منصف یہ کہہ رہا ہے کہ کافر کوئی نہیں


\"dilawar\"جو لطیفے لوگ ہمارے سکھ بھائیوں سے منسوب کرتے تھے اب بہت سے دیگر لوگوں کے بارے میں سنائے یا پڑھے جاسکتے ہیں۔ مثال کے طور پر یہ لطیفہ سنیے اور خود فیصلہ کیجیے کہ یہ اب کس کس پر صادق آتا ہے۔ لطیفہ یوں ہے کہ ایک سردار جی کا آدھی رات کوسگریٹ پینے کو جی چاہا۔اس نے گھر کا کونہ کونہ چھان مارا مگر اسے اس شب ماچس نہ مل سکی بالآخر اس نے سگریٹ پینے کا ارادہ ترک کیا اور ”ہائے اوہ ربا“کہتے ہوئے موم بتی کو پھونک ماری اور سو گیا۔۔۔ ہمارے ہاں کرتا دھرتا لوگوں کا وطیرہ یہ بن گیا ہوا ہے کہ جس طرح مولویت مذہب کے نام پر سیاست کرتی ہے بعینہ فقرا کے نام پر قرضے لے کر یا قوانین پاس کر وا کے اپنے کمیشن کی راہ ہموار کرتے ہیں ۔ جس منصوبے میں سے اپنا حصہ بر آمد نہ ہو، اسے یا تو التوا میں ڈال دیا جاتا ہے یا پھراس کے متبادلات تلاش کیے جاتے ہیں کہ اگر مالی فائدہ نہیں ہو سکتا تو اقربا پروری کر کے اپنے کاسہ لیسوں میں اضافہ کرلیا جاتا ہے یاد رہے کہ یہ ان کے شوق کا آخری درجہ ہے۔ زمانہ جس تیزی سے کروٹیں لے رہا ہے وقت کی دوڑ سے پتہ ہی نہیں چل رہا کہ انسان در اصل ترقی کی جانب محوِ سفر ہے یا بربادی کی جانب۔ اہل اقتدار شہروں کو ترقی دینے کے لیے ان کے نقشے بدلنے میں مصروف ہیں، بین الاقوامی ادارے ان نقوش کی باقیات کو محفوز رکھنے کے لیے گاہے گاہے مدد کرتے رہتے ہیں ۔ ادھر گورنمنٹ کے عجیب و غریب اور نت نئے فیصلوں سے رہائشی سراپا احتجاج بنے بیٹھے ہیں ۔ رہائشیوں کا کہنا ہے کہ سرکار جن تعمیرات کا شوق فرما رہی ہے وہ کسی قانون، منصوبے اور قاعدے کے بغیر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یا تو ان کاموں پر تعینات کرنے والے ماہرین معاملہ فہمی سے ناواقف ہیں یا پھر جان بوجھ کر آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ اس طرح کے تضادات جلد یا بادیر اپنی اصلیت سے نقاب اٹھا دیتے ہیں۔ فرض کر لیں کہ اندروں شہر کی اسی طرح اگر سرعت سے توڑ پھوڑ جاری رہی تو قدرتی آفات سے ہونے والی تباہیوں میں اضافے کو کون روکے گا۔  بارش، آندھیاںاور طوفان اپنی جگہ زلزلوں کے بعد کی کیفیت سے کسے مفر ہے۔ اشرافیہ کی زرخیزی اذہان پر آفرین ہے کہ بھاگی چلی جاتی ہے ۔ نہ پیچھے مڑ کے دیکھتی ہے نہ دائیں نہ بائیں۔ ان سے کوئی کہے کہ بابا جو منصوبہ جس (بظاہر رعیت) کی بہتری کے لیے بنایا ہے ، بنانے کے بعد ان سے رائے بھی لی جائے کہ اس کا ان کو کتنے فیصد فائدہ ہو رہا ہے یا نہیں ہو رہا ۔

کسی نے موجودہ حکومت پر تنقید کرتے ہوئے سوال کیا کہ ان حکمرانوں نے پی پی پی کی حکومت سے کیا سیکھا تو جواب ملا کہ ”برداشت“۔ جواب بالکل ٹھیک تھا۔عوام حکمرانوں پر جتنی بھی تنقید کرتے ہیں اُن کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی نہ ہی کوئی ردِ عمل ہوتا۔ پیارے ملک کے سارے ’ترقیاتی منصوبے “اپنے طے شدہ کلیے پر چل رہے ہیں۔منصوبے بھی رواں دواں ہیں،ان پر تعینات مزدور بھی روزی کما کے گھر جاتے ہیں، اقربا کی بھی چاندی ہے پر عوام کو پتہ نہیں کیوں مروڑ اٹھتے ہیں۔ایسی صورت حال میں عوام کو مروڑوں کی دوائی کھانی چاہیے مگر وہ بھی کہاں سے کھائیں کہ ان کے حصے’ جعلیات‘کے بازار رہ گئے ہیںجہاں اصلی کرنسی، جعلی اشیا کا لین دین چلتا ہے۔ سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میںبھی (سب نہیں)بعض نااہل اساتذہ جعلیات میں بڑی برکت ڈال دیتے ہیں ۔ لے دے کر محبت ہی ایک لافانی جذبہ ہے جو پاکستان کے غیور لوگوں کے زخموں پر مرہم دھر سکتا ہے۔ ہمارے اسحاق ڈار صاحب جن کی ساری محبت کا رخ عموماً آئی ایم ایف کی طرف ہوتاہے جب کہ ان کی محبت کی اصل حقدا رانیس کروڑ ’عوامڑی‘ ان کی پشت پیچھے شاید ان کو نظر ہی نہیں آتی۔اس سچ سے کس کو انکار ہے کہ ہم آئی ایم ایف پر جتنا مرضی اندھا اعتقاد رکھیں پر وہ ہمارے اعدادو شمار کے بارے میں ہمیشہ شک کرتے ہیں۔ اگر چہ ہمارے زرمبادلہ کے کثیر ذخائر میں بہت بڑا حصہ آئی ایم ایف کے قرضوں کا ہی ہے۔ پچھلے تقریباًپونے تین برس سے ہماری قومی اسمبلی اور سینٹ نے کوئی ایسی قانون سازی نہیں کی جس سے اس ملک کے باسی سکھ کا سانس لے سکیں۔ یہ بے چارے بیک وقت مہنگائی، دہشت گردی، کرپشن ، اشرافیہ کے کردار اوران کے غلط فیصلوں کے نتائج بھگت رہے ہیں۔

جب ’سب اچھا‘ سننے والوں کو ’سب اچھا ‘ سنائی دے تو کون ،کس سے ،کیا امید رکھے؟

ہم اس کو چاہتے ہیں اور وہ کسی اور کو
منصف یہ کہہ رہاہے کہ کافر کوئی نہیں

بھلا تو مرتے مرتے بھی کیا جا سکتا ہے یہاں تو پھر بھی ابھی کچھ زندگی کی رمق باقی ہے۔کہا جاتا ہے کہ جب سقراط کو وقت کے غلاموں نے موت کا پروانہ سنایا تو اس نے بلا توقف موت کا پیالہ ہونٹوں سے لگا لیا۔یہ سب دیکھ کر اس کے شاگرد زارو قطار رونے لگے۔سقراط نے پوچھا کہ ایسا کیوں کر رہے ہو تو اس کے شاگردوں نے جواب دیا کہ ہم سے یہ برداشت نہیں ہو رہا ۔ آپ بے گناہ مارے جا رہے ہیں۔اس پر سقراط بولا کہ’ کیا تم یہ چاہتے ہو کہ میں گناہ کرتے ہوئے مارا جاﺅں؟‘ یہ سن کرسب خاموش ہو گئے۔پھر کیا ہوا۔۔۔ یہ کھیل آپ سب جانتے ہیں کہ مارنے والوں کا نام و نشان تک مٹ گیا اور سقراط اپنے وژن اور غیرت سمیت لوگوں کے دلوں پر راج کر رہا ہے۔

پی آئی اے کی نجکاری کے کیا ثمرات یا نقصانات ہوں گے ہم کیا جانیںجنم جنم کے اناڑی۔ہمیں کیا پتہ کہ جو بھی نیا دن طلوع ہوتا ہے ،پی آئی اے ہمیں دس کروڑ کا انجکشن لگاتی ہے۔اسی طرح لیسکو کتنا گھاٹے یا فائدے میں جا رہی ہے اور ہماری چھمک چھلو ریلوے کیا دے رہی ہے اس کی اراضی پربنے ہوئے کئی کئی کنال پر گھروں میں کون ریٹائرڈ یا حاضر افسران قابض ہیں ۔ہمیں تو یہ سوچنے کابھی ہوش نہیں کہ جو بل پچھلے ماہ کے کھاتے میں جمع کروایاتھا ، اسے بار دیگر دیکھ لیں کہ متعلقہ محکمے کی نا اہلی کی وجہ سے ماہ رواں میں دوبارہ تو نہیں ڈال دیا گیا۔ابھی پچھلا بل ادا کر کے پسینہ بھی نہیں سوکھتا کہ اگلے مہینے کا بل ہوش ٹھکانے لگادیتا ہے۔کبھی خوش بختی سے دھیان دوسری جانب چلا جائے تو دہشت گردی یا فرقہ پرستی ہماری خوشیوں کو پامال کر دیتی ہے ۔آپ نے مذہب کے لیے لڑتے،اس کے لیے مخالفت کرتے،اس کے لیے حمایت کرتے اور اس کے لیے مرتے مارتے وافر تعداد میں دیکھے ہوں گے مگر مذہب کے مطابق زندگیوں کو آسودہ کرتے معدودے چند ہی رہ گئے ہیں۔

دانشور تو وہ ہوتا ہے جو اپنے فکر سے دوسروں کو قائل کرے اگر ایسا نہ ہو سکے تو معذرت کرے یا خاموش رہے۔بھلے وقتوں اشرافیہ بھی کیا کمال کی ہوتی تھی ۔صرف بادشاہ یا شہزادے ہی فطین نہیں ہوا کرتے تھے بلکہ ان کے امیر، وزیر اور مشیر بھی نابغہ روز گار ہوتے تھے۔ ایک دفعہ کسی مشیر سے اس کے بادشاہ نے پوچھا کہ

\”بندوں کی خدمت کرنے کے لیے کون سا دن بہترین دن ہوتا ہے \”

مشیر نے بلاتوقف کہا:

”حضور!موت سے ایک دن پہلے۔۔۔!“

بادشاہ سلامت نے حیران ہو کر کہا :

”یہ کیا بات ہے، موت کا دن توبادشا ہ سمیت کسی کے علم میں نہیں ہے“

اس نے جواب دیا:

”بادشاہ سلامت !ہر دن کو زندگی کا آخری دن سمجھ کر ہی بندوں کی بہترین خدمت ہو سکتی ہے۔“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments