جھوٹ کے پاؤں
یہ اس زمانے کی بات ہے جب جھوٹ بولنا برائی سمجھا جاتا تھا۔ دوردراز کے پہاڑوں کے درمیان ایک چھوٹا سا ملک ”خدمت پور“ آباد تھا۔ خدمت پور ایک خوش حال ملک تھا جس کے لوگ انتہائی ملنسار اور پرامن تھے۔ ملک کا بادشاہ اورحان ایک پہاڑ پر بنے مضبوط قلعے میں رہتا تھا۔ اورحان ایک نیک دل بادشاہ تھا، جو نادار لوگوں کا خیال رکھتا اور خدمت پور کے لوگوں میں انصاف پسند بادشاہ کے طور پر مشہور تھا۔
ایک دن خدمت پور کے قاضی نے بادشاہ کو ایک خط لکھا اور کہا کہ وہ ایک مقدمے کا فیصلہ کرے کیوں کہ قاضی خود کو اس معاملے میں فیصلہ کرنے سے عاری سمجھتا ہے۔
اورحان نے جب اس معاملے کی جانچ پڑتال کی تو پتا چلا کہ اس میں اورحان کے تین وزراء اور سپہ سالار کے بیٹے ملوث ہیں۔ یہ جان کر اسے انتہائی دکھ ہوا کہ اتنے بڑے عہدوں پر فائز لوگوں کے بچے جرائم میں ملوث ہیں۔
اورحان نے چند دن بعد دربار لگانے اور سب کو اپنے سامنے پیش ہونے کا حکم دیا تاکہ وہ مقدمے کا فیصلہ کر سکے۔ متعلقہ دن شہریوں کی بڑی تعداد، وزراء، سپہ سالار، قاضی اور عدالتی نمائندے دربار میں موجود تھے۔ بادشاہ نے عدالتی نمائندے سے مقدمے کی تفصیل دربار میں سب کے سامنے پیش کرنے کو کہا۔ نمائندے نے بتایا کہ تین وزراء اور سپہ سالار کے چار بیٹے خدمت پور کے جنگلات سے قیمتی لکڑی کی چوری میں ملوث ہیں اور وہ یہ لکڑی مہنگے داموں بیچ کر دولت بنا رہے ہیں۔ نمائندے نے کچھ ثبوت بھی وہاں پیش کیے۔ بادشاہ اورحان نے عدالتی نمائندے کی بات سننے کے بعد ان لڑکوں کی طرف دیکھا جن پر یہ الزامات تھے اور انھیں اپنی صفائی پیش کرنے کو کہا۔
سپہ سالار کے بیٹے نے کہا کہ یہ دراصل ان پر جھوٹے الزامات ہیں تاکہ ان کے والدین کی ساکھ کو نقصان پہنچایا جا سکے۔ وزراء کے بیٹوں نے بھی اس بات کی تائید کی اور کہا کہ اس سارے معاملے کے پیچھے قاضی کا بیٹا ملوث ہے، جو ان کا ہم جماعت رہ چکا ہے اور حسد میں مبتلا ہے۔ یہ سب اسی کی سازش ہے۔ یہ سن کر دربار میں موجود لوگ میں سراسیمگی پھیل گئی۔ وزراء کے بیٹوں نے اپنے وکیل سے ثبوت پیش کرنے کو کہا۔ وکیل نے جھوٹے خودساختہ ثبوت وہاں پیش کیے۔
بادشاہ کو معاملے کی نزاکت کا اندازہ ہو چکا تھا۔ بادشاہ نے اپنے قریبی مشیران سے مشورہ کرنے کے بعد وزراء اور سپہ سالار کے بیٹوں کو معاملے میں ملوث پایا اور ان کو گرفتار کرنے کا حکم دیا اور وزراء اور سپہ سالار کو اپنے عہدوں سے تین روز میں رخصت ہونے کا حکم دیا۔
عوام میں بادشاہ کے انصاف کو دیکھ کر زبردست جوش و خروش تھا۔ تینوں وزراء اور سپہ سالار کے چہرے غصے سے سرخ تھے۔
بادشاہ اورحان دربار سے رخصت ہو چکا تھا اور دربار برخاست کیا جا چکا تھا۔ دوسرے دن ملک میں عجیب سا سناٹا تھا۔ گلی کوچے عوام سے خالی تھے۔ مرکزی بازار بند تھے۔ ہر طرف فوجی دستے گشت کر رہے تھے اور لوگوں میں چہ میگوئیاں ہو رہی تھیں۔ شام تک صورتحال واضح ہو چکی تھی۔ شہریوں کی زبان پر یہی الفاظ تھے کہ بادشاہ اور قاضی کو گرفتار کر لیا گیا ہے اور ان کے بیٹے دراصل لکڑی کی چوری میں ملوث تھے۔ ہر کوئی حیرت میں ڈوبا تھا کہ یہ سب کیسے ہو سکتا ہے۔ سپہ سالار نے خود کو بادشاہ کے منصب پر فائز کر لیا تھا۔
اگلے دن سپہ سالار آفتاب جاہ جو کہ خود کو بادشاہ کہلوا چکا تھا، نے دربار لگایا جہاں بادشاہ اورحان اور قاضی کو ہتھکڑیوں میں پیش کیا گیا۔
سو سے زائد لوگوں نے گواہی دی کہ اورحان اور قاضی کے بچے چوری میں ملوث ہیں۔ عوام جو کہ قدرے کم تعداد میں تھے خاموش اور غمگین تھے۔
آفتاب جاہ نے حکم دیا کہ اورحان اور قاضی کو کالے پہاڑوں پر واقع اندھے کنویں میں پھینک دیا جائے اور ان کے بچوں کو ملک بدر کیا جائے۔ سپاہی اورحان اور قاضی کو لے کر دربار سے جانے لگے تو اورحان نے گرج کر کہا کہ آفتاب جاہ جھوٹا ہے اور تمام گواہ بھی، جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے اور وہ منہ کے بل گرتا ہے۔ یہ جھوٹ اور تمام جھوٹے بھی ایک دن اپنے کیے کی سزا پائیں گے۔
سپاہی انہیں گھسیٹ کر وہاں سے لے گئے۔
چند دن یونہی خاموشی سے گزر گئے، خدمت پور کی فضا میں سوگواری تھی۔ ایک صبح جب سورج طلوع ہونے کے ساتھ لوگ اٹھے تو وہ حیرت میں ڈوب گئے کیوں کہ ہر مکان اور گلی کوچے کو راکھ نے ڈھانپ لیا تھا۔ یہ کئی انچ کی راکھ کی تہہ تھی جس میں گرمی کی حدت ابھی تک محسوس کی جا سکتی تھی۔
لوگوں میں خوف و ہراس پھیل گیا، دوپہر تک یہ بات سامنے آئی کہ خاموش آتش فشاں رات کے کسی پہر پھٹ چکا ہے اور راکھ وہیں سے آئی ہے۔
آتش فشاں پھٹنے سے جنگل کے بڑے حصے میں بھی آگ لگ چکی تھی۔ عوام میں بے چینی پھیل چکی تھی اور وہ باتیں کر رہے تھے کہ سب بادشاہ اورحان کے ساتھ ہونے والے ظلم کا نتیجہ ہے۔ لیکن دراصل یہ تو ابتداء تھی، ایک ایسی سزا کی جو دائمی ہونے جا رہی تھی۔
چند دن یو نہی گزرے کہ ایک روز صبح صبح بہت سے گھروں سے شور شرابے کی آوازیں بلند ہونے لگیں۔ بہت سے لوگ جب صبح سو کر اٹھے تو ان کے پاؤں کی کچھ انگلیاں ختم ہو چکی تھیں اور سر پر سینگ نکل آئے تھے۔ پہلے تو یہ سینگ چھوٹے تھے لیکن وقت کے ساتھ بڑے ہونے لگے۔
لوگوں میں خوف و ہراس بڑھتا جا رہا تھا۔ ہر صبح لوگوں کے پیروں کی انگلیاں غائب ہوتیں اور سر پر سینگ ہوتے، عوام کی بڑی تعداد آفتاب جاہ کے دربار پہنچی لیکن معلوم ہوا کہ بادشاہ نے ملنے سے انکار کر دیا ہے۔ وزراء بھی اپنے گھروں میں بند ہو گئے۔ چند ہفتوں بعد ملک میں افراتفری پھیل چکی تھی اور ہر زبان یہی کہتی تھی کہ بادشاہ اور وزراء کے سر سینگوں سے بھر چکے ہیں اس لیے وہ چھپ گئے ہیں اور ان کے پیروں کی انگلیاں بھی غائب ہو چکی ہیں۔
وقت کے ساتھ یہ سینگ انتہائی بڑے اور وزنی ہونے لگے۔ لوگوں کے لیے اپنے سر سیدھے رکھنا مشکل ہونے لگا اور پیروں کی انگلیاں نہ ہونے کے باعث کھڑے ہونا بھی مشکل تر ہو گیا۔
ایک دن خدمت پور کے مرکزی بازار میں ایک بزرگ آئے جنہوں نے لوگوں کو بتایا کہ یہ ان کے جھوٹ کی سزا ہے۔ اس جھوٹ کی سزا جو انھوں نے اورحان اور قاضی کے متعلق بولا۔ اس دن کے بعد جو بھی جھوٹ بولتا وہ اسی سزا میں مبتلا ہو جاتا۔ لوگ یہ سن کر رونے لگے اور بیساکھیوں کے سہارے کالے پہاڑ کی طرف جانے لگے تاکہ اندھے کنویں پر جا کر اورحان سے معافی مانگی جائے لیکن کوئی بھی کالے پہاڑ کے اوپر نہ پہنچ پاتا۔ ان کے پاؤں ان کا ساتھ چھوڑ جاتے اور ان کے وزنی سر ان کو منہ کے بل گرا دیتے۔
چند مہینوں میں ہی خدمت پور لوگوں سے خالی ہو گیا جو کچھ رہ گئے وہ بھی اردگرد کے ممالک کو ہجرت کر گئے اور باقی گلیوں، بازاروں، جنگل یا پہاڑوں پر اوندھے پڑے مرنے لگے۔ یوں وہ سب جھوٹ کی طرح پاؤں کھو بیٹھے اور منہ کے بل گر گر کر مر گئے۔
- یاسر پیرزادہ اور یونیورسٹی آف نارووال - 08/04/2024
- جو بھی اس پیڑ کی چھاؤں میں گیا بیٹھ گیا - 02/04/2024
- محنت کریں تو احسن اقبال کی طرح - 17/02/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).