لاڈلا دل باولا دل


دل لاڈلا ہی نہیں باولا بھی ہے۔ کھیلنے کو چاند تارے مانگتا ہے۔ اس بحث پر مصر ہے کہ پاکستان میں خالصتاً جمہوریت ہو۔ خالص تو کیا نیم جمہوریت بھی ہماری نیند میں خلل لا سکتی ہے؟ بھلا اس احمق سے پوچھو جو چیز ہماری آب و ہوا کے موافق نہ ہو، وہ کیسے ممکن ہے یہاں قدم جما سکے! جمہوریت یونانی زبان کے دو الفاظ ”ڈے موس“ اور ”کراتوس“ کی پیدائش ہے۔ یہ دو الفاظ جمہوریت کے تصور کی بنیاد ہیں۔ ”ڈے موس“ جس کے معنی شہری یا عوام اور ”کراتوس“ معنی طاقت یا طرز حکمرانی۔ ”عوام پر عوام کے ذریعے عوام کی حکومت“ ۔ پاکستان کے حالات کے پیش نظر یہاں جمہوریت کی گنگا کو الٹا بہایا جاتا ہے۔ جہاں عام لوگوں کی بجائے خاص لوگ ہی اس فریضے کو سرانجام دیتے ہیں۔

پاکستانی عوام دو طبقات پر مشتمل ہیں۔ ایک طبقے کو روٹی، کپڑا، مکان کے علاوہ سماجی اور معاشرتی قسم کے دیگر مسائل در پیش ہیں۔ لہذا ان کو جمہوریت کے اس عمل سے بری الذمہ قرار دیا جاتا ہے۔ جبکہ دوسرا مقدس طبقہ پوتر گایوں پر مشتمل ہے۔ یہی مخصوص لوگ پاکستان میں مختار کل ہیں۔ پاکستان کے خیر خواہ ہیں۔ باقی سب تو خواہ مخواہ ہیں۔ ان کا دست شفقت کسی نہ کسی سر پر سایہ فگن رہتا ہے۔ حالاں کہ ان پوتر گائیوں سے بدنامی، خواری، ذلت اور پسماندگی کے سوا کچھ نہیں ملا۔ اپنا لوہا منوانے کے چکر میں انہوں نے بردہ فروشی کی رسم ڈالی۔ سرمایہ داری نظام کی سرپرستی میں دولت کی دیوی خوشحال طبقوں کے گھروں میں جا بسی۔ غریبوں کے نام کی مالا جپتے رہے اور امیر عیش کرتا رہا۔

اس دیس کا سکہ رائج الوقت حصول اقتدار ہے۔ جس رنگ میں، جس طور ملے غنیمت۔ اصول فقط ایک ہے ؛ کوئے یار چلو، خواہ سر کے بل جانا پڑے۔ دست شفقت سے محرومی کو زوال سمجھا جاتا ہے۔ اس طرح حصول اقتدار کے بعد ریوڑیاں اپنوں میں ہی بانٹی جاتی ہیں۔ جمہوری نظام کی یہ مخصوص شکل سنگین قومی بحران کی آئینہ دار ہے۔

لیپا پوتی ہم کو نہیں آتی۔ کیکر اور ببول کی خاردار جھاڑیوں پر انگور کے گچھے نظر نہیں آتے۔ کیفیت کافی گمبھیر ہوتی جا رہی ہے۔ کشتی جیسے ڈوبنے کو ہے۔ مگر ناخدا کو احساس تک نہیں۔ کبھی کبھی گمان ہوتا ہے، ناخدا کے روپ میں لٹیروں نے چپو تھام رکھے ہیں۔ جو پھنور میں پہنچا کر بھاگنے کو تیار ہیں۔ ہر شاخ پر الو بیٹا ہے۔ کئی ایک تو دو دو ڈالیوں پر پنجے جمائے بیٹے ہیں۔ خون کی چڑھتی ندی ہے۔ اس سیلاب بلا میں شدت کا خدشہ ہے۔ کشتی اس کھیون کو ترس رہی ہے جو اپنا من دھن ہار کر اسے ساحل پر لگا دے۔

ہماری 75 سالہ تاریخ ہم کو سبق دینے سے قاصر ہے۔ ہم شاید غفلت کی نیند سو رہے ہیں۔ ملک خدا داد کے دو ٹکڑے ہو گئے۔ جس پر ہماری آنکھیں پھٹ جانی چاہیے تھیں مگر ہماری آنکھیں کھل نہ سکیں۔ موجودہ الیکشن میں صورتحال ماضی کی عین مطابق ہے، پرنالہ وہیں کا وہیں ہے۔ جہاں ایک طرف بھاری اکثریت حاصل کرنے والی جماعت کو نظرانداز کیا جا رہا ہے۔ وہیں دوسری جانب بھان متی اپنے کنبے کو جوڑنے کے لیے کہیں سے اینٹ اور کہیں سے روڑے اکٹھے کر رہی ہے۔

آپا دھاپی کی وبا عام ہے۔ ٹامک ٹوئیاں ماری جا رہی ہیں کہ جو پیا من بھاوے گا وہی اقتدار میں آوے گا۔ جمہوریت کے بیل کو منڈھے چڑھانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اب دیکھیے ہما کس کے سر پہ بیٹھتا ہے۔

لاڈلا دل تو چاہتا ہے کہ ہما اس کے سر بیٹھے جو اس کا حق دار ہو۔ جمہوریت خالص ہو۔ دونوں طبقوں کے عوام مل کر فیصلہ کریں۔ جس مقصد کے لیے اس وطن عزیز کو حاصل کیا تھا اس کو پورا کریں۔ حصول اقتدار محض اس لیے ہو کہ عوام کی خدمت کرسکیں، ان کی بھلائی کرسکیں۔ ناخدا ایسا ملے جو کشتی کو بھنور سے نکالے۔ ایسا کھیون جو اپنا من دھن ہار کر اسے ساحل پر لگا دے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments