مغرب کی ہوس ناکیوں کا شکار ۔۔لیبیا


\"asafپانچ سال پہلے 15 فروری کو عرب بہار کی آڑ میں مغربی طاقتوں نے لیبیا کے سربراہ معمر قذافی کا تختہ الٹنے اور لیبیا کے تیل اور سونے کی دولت پر قبضہ کرنے کے لئے باغیوںکی شورش برپا کی تھی اور باغیوں کی مدد کے لئے ایسی تباہ کن بمباری کی تھی کہ لیبیا کے شہر کے شہر کھنڈر بن کر رہ گئے۔ کئی ہزار افراد ہلاک ہوگئے ، پانچ لاکھ سے زیادہ لیبیائی جو پورے افریقہ میں سب سے زیادہ خوشحال مانے جاتے تھے نادار اور بے گھر ہوگئے اور معمر قذافی اپنی حکومت سے بھی گئے اور اپنی جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے۔ لیکن مغربی طاقتوں کے ہاتھ کچھ نہ آیا نہ وہ لیبیا پر اپنا تسلط جماسکے اور نہ تیل اور سونے کی دولت پر قبضہ کر سکے۔
پانچ سال تک مسلسل تباہی اور بربادی کے بعد لیبیا کے عوام اب کف تاسف ملتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ کیا قذافی کا تختہ الٹنے کے لئے مغربی طاقتوں کی فوجی مداخلت دانش مندانہ تھی؟ دانش مندانہ ہو یا نہ ہو لیکن بلا شبہ عیارانہ تھی اور اس کے پیچھے ہوس ناکی کارفرما تھی۔
صدر بش کے دور کے نایب وزیر دفاع ڈگلس فیتھ نے عراق کی جنگ کے بارے میں اپنی کتاب میں یہ انکشاف کیا ہے کہ 9/11سے بہت پہلے امریکا نے معمر قذافی کا تختہ الٹنے کا منصوبہ بنا لیا تھا۔ 2001میں امریکا کے وزیر دفاع ڈانلڈ رمسفیلڈ نے صدر بش کو امریکا کے فوجی مقاصد کے بارے میں جو دستاویز پیش کی تھی اس میں کہا گیا تھا کہ بنیادی مقصد نہ صرف عراق میں صدام حسین کی حکومت کو ہٹانا ہے بلکہ ایران اور شام کے ساتھ مشرق وسطی کے چار ملکوں ، لیبیا، سوڈان ، صومالیہ اور لبنان میں حکومتیں تبدیل کرنا ہے۔
امریکا اور اس کے اتحادی 1969سے معمر قذافی سے سخت ناراض جلے بیٹھے تھے جب انہوں نے لیبیا میں غیر ملکی بینکوں کے پچاس فی صدسرمایہ کو قومی ملکیت میں لے لیا تھا اور ایک سال بعد تمام غیر ملکی بینک قومی تحویل میں آگئے تھے اور 70 ءکے عشرہ میں تیل اور گیس کو قومی ملکیت میں لینے کا عمل شروع ہو گیا تھا۔
مغربی طاقتوں کے صبر کا پیمانہ اس وقت لبریز ہو گیا جب قذافی نے لیبیا کے تیل کے ذخائر کو قومی ملکیت میں لینے کا اعلان کیا تھا اور کہا تھا کہ تیل کی دولت لیبیا کے عوام کی دولت ہے اور اسے انہیں اپنی خوشحالی کے لئے استعمال کرنے کا حق ہے۔
اسی وقت مغربی قوتوں نے قذافی کا تختہ الٹنے کا فیصلہ کر لیا تھا لیکن اس وقت اس پر عمل درآمد کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ لیبیا کا جوہری پروگرام اور جوہری اسلحہ بنانے کی اس کی صلاحیت تھی۔ مغربی اتحادیوں نے ٹونی بلیر کے سپرد یہ مشن دیا کہ وہ قذافی کو اپنا جوہری پروگرام لپیٹنے اور ساری تنصیبات امریکا کے حوالہ کرنے کے لئے آمادہ کریںتاکہ معمر قذافی کے خلاف کاروائی کی راہ میں حایل رکاوٹ دور کی جاسکے چنانچہ ٹونی بلیر2004 میںبھاگے بھاگے طربلس گئے اور معمر قذافی سے ملاقات کی اور ان کو خبردار کیا کہ ان کا حشر بھی صدام حسین جیسا ہوگا اور بہتر یہ ہے کہ وہ اپنا جوہری پروگرام ترک کر کے ساری تنصیبات امریکا کے حوالہ کر دیں ۔ ٹونی بلیر نے معمر قذافی کو ایسی عیاری سے شیشہ میں اتارا کہ وہ فورا اپنی ساری جوہری تنصیبات جہاز میں لادکر امریکا کے حوالہ کرنے کے لئے تیار ہوگئے۔اب مغربی قوتوں کے لئے قذافی کا تختہ الٹنے کا میدان صاف تھا۔ وہ صرف کاروائی کے لئے مناسب وقت کا انتظار کر رہے تھے
امریکا اور اس کے مغربی اتحادی اس وقت سخت بھڑک اٹھے جب انہیں خفیہ ذرایع سے یہ خبر ملی کہ معمر قذافی نے لیبیا کے سنٹرل بنک کو سو فی صد قومی ملکیت میں لینے اور دینار کی کرنسی کے اجراءکے بعد افریقہ کا ایک مرکزی بنک کے قیام کا منصوبہ بنایا ہے اور اس مقصد کے لئے 150ٹن سونا مخصوص کیا ہے ۔ اس منصوبہ کے تحت معمر قذافی کی یہ تجویز تھی کہ امریکا کو لیبیا کا جو تیل فروخت کیا جاتا ہے اس کی قیمت مجوزہ افریقی کرنسی گولڈ دینار میں وصول کی جائے گی ۔
امریکا کو شدید خطرہ تھا کہ افریقی سنٹرل بنک کے قیام اور افریقی گولڈ دینار کرنسی کی وجہ سے ڈالر ڈوب جائے گا اور دنیا کے مالی نظام پر امریکا کا تسلط ختم ہو جائے گا ۔ معمر قذافی 2009میں افریقی اتحاد کے سربراہ تھے انہوں نے یورپی یونین کی طرز پر افریقی مشترکہ منڈی کے قیام کی تجویز پیش کی تھی اس کی وجہ سے امریکا اور مغربی اتحادیوں کے ہاتھ سے پورا فریقہ کا بر اعظم نکل جاتا ۔
ان خطرات کے پیش نظر مغربی اتحایوں نے معمر قذافی کا تختہ الٹنے کا منصوبہ تیار کیا تھا۔ اس منصوبہ پر عمل ۔ تونس میں انقلاب نے راستہ کھول دیا اور مغربی قوتوں نے خاموشی سے معمر قذافی کے مخالفین کو شورش کے لئے بھڑکایا اور بن غازی کے راستہ بڑے پیمانہ پر اسلحہ فراہم کیا ۔ اور جیسے ہی معمر قذافی نے شورشیوں کے خلاف فوجی کاروائی کی تو ناٹو ان باغیوں کی مدد کے لئے لیبیا میں کود پڑی اور خونریز خانہ جنگی شروع ہو گئی۔
ایسا معلوم ہوتا تھا کہ مغربی قوتیں معمر قذافی کا تختہ الٹنے اور انہیں صفحہ ہستی سے ختم کرنے کے جنون میں اس قدر دیوانہ ہو گئی تھیں کہ انہوں نے ایک لمحہ کے لئے بھی اس پر غور نہیں کیا کہ معمر قذافی کے بعد جو خلاءپیدا ہوگا وہ کیسے پر کیا جائے گا اور لیبیا میں حکمرانی کا کون ذمہ دار ہوگا۔ اس بارے میں قطعی کوئی منصوبہ نہیں تھا۔ گو جولائی 2012میں عام انتخابات منعقد ہوئے جس کے نتیجہ میں عبوری پارلیمنٹ اور عبوری حکومت تشکیل کی گئی ۔ پارلیمنٹ کو نیا آئیں مرتب کرنے کا کام سونپا گیا تھا لیکن اس میں سراسر ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ 2014میں ایوان نمایندگان کے لئے انتخابات ہوئے لیکن اقتدار نئی حکومت کو منتقل نہ ہو سکا۔ طرابلس میں قایم حکومت پر باغیوں اور مسلح قبائیل نے قبضہ کر لیا اس کے مقابلہ میں مشرق میں طبرق میں مغرب نواز وں نے اپنی الگ حکومت قایم کر لی۔ ملک میں دو حکومتوں اور دو پارلیمنٹوں کے درمیان ایسی معرکہ آرائی شروع ہوئی جو پانچ سال سے برابر جاری ہے۔ مغربی طاقتوں نے اقوا م متحدہ کے ذریعہ دونوں حکومتوں کے درمیاں مراکش میں جا کر صلح کرائی ہے اور متحدہ حکومت کی تشکیل کی کوشش کی ہے جو ابھی تک بار آور ثابت نہیں ہوسکی ہے۔
1967میں جب شاہ ادریس کو تخت سے اتار کر فوج کے بل پر معمر قذافی بر سر اقتدار آئے تھے تو اس وقت لیبیا افریقہ کا غریب ترین ملک تھا لیکن چالیس سال کے دور میں قذافی نے تیل کی دولت کواور غیر ملکی بنکوں کو مغربی تسلط سے آزاد کرا کے ملک کو افریقہ کا سب سے زیادہ خوشحال ملک بنا دیا۔ قذافی کے دور میں ہر شہری کو مفت صحت کی سہولت حاصل تھی ، ہر شہری کے لئے ہر سطح پر تعلیم مفت تھی، بجلی بالکل مفت تھی ، نئے شادی شدہ جوڑوں کو حکومت کی طرف سے وافر مالی امداد دی جاتی تھی تاکہ وہ خوش حال زندگی بسر کر سکیں۔ شہریوں کو بلا سود قرضوں کی سہولت حاصل تھی ۔ معمر قذافی کے دور سے پہلے گنی چنی لڑکیاں یونیورسٹی جاتی تھیں لیکن پچھلے چالیس برس میں یونیورسٹیوں میں طالبات کی تعداد نصف سے زیادہ ہے اور ساتھ فیصد خواتیں بر سر روزگار ہیں۔ لیبیا نہ صرف شمالی افریقہ کے ملکوں کے شہریوں کو روزگار فراہم کرتا تھا بلکہ مشرق وسطی اور جنوبی ایشیا کے شہریوں کے لئے بھی روزگار کے دروازے کھلے تھے۔
اس وقت مغربی طاقتوں کو سب سے زیادہ خطرہ داعش سے ہے جو بڑی تیزی سے طرابلس اور آس پاس کے علاقوں میں پھیل رہی ہے اور اب اس کی سپاہ تیل کی تنصیبات کی جانب بڑھ رہی ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ داعش کا مقابلہ کرنے اور اس کا قلع قمع کرنے کے لئے مغربی قوتیں تیاریاں کر رہی ہیں اور امریکا اور برطانیہ کی فوج کے خاص دستے لیبیا پہنچ چکے ہیں ۔ ان دستوں کی پیش رفت کے لئے راہ ہموار کرنے کے
لئے بڑے پیمانہ پر بمباری کا منصوبہ ہے۔ غرض لیبیا کو پانچ سال بعد پھر ایک بار تباہی اور بربادی کا سامنا ہے۔
کہیں تو کاروانِ درد کی منزل ٹھہر جائے۔

آصف جیلانی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

آصف جیلانی

آصف جیلانی لندن میں مقیم پاکستانی صحافی ہیں۔ انہوں نے اپنے صحافتی کرئیر کا آغاز امروز کراچی سے کیا۔ 1959ء سے 1965ء تک دہلی میں روزنامہ جنگ کے نمائندہ رہے۔ 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران انہیں دہلی کی تہاڑ جیل میں قید بھی کیا گیا۔ 1973ء سے 1983ء تک یہ روزنامہ جنگ لندن کے ایڈیٹر رہے۔ اس کے بعد بی بی سی اردو سے منسلک ہو گئے اور 2010ء تک وہاں بطور پروڈیوسر اپنے فرائض انجام دیتے رہے۔ اب یہ ریٹائرمنٹ کے بعد کالم نگاری کر رہے ہیں۔ آصف جیلانی کو International Who’s Who میں یوکے میں اردو صحافت کا رہبر اول قرار دیا گیا ہے۔

asif-jilani has 36 posts and counting.See all posts by asif-jilani

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments