ایک انوکھی رات


جوں ہی روشن آفتاب اہل شرق سے شعاعیں اپنے دامن میں سمیٹ کر اہل غرب کی سرد آغوش میں چلا گیا۔ زرد چہرہ اور ڈھیلا جسم لے کر مغرب کے دامن میں عارضی نیند سو گیا۔ جیسا کہ کوئی عاشق عشق کے عارضے میں مبتلا اپنے محبوب کی بانہوں میں دم توڑتے دکھائی دیتا ہو۔ سورج کے غائب ہوتے ہی اندھیرے ہر طرف سے جھانکنے لگے۔ دیکھتے ہی دیکھتے ہر طرف اندھیرا چھا گیا۔ تاریکی نے انسانی آبادی پر وحشت کے سنگین پر پھیلائے۔ زمین پر ہو کا عالم طاری ہوا۔ پرندے اپنے آشیانوں میں تنکوں کے نرم بچھونے ڈال کر سونے لگے۔ درندہ صفت جانور اپنی کچھاروں میں تھکن سے پنجے پھیلا کے آرام کرنے لگے۔ غاروں میں کچھووں نے اپنے سر سخت خولوں کے درمیان سکیڑ کر آنکھیں موند لیں۔ زمیں زادوں کی چہل پہل کم ہونے لگی اپنے گھروں اور ٹھکانوں کی جانب لوٹنے لگے۔

تارے عروسی لباس پہن کر غمزہ دکھانے آسمان پر جلوہ گر ہو گئے۔ آسمان کی جھولی ہولے ہولے چمکتے تاروں سے بھر گئی۔ دیکھتے ہی دیکھتے آسمانی منظر جادوئی اور طلسماتی کیفیت اختیار کر گیا جیسے بلند ہوا میں موتیاں اور جواہرات معلق ہوں۔ شہر کی ویران سڑکوں پر ٹھنڈی ہوائیں سرگوشیاں کرنے لگیں۔ تنگ و تاریک گلیوں میں اداسیاں محو رقص تھیں۔ سڑکوں کے کنارے کچروں کے غلیظ ڈھیروں پر تاریکی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے جنات زمین پر نفاق اور فتنہ و فساد پھیلانے کے لیے گنڈے تعویز کو گرہیں لگا رہے تھے۔ تخیل میں آیا کہ کوئی جن برق رفتاری سے پھدک کر میری طرف آئے گا اور مجھے دبوچ کے چلا جائے گا۔ میرے جسم میں خون خشک ہونے لگا۔ ہر طرف سے وحشت انسانی بستی پر چھائی ہوئی تھی۔ ظلمت کے پنجے گاڑ کے دل چیر کر دینے والا خوف طاری تھا۔ بستی پر گویا جنات کی حکمرانی تھی۔

سڑک کے ایک جانب سنگین اور وسیع مکانوں میں نازک مزاج لوگ دن بھر کی تھکن سے چور استراحت فرما رہے تھے۔ ایک کوٹھی کی شیشوں والی کھڑکی سے ہلکی روشنی باہر کو تنگ گلی کی نکڑ پہ پڑ رہی تھی۔ مکانوں کے گرد دھندلکی سی روشنی تھی۔ جس کو دیکھتے یہ احساس ہوتا تھا کہ زندگی کی رمق باقی ہے۔

دوسری جانب مٹی کے گھروندے تاریکی میں ڈھکے چھپے تھے۔ جن کے نزدیک دیو قامت درختوں کا جھنڈ تھا۔ ان کی لمبی جھکی اور پھیلی ہوئی ٹہنیوں پہ چمگادڑ الٹے لٹک رہے تھے۔ یہاں زندگی ساکن تھی۔ زمین پر جھینگر، کنکھجور کی چر چر کی خوفناک آوازیں تھیں۔ خون خوار کتے آپس میں بھڑ رہے تھے۔ خوف و ڈر کی موجیں دل میں ٹھاٹھیں مار رہی تھیں۔ حلق خشک ہونے لگا۔ میں آسماں کی طرف تکتا اور محسوس کر رہا تھا جیسے کائنات کا ہر زرہ ایک دوسرے کے ساتھ برسر پیکار ہو۔

اس لمبی اور اداس سڑک پر ایک خوبصورت نوجوان جوڑا بانہوں میں بانہیں ڈال کر خراماں خراماں آ رہا تھا۔ وہ دونوں نرم اور دھیمی آواز میں باتیں کر رہے تھے۔ نزدیک آنے پر یہ ظاہر ہوا کہ ان کی آنکھوں میں ایک عجیب قسم کی چمک تھی۔ ایسا ظاہر ہو رہا تھا کہ دونوں ایک لمبا ہجر گزار کے اب لمحہ وصال سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ وہ جب گزرے ہی تھے کہ فطرت اچانک بدل گئی اور اچانک اس ویران سی سڑک کے کنارے ایک چھوٹے سے مکان کے اندر بتیاں جل اٹھیں۔

زندگی میں جنبش آ گئی۔ تاریک دیواروں پر روشنی پھیل گئی۔ ستارے مزید چمکنے لگے۔ چند روشن خیال نوجوان کے قہقہوں سے سماں معطر ہونے لگی۔ آزادی اور محبت کے نغمے گونج اٹھے رقص و سرود کی محفل سج گئی۔ دھمال مچ گئی۔ نوخیز لڑکے مدہوشی کے عالم میں سر ہلاتے لڑھکتے قلندرانہ رقص میں غریق ہوئے۔ کائنات بھی ساتھ جھومنے لگی۔ سحر طلوع ہونے تک محبت کے نغمے فضاؤں میں گونج رہے تھے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments