اصل گھاؤ تو کہیں اندر لگے ہیں


کئی ہفتوں سے ا رادہ بن رہا تھا کہ جنوبی پنجاب کے علاقوں  میں موخر شدہ کام بھی  نمٹا  لئے  جائیں مگر مصروفیت  کے انبار تلے یہ ارادے عمل میں منتقل نہیں ہو رہے تھے۔  اسی دوران  ملتان  میں ایک   رفیقِ خاص سے ملاقات طے پا گئی لہٰذا جنوبی پنجاب کے اس دورے کو حتمی شکل دی جانے لگی۔

ارادے بھی پختہ تھے، رختِ سفر بھی تیار تھا، گفتگو کے  نکات و ترتیب بھی طے کر لئے گئے تھے ، دفتری  امور  کی ذمہ داریاں اور مراحل   سبھی کچھ مکمل تھا، مگر  پھر یکد م  تمام  منصوبہ زمین بوس  ہو گیا، ارادے ماند پڑ گئے اور ملاقات ِ خاص موخر کر دی گئی، کیونکہ اس فوری تبدیلی کی وجہ ہی  کچھ ایسی تھی کہ اس طویل سفر  کی جانب بڑھتے قدم یکا یک رُک گئے،  دل کی دھڑکن  تیز تر ہونے لگی، وسوسے بڑھنے لگے اور چند معصوم انسانی جانوں کے ضیاع کی فکر لاحق ہونے لگی۔

اگلے ہی روز ہم  جنوبی پنجاب کی  بجائے  ضلع قصور کے نواحی گاوں بہادر پورہ کی جانب محو ِ سفر تھے۔  معمول کا  یہ سفر  آج خلاف ِ توقع  طویل ہونے لگا۔  کالی سیاہ گھٹاوں کے بعد  شدید بارش جاری تھی۔ ہوا کے تیز جھونکے گاڑی کی رفتار  دھیمی کئے جاتے تھے،  درخت بارش میں نہانے کا مزہ لوٹ رہے تھے اور  کھیتوں میں سر اُٹھاتی ہر یالی  ہوا  کے دوش پر  جھوم جھوم  کرپاگل ہوئے جاتی تھی۔

ہم بہادر پورہ کے قریب  پہنچے تو  ایک عمر رسیدہ شخص  آٹھ دس بھینسوں کو باڑے کی جانب بھگائے لے جا رہا تھا، ہماری گاڑی گارے مٹی میں دھنسنے لگی تو  ایک گدھا گاڑی پر سوار دو جوان فوراً مدد کو آن لپکے۔  اب تک ژالہ باری کا ایک بھر پور دور بھی گزر چکا تھا۔ گاوں میں مکمل سناٹا تھا،  گھروں کے مکیں در یچے کھُلے چھوڑ کمروں میں جا   گھسے تھے۔ گلی میں فقط ایک کریانہ اور دوسری پکوڑے سموسے کی دُکان کھُلی تھی اور یہی ہمارے لیے ” مرکزِ معلومات” قرار پائی۔  قریباً  چھ سات  عشروں کو چھوتی ایک خاتون  سردی سے ٹھٹھرتی اور گرم شال اوڑھے  دکان کی چوکھٹ پر  ہی کھڑے ہو کر  ہاتھ کے اشاروں سے بابا رحمت کے گھر کا پتہ بتا نے  لگی۔

دُبلے پتلے بدن کے مالک  بابا رحمت  نے اسی گاوں میں  آنکھ کھولی تھی، انہی گلیوں میں بچپن اور جوانی کی خاک  چھانی اور  کھیت کھلیان سے رشتہ نبھاتے  نبھاتے  ستر  (70) کے قریب بہاریں دیکھ چکا  ہے ، مگر اس حالیہ واقعہ نے نہ صرف اس کے  گھر بار اور آشیانہ کو جلا کر خاکستر کر دیا ، بلکہ اُسے تو یوں لگا گویا  آج زندگی کی ساری بہاروں کو ہی آگ لگا دی گئی ہو۔

ایک مقامی شخص کی مدد سے  ہم بابا رحمت   کے سوختہ گھر میں داخل ہوئے، جہاں  اب نہ دروازہ تھا نہ دربان،  نہ یہ گھراب  گھر  تھا اور ہی  یہاں کوئی  میزبان۔ گھر کا واحد کمرہ مع چھت اور گھریلو سامان مکمل طور پر مٹی مٹی ہو چکا تھا۔   ہمارے قدم مکمل طور پر جلے اور تباہ  شدہ اس گھر کے گارے، مٹی اور کیچڑ  میں دھنستے چلے جاتے تھے جہاں بستر، چارپائیاں، برتن، پنکھا، کپڑے ، کھلونے، بچوں کو  دودھ  پلانے کا فیڈراور ایک عدد کرسی ،غرض سبھی کچھ ظلم و زیادتی ، تعصب  اور عدم رواداری کے اس کھیل میں  جل کر کوئلہ بن چکا تھا۔

گاوں کے رہائشیوں  اور قانونی دستاویزات کے مطابق پو پھٹنے سے قبل بابا رحمت کے گھر کو آگ لگا دی گئی تھی، اس لئے کہ اُس نے اپنا سر چھپانے کی یہ کُٹیا  “اُن” کے نام کرنے  سے انکار  کیا تھا  اور مزید   یہ کہ  وہ اپنی مذہبی آزادی کا حق   کسی صورت گروی رکھنے کو تیار  نہ  تھا۔  مذہبی تعصب و نفرت  کی یہ  اذیت ناک صلیب بابا رحمت نے آج دوسری بار اُٹھائی تھی۔ عقیدے کی تفریق کی پہلی سزا  اِس ضعیف شہری کو اُس وقت ملی جب چند ماہ  قبل اس  کے گھر کی چادر اور چاردیواری کا تقدس پامال کرتے ہوئے اُس کی جواں سال  بیٹی کی عزت   کے ساتھ کھلواڑ کی گئی، اور  اب کی دفعہ بابا رحمت کا گھر،  اُس کی برسوں کی محنت کا پھل ، اُس کا آشیانہ ، کنبہ، پریوار، دل، جگر، آس، اُمید اور مان سب کچھ معمو لی تنکوں کی ماند آگ میں جھونک دیا گیا۔

بابا رحمت کا قصور فقط اتنا  ہے  کہ وہ کمی  اور  غریب ہے،   وہ نہ تو ارباب  ہے نہ  با اختیار  اور نہ ہی     جاگیردار ۔ اُس  کے نام کے ساتھ کسی “اعلیٰ نسل” کا نام بھی  نہیں جُڑا، وہ  فقط   رحمت مسیح ہے، جو پُر امن   مگر دوسرے درجے کا شہری ہے، جو اپنے گھر کو لگی آگ کی شکایت کرنے کی جسارت بھی نہیں کرسکتا بلکہ  اس  آگ کو آنسووں سے  بجھانے کی کوشش کر رہا ہے۔

 آج ایک جانب جب اِن  گھنگھور  گھٹا وں،   زور و شور کی ہواوں  اور موسلا دھار بارشوں کی بے چینی دیکھی تو یوں لگا کہ  بابا رحمت کی یہ کتھا سُن کر آج آسمان بھی  جیسےرو پڑا  ہو اور اُس  کے   گھر  کو لگی آگ بجھانے  بادل بھی خود دھرتی پر اُتر آئے  ہوں ۔

زندگی کا کُل  اثاثہ گنوانے  کے بعد اب یہ معصوم  خاندان بکھر چکا ہے ۔ نہ چھت ہے نہ چاردیواری ۔ بابا رحمت معمولی علاج کے بعد اب گاوں  میں ہی  ادھر ادھر پناہ ڈھونڈ کے دن رات گزار رہا ہے، البتہ خاندان کے باقی  افراد  مزید رسوائی سے بچنے کے لئے  کہیں دور دراز کے علاقہ میں جا بسے ہیں۔

بابا رحمت کے ساتھ  کئی گھنٹے گزارے ۔ اِس دوران بہت  زیادہ گفتگو اور شکایات کی بجائے  اُس کے چہرے  کی جھُریوں پر فقط مسکراہٹ  اُبھرتی رہی ۔  آنکھیں بار بار  ماضی سے کچھ تلاش کرنے لگ جاتیں اور پھر وہ ہاتھوں اور ٹانگوں کے زخموں کو دیکھ کر زیرِ لب مسکرا دیتا۔  معلوم نہیں اس مسکراہٹ کے معنی کیا تھے؟    خیر ! اجازت لیتے ہوئے ہم بولے ، “بابا جی فکر نہ کرنا  یہ  معمولی زخم ہیں جلد بھر جا ئیں گے”  مگر بابا رحمت کے جواب نے ہمیں چونکا دیا، فرمایا،  “اِن زخموں کی  کسے پرواہ ہے؟  اصل گھاو تو وہ ہیں جو روح پر لگے ہیں وہ کیسے بھریں گے؟ اب آپ دیجئے جواب۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).