ملتان کے عظیم فٹ پاتھ


شکر ہے ہمارے ملک میں فٹ پاتھ کم ہیں اور ویسے بھی خواہ مخواہ یہ روڈ کی جگہ گھیر لیتے ہیں۔ شاید انتظامیہ کے مطابق فٹ پاتھ نہ ہونے سے روڈ کشادہ رہتی ہے اور ٹریفک کی رفتار تیز رہتی ہے۔ لوگ بھی روڈ کے اوپر چلنا فخر محسوس کرتے ہیں اور انسان کی شان میں اضافہ ہوتا ہے۔ تارکول والی سڑک پر چلنے سے انسان ”کوول“ ( انگریزی والا) بھی لگتا ہے۔

پاکستان میں ٹریفک سڑک کے بائیں ہاتھ پر چلتی ہے۔ پیدل چلنے کا اصول یہ ہوتا ہے کہ ہمیشہ ٹریفک کے مخالف سمت چلنا چاہیے، یعنی سڑک کے دائیں ہاتھ چلیں تاکہ سامنے سے آنے والی ٹریفک کو دیکھ سکیں۔

کام کی بات یہ کرنی تھی کہ چھوٹے بچوں کے ساتھ سڑک پر چلتے وقت ان کو کنارے کی سمت رکھا کریں۔ اس معاملے میں خواتین و حضرات، دونوں کا رویہ ہمیشہ ایک سا دیکھا گیا ہے۔ بچے کا الٹا ہاتھ اپنے سیدھے ہاتھ میں پکڑ کر سڑک کے بائیں طرف چلے جا رہے ہیں۔ یوں بچہ تیز رفتار ٹریفک والی طرف ہوتا ہے اور بڑا کنارے کی طرف۔

اے ایمان والو! یہاں تو سکون سے کونے میں کھڑی گاڑی کو کوئی بائیک والا لہراتا بل کھاتا ہوا آ کر ٹکر مار جاتا ہے تو آپ تو بچوں کو سانڈ جیسی ٹریفک کے سامنے لے کر چل رہے ہوتے ہیں۔ ٹھیک ہے سیدھے ہاتھ کی پکڑ زیادہ ہوتی ہے اور دنیا میں زیادہ تعداد سیدھے ہاتھ سے کام کرنے والوں کی ہے لیکن بچے سڑک پر لاتے وقت اتنا خیال ضرور رکھا کریں تاکہ کسی بھی طرح کے حادثے سے بچا جا سکے۔

میں ملتان میں رہتا ہوں اور قدیم روایات کے حامل اس شہر میں فٹ پاتھ ایجاد فرنگی سمجھے جاتے ہیں اور اگر کہیں موجود ہوں تو نظروں سے اوجھل اور سہمے سہمے سے رہتے ہیں۔ زیادہ تر کچرے کی زرق برق پوشاک اوڑھے رہتے ہیں یا پان کی پیکوں سے تر ہو کر حنائی رنگ میں ڈوبے رہتے ہیں۔

لیکن آپ یہ مت سمجھیے کہ اگر قسمت سے فٹ پاتھ نظر آ ہی گیا ہے تو اس پر چلنے کے لیے آپ آزاد ہیں۔ ہوشیار رہیں کہ اچانک کہیں سے کسی چلتے موٹر سائیکل والے کو یاد آ سکتا ہے کہ اس کی امی نے جو خشخاش اور ساگودانہ منگوایا تھا اس کی دکان تو پیچھے رہ گئی۔ وہ جوان کا بچہ پھر نہ آپ کو دیکھے گا اور نہ آپ کے بچے کو۔ وہ جس بھی خدا کو مانتا ہے اس کا نام لے کر پھنسی ٹریفک سے نکلنے کے لیے موٹر سائیکل فٹ پاتھ پر چڑھا دے گا اور اپنی والدہ کا حکم بجا لانے میں کوتاہی نہ کرے گا۔

اکثر فٹ پاتھ اتنے اچھے ہوتے ہیں کہ بغیر کچھ کہے بالکل سامنے کھلنے والے سیگرٹ کے کھوکھوں کے گاہکوں کے لیے بیٹھ کر سوٹے لگانے کی راہ ہموار کر دیتے ہیں۔ کوئی تنور کھل جائے تو مہمانوں کی کرسیاں اپنے اوپر سجا کر ان کو آرام سے کھانا کھانے کا موقع دیتے ہیں۔ اور کیوں نہ دیں، پیدل چلنے والوں کے لیے اتنی بڑی سڑک بنا تو دی گئی ہے۔ اور ایسے جاں نثار فٹ پاتھ بھی ہوتے ہیں کہ آلو کے چپس اور گول گپوں کی ریڑھیوں کا پورا بازار اپنے اوپر ”سجوا“ لیتے ہیں اور اف تک نہیں کرتے۔ یقین نہ آئے تو آرٹس کونسل ملتان کے سامنے والے پارک تشریف لائیے۔

سڑک کی دو لائنیں ہیں جن میں سے ایک کرسیوں اور پارکنگ کے لیے مختص کر دی گئی ہے اور ایک ٹریفک کو رواں رکھنے کے لیے جس سے شکر ہے ٹریفک انتہائی آہستہ چلتی ہے یہاں تک کہ رش کا خوب صورت سماں بندھ جاتا ہے۔ ایسے میں پیدل چلنے والے لوگوں کو کافی محنت کرنی پڑتی ہے اپنا راستہ بنانے کے لیے۔ اور محنت میں ہی عظمت ہے۔ بعض اوقات تو ٹریفک، ریڑھیوں اور لوگوں کا اتنا رش ہوتا ہے کہ بہت لمبا چکر کاٹ کر منزل تک جانا پڑتا ہے اور لمبی واک کر کے عوام صحت مند بھی رہتے ہیں۔

ملتان میں پل براراں چوک کے اطراف میں زبردست ترقیاتی کام کیا گیا ہے۔ عوام الناس کی صحت کا خیال رکھتے ہوئے وہاں فٹ پاتھ کی جگہ میڈیکل سٹور بنا دیے گئے ہیں۔ اب لوگ سڑک پر ہی گاڑی اور موٹر سائیکل روک کر دوا خرید سکتے ہیں۔ دو دن پہلے میں نے یہ تجربہ کیا اور ایسی سیٹنگ لگانے والوں کو دل میں اونچی آواز سے داد بھی دی۔ اب اس علاقے میں پھل کی ریڑھیاں لگانے والوں کے لیے نئے فٹ پاتھ بنانے کا کام جاری ہے۔

آپ کے شہر میں بھی اگر فٹ پاتھ انہی حالات میں ہیں تو فکر نہ کریں، وہ بھی جلد ختم ہو جائیں گے۔ بس پھر ہر جانب سڑک ہی سڑک ہو گی اور ملک ترقی کر جائے گا۔

خاور جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

خاور جمال

خاور جمال 15 سال فضائی میزبانی سے منسلک رہنے کے بعد ایک اردو سوانح ”ہوائی روزی“ کے مصنف ہیں۔ اب زمین پر اوقات سوسائٹی میں فکشن کے ساتھ رہتے ہیں۔ بہترین انگریزی فلموں، سیزن اور کتابوں کا نشہ کرتے ہیں۔

khawar-jamal has 53 posts and counting.See all posts by khawar-jamal

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments