’سیاحوں کی جنت‘ میں اسرائیلی شہریوں کے داخلے پر پابندی کیوں لگی
صدر محمد معیزو کے دفتر نے اتوار کے دن کہا کہ کابینہ نے اسرائیلی پاسپورٹ رکھنے والوں کو ملک میں داخل ہونے سے روکنے کے لیے قوانین میں تبدیلی کا فیصلہ کیا ہے۔
مالدیپ کے صدر کے دفتر نے ایک پریس ریلیز جاری کی جس میں کہا گیا کہ صدر معیزو نے یہ فیصلہ کابینہ کی سفارشات پر کیا ہے۔ صدر کے دفتر نے اس عمل کی نگرانی کے لیے ایک ذیلی کمیٹی بنانے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔
اس فیصلے کے بارے میں ملک کے وزیر داخلہ علی احسن نے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ اس ذیلی کمیٹی میں وزیر داخلہ کے ساتھ اسلامی وزیر، اٹارنی جنرل، وزیر اقتصادیات، وزیر سیاحت اور وزیر خارجہ بھی شامل ہوں گے۔
مالدیپ نے اسرائیلی شہریوں پر پابندیاں عائد کرنے کے علاوہ فلسطین کے حوالے سے بھی اہم فیصلے کیے ہیں۔
فلسطینی عوام کے لیے کیا فیصلہ کیا گیا؟
مالدیپ کے صدر کے دفتر کے مطابق صدر محمد معیزو ایک خصوصی ایلچی مقرر کریں گے جو فلسطینیوں کی ضروریات کا جائزہ لیں گے اور ان کے لیے رقم جمع کرنے کی مہم بھی شروع کریں گے۔
یہ رقم فلسطینی علاقوں میں بے گھر ہونے والے افراد کی مدد کے لیے استعمال کی جائے گی۔
اس کے علاوہ یہ ایلچی صدر کو یہ بھی مشورہ دے گا کہ فلسطینی عوام کو مالدیپ کی کہاں ضرورت ہے۔
مالدیپ کی کابینہ نے بھی ایک قومی مارچ نکالنے کا فیصلہ کیا ہے، جسے ’پیپل آف مالدیپ ود فلسطین‘ کا نام دیا گیا ہے۔
کابینہ کے اس فیصلے میں مالدیپ اسلامی ممالک کے ساتھ ایک اجلاس منعقد کرنے اور فلسطین تنازع کے معاملے پر ایک تجویز پیش کرنے کا بھی ارادہ رکھتا ہے۔
مالدیپ کی حکومت کی جانب سے اسرائیلی عوام پر پابندیاں عائد کرنے کا فیصلہ حزب اختلاف کے ایک رہنما کی کوششوں کے بعد کیا گیا ہے۔
مرکزی اپوزیشن مالدیپ ڈیموکریٹک پارٹی (MDP) کے رہنما میکائیل احمد نسیم نے گذشتہ ہفتے اسرائیلی شہریوں کے داخلے پر پابندی کے لیے امیگریشن قانون میں ایک ترمیم متعارف کرائی تھی۔
مالدیپ میں نئی پارلیمنٹ نے گذشتہ ہفتے چارج سنبھالا، جس کا دوسرا اجلاس پیر سے شروع ہو رہا ہے۔
حال ہی میں ہونے والے انتخابات میں، مرکزی حکمران جماعت پیپلز نیشنل کانگریس (PNC) نے پارلیمنٹ میں بھاری اکثریت حاصل کی، جس نے 93 میں سے 75 نشستیں جیت لیں۔
اسی دوران دارالحکومت مالے شہر میں عام لوگ غزہ میں اسرائیلی حملوں کے خلاف مہینوں سے احتجاج کر رہے تھے اور اسرائیلی شہریوں کے ملک میں داخلے پر پابندی کا مطالبہ کر رہے تھے۔
- ’انڈیا آؤٹ‘ کا نعرہ دینے والے مالدیپ کے نئے صدر محمد معیزو کون ہیں؟
- سوا پانچ لاکھ آبادی والا چھوٹا سا ملک مالدیپ انڈیا کو چیلنج کیوں کر رہا ہے؟ ’انڈین فوجی 15 مارچ تک جزیرے سے نکل جائیں‘
اسرائیل نے کیا ردعمل ظاہر کیا؟
مالدیپ کی جانب سے اسرائیلی پاسپورٹ رکھنے والوں کو ملک میں داخلے سے روکنے کے فیصلے کے بعد اسرائیل نے بھی احتیاطی تدابیر اختیار کی ہیں۔
اسرائیلی وزارت خارجہ کے ترجمان اورین مارمورسٹین نے کہا ہے کہ وزارت خارجہ نے اسرائیلی عوام کو مشورہ دیا ہے کہ وہ مالدیپ کے سفر کرنے سے گریز کریں۔
ہر سال تقریباً 10 لاکھ سیاح مالدیپ کا دورہ کرتے ہیں، جن میں سے تقریباً 15 ہزار کا تعلق اسرائیل سے ہے۔
گذشتہ سال اسرائیل کے تقریباً 11 ہزار شہریوں نے مالدیپ کا دورہ کیا جو کہ مالدیپ کے کل سیاحوں کی تعداد کا 0.6 فیصد تھا۔
فیصلے کے بعد سوشل میڈیا پر بحث
مالدیپ حکومت کے اس فیصلے کا ذکر سوشل میڈیا پر بھی ہو رہا ہے۔ بہت سے اسرائیلی شہری مالدیپ کی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔
اسرائیلی شہری اور سماجی کارکن یوسف حداد نے مالدیپ حکومت کے اس فیصلے کی مذمت کی ہے۔
انھوں نے سوشل میڈیا ویب سائٹ ایکس پر پوسٹ کیا ہے جس میں انھوں نے لکھا ہے کہ ’سات اکتوبر کے قتل عام کے بعد فلسطینیوں کے داخلے پر کوئی پابندی نہیں تھی۔‘
اس میں انھوں نے لکھا کہ ’انھوں نے ایران، شمالی کوریا یا شام کے شہریوں کے داخلے پر پابندی نہیں لگائی ہے۔ انھوں نے صرف اسرائیلیوں پر پابندی لگائی ہے۔ ان کے پاس خوبصورت جزیرے ہو سکتے ہیں لیکن ان کی پالیسیاں بدصورت ہیں۔‘
ازئی بولٹ نامی ایکس صارف کی نظر میں بھی یہ فیصلہ چونکانے والا نہیں۔ انھوں نے لکھا کہ ’مالدیپ کی نسل پرست حکومت نے اسرائیلیوں کے ملک میں داخلے پر پابندی لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ بالکل بھی چونکا دینے والی بات نہیں ہے۔‘
جنوبی افریقہ نے غزہ میں قتل عام پر اسرائیل کے خلاف عالمی عدالت انصاف میں قانونی کارروائی شروع کر دی تھی۔
اس دوران عدالت نے ایک عارضی فیصلہ جاری کرتے ہوئے غزہ میں فلسطینی عوام کے خلاف تشدد روکنے کا حکم دیا تھا۔
یاد رہے کہ سات اکتوبر کو حماس نے اسرائیل پر حملہ کیا، جس میں تقریباً 1200 افراد مارے گئے اور حماس کے جنگجوؤں نے 250 سے زائد اسرائیلیوں کو غزہ میں یرغمال بنا لیا۔
اس کے بعد اسرائیل نے غزہ میں زمینی کارروائی شروع کی جس میں اب تک 36 ہزار سے زائد افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں جن میں اکثریت عام شہریوں کی ہے۔
مالدیپ اور اسلام
مالدیپ ایک اسلامی ملک ہے۔ مالدیپ 1965 میں سیاسی طور پر برطانیہ سے مکمل طور پر آزاد ہوا اور آزادی کے تین سال بعد مالدیپ ایک آئینی اسلامی جمہوریہ بن گیا۔
آزادی کے بعد سے اسلام نے مالدیپ کے لوگوں کی سیاست اور زندگیوں میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ آئین میں یہ لازمی قرار دیا گیا ہے کہ صدر اور کابینہ کے وزراء صرف سنی مسلمان ہو سکتے ہیں۔
مالدیپ کے قانون کے مطابق یہاں اسلام پر تنقید کو جرم سمجھا جاتا ہے۔ مالدیپ دنیا کا سب سے چھوٹا اسلامی ملک ہے۔
صدر بننے کے بعد محمد معیزو کا پہلا غیر ملکی دورہ ترکی تھا۔ اس سے قبل مالدیپ کے نئے صدر کا پہلا غیر ملکی دورہ انڈیا کا ہوا کرتا تھا لیکن صدر معیزو نے اس روایت کو توڑ دیا۔
- سوا پانچ لاکھ آبادی والا چھوٹا سا ملک مالدیپ انڈیا کو چیلنج کیوں کر رہا ہے؟ ’انڈین فوجی 15 مارچ تک جزیرے سے نکل جائیں‘
- ’اسلام مالدیپ کی بقا کا ضامن‘: کیا صدر معیزو کا ملک کے اسلامی تشخص کے بارے میں بیان انڈیا کی جانب کوئی اشارہ ہے؟
- مالدیپ میں تعینات انڈین فوجیوں کی اتوار سے مرحلہ وار واپسی کا آغاز: کیا یہ مالدیپ میں چین کے بڑھتے اثر و رسوخ کا اظہار ہے؟
- ’ایک عمارت پر ہمارے سامنے ڈرون حملہ ہوا‘: تہران میں میزائلوں کے سائے میں پاکستانی شہریوں نے کیا دیکھا؟ - 16/06/2025
- رفال کا ڈرون مار گرانے والا ’لیزر سسٹم‘ متعارف جس میں ’ایک ساتھ 10 اہداف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت‘ ہے - 16/06/2025
- اسرائیلی حملوں میں فوجی قیادت کی ہلاکتوں پر ’انتقام‘ کا اعلان: ایران کے نئے فوجی کمانڈر کون ہیں؟ - 16/06/2025
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).