن چکی ہے اور وہ اس معاملہ پر کوئی مفاہمت کرنے پر تیار نہیں ہے۔ گویا ایک ریڈ لائن کھینچ دی گئی ہے۔ ایک طرف 9 مئی کو غداری اور ملک دشمنی سمجھنے والے ہیں اور دوسری طرف اس روز ہونے والے ہنگاموں کو معمول کا سیاسی احتجاج قرار دینے والے ہیں جو ان کے بقول شاید بعض کارکنوں کی جذباتیت کی وجہ سے قابو سے باہر ہو گیا۔
ملکی سیاست اب 9 مئی کی اسیر ہو کر رہ گئی ہے۔ چند ماہ بعد انتخابات ہونے والے ہیں۔ یہ صورت حال ملک و قوم کے وسیع تر مفاد، سکیورٹی اداروں کے وقار اور آئین کی پاسداری کے حوالے سے نہایت سنگین اور پیچیدہ ہے۔ ضروری ہے کہ قوم کو اس دن ہونے والے واقعات کے پراسرار چنگل سے نجات دلائی جائے اور اس روز جو ہوا اور جو جو عناصر اس میں ملوث تھے، ان کی حقیقی تصویر سامنے لائی جائے۔ اب تک حکومت، فوج اور نظام عدل چونکہ اس حوالے سے کوئی قابل قبول حکمت عملی اختیار کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکا، اس لیے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو پہلی فرصت میں اس اہم مسئلہ پر غور کرتے ہوئے کوئی اعلیٰ سطحی عدالتی کمیشن قائم کرنا چاہیے جو جلد از جلد تمام حقائق عام کرے اور اس روز کے واقعات میں ملوث عناصر کا تعین کرے۔
اسی طریقہ سے فوج کو یہ یقین دلایا جا سکے گا کہ ملکی نظام عسکری اداروں کے خلاف کارروائی کرنے والوں سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اور عوام بھی سچ جان کر سکھ کا سانس لے سکیں گے۔ ملک کے لئے 9 مئی کے گرداب سے نکلنے کا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔
- کیا جنرل فیض حمید تنہا نظام کی خرابی کے ذمہ دار ہیں؟ - 10/12/2024
- بشار الاسد کے بعد شام کو ایک نئے چیلنج کا سامنا - 09/12/2024
- سول نافرمانی، کس کے خلاف؟ - 08/12/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).