ہم نالائق مسلمان وہ لائق کافر


پاکستان میں طلبا کے ساتھ سب سے بڑی ناانصافی یہ ہے کہ انہیں ’تاریخ‘ کا مضمون نہیں پڑھایا جاتا کہ کہیں پردہ نہ اٹھ جائے۔ ہماری نسل کو یہ تک تو پتا نہیں کہ مسلمانوں کی ہندوستان پر 1000 سالہ حکومت میں کتنے سال عیاشی کے تھے اور کتنے امت مسلمہ کی ترقی کے۔ سائنس کو کفر کا دروازہ بتا کر جہالت کے اندھیروں میں دھکیلنے والے کون تھے؟ چاند کو ہم صرف محبوب کی صورت لکھتے رہے اور کافر و ملحد اللہ کی اس خوبصورت تخلیق پر جھنڈا بھی گاڑ آئے۔ ٹی وی، ریڈیو، موبائل اور سوشل میڈیا کو کفار کا جال بتانے والے ہر فرقے کے لوگ روزانہ کفار کے اسی جال کو استعمال کر کے آپس میں فساد پھیلا کر مغرب پر لعنت بھیجتے ہیں۔ وہ ظالم تو گریوی ٹیشنل ویوز کو سن بیٹھے اور ہم اب تک کافراور گستاخ کے جھگڑے میں ہی پڑے ہوئے ہیں۔ آل سعود کو اسلام کا رکھوالا اور خود کو کعبہ کا محافظ سمجھنے کے بجائے اگر ہم اللہ پر بھروسا کرتے اور مجاہد سے پہلے سائنسدان ہوتے تو کبھی عالمی مالیاتی فنڈ اور اقوام متحدہ کے محتاج نہ ہوتے۔

آج مغرب ہمیں درس دیتا ہے عورت کی عزت کرو، ماں کا دن مناﺅ، باپ سے پیار کرو، محبت اور شکریہ کہنے کا اہتمام کرو اور ہم، جو دنیا کی اصلاح کرنے کے داعی ہیں وہ بحث برائے بحث میں الجھے اور منافقت میں لتھڑے لوگ مشرق کو اسلام کا قلعہ سمجھے بیٹھے ہیں مگر ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کر۔ کبھی تحقیق اور فلسفہ میں نہ الجھے۔ بس ہمیں یہی جنون سوار ہے کہ بیت المقدس لینا ہے، اسرائیل تباہ کرنا ہے۔ ارے بھائی۔ اسرائیل تو عمر میں ہم سے چھوٹا ہے مگر تعلیم میں کہاں سے کہاں پہنچ گیا، تحقیق میں ہم کہاں وہ کہاں، طب میں ہم لنگڑے اور وہ برق، ٹیکنالوجی میں ہم اندھے اور وہ سپر ویژن رکھنے والا۔ ہم نے تو اکثر دیواروں پر اسرائیل مردہ باد اور گالیاں لکھی دیکھی ہیں بچپن سے کیونکہ ہم جاہلوں کو یہ تک تو علم نہیں کہ ’اسرائیل‘ ہمارے ایک مشہور نبی کا بھی نام ہے۔ میں نہیں بتاﺅں گی خود ڈھونڈو۔ جستجو کی عادت ڈالو۔

جس ترکی کو ہم عالم اسلام کے نئے نئے تایا ابو اور اردگان (ویسے صحیح تو اردوان ہے) کو مرد مجاہد کہتے نہیں تھکتے وہ ترکی اسی اسرائیل سے روزانہ تجارت کرتا ہے اور نہ صرف یہ بلکہ طلبا و طالبات بھی ایک دوسرے کے ہاں پڑھتے ہیں۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ ہمارا روز کا کام ہے درس گاہ یا کام سے تھک کر گھر آنا، خاندان اور پڑوس کی منافقت کے خاموش ساتھی بننا، موبائل اٹھا کر فضول سے 4،5 گروپس میں اپنا حصہ تنقید ڈال کر ساری تھکن اور فرسٹریشن کو ہوا کے سپرد کرنا، گھر کے بچوں کو اہل مغرب سے نفرت کا درس دینا اور پھر اگلی صبح اہل مغرب کی بنائی گاڑی، لیپ ٹاپ اور موبائل اٹھا کر اسی مغرب کے بنائے کاروباری طریقوں کو شدومد سے دہراتے چلے جانا۔

اسلامی ممالک بھی سود کے نظام میں کیوں جکڑے ہیں؟ کیونکہ مسلمانوں کو توفیق نہیں یا فرصت نہیں کہ اس لعنت سے جان چھڑائیں جسے اللہ سے جھگڑے کے برابر قرار دیا گیا ہے۔ بچوں کو سبق دیتے ہیں رشوت دوزخ کی آگ ہے۔ بڑے ہو کر ہر بندہ رشوت دیتا لیتا ہے کہیں کمیشن کے نام پر اور کہیں تحفے کے نام پر۔ کبھی بھی کوئی اپنے بچوں کو یہ نہیں بتائے گا کہ ایک عظیم خاتون رتھ فاﺅ نام کی بھی ہیں جو صرف انسانیت کے ناتے اپنے پچاس قیمتی سال پاکستان میں کوڑھ کے مریضوں کے نام وقف کر گئیں۔

کسی کا باپ مرنے سے پہلے وصیت میں اگر یہ کہے کہ آنگن میں لگا درخت مت کاٹنا۔ تو کچھ بھی کر کے پچیس تیس سال باپ کی وصیت کی لاج رکھ لی جاتی ہے۔ ہماری خیر چاہنے والے نبیؐ نے اپنے آخری خطبے میں ہم سے کہا۔’ ٹکڑوں میں نہ بٹ جانا‘۔ ہم مسلمانوں نے نبیؐ کے پردہ فرماتے ہی اپنے اپنے خلیفہ اور امام چن لئے اور ٹکڑوں میں بٹ گئے۔ یہ ہے اس ہادیؐ عالم کے قول کا پاس جو ہم برباد قسمتوں نے نہ رکھا اور ان کے نام پر بنا تحقیق صرف آواز لگنے پر گلے کاٹنے کو پھرتے ہیں ۔جو اپنے دشمن کی عیادت کو جاتے تھے۔ طائف تھا شاید وہ شہر جہاں ان کا اپنا جوتا ان کے خون سے بھر چکا تھا ۔پھر بھی پتھر مارنے والوں کو بددعا نہیں دی اور آج ایسی پاک ہستی کے نام کو ہم اپنے گندے ارادوں اور ذاتی نفرتوں کو نمٹانے کیلئے استعمال کرتے ہیں۔

خیر اللہ سے دعا ہے کہ وہ البیرونی، رومی، جابر بن حیان اور ایسے ہی 3، 4 اس عہد میں بھی بھیج دے کیونکہ پچھلے چار یا پانچ سو سال یا تو عیاشی میں نکال لئے یا لڑتے مرتے۔ اب جومارک زکربرگ ہے ، بل گیٹس ہے، لیونائل میسی ہے، جیک ما ہے یا امبانی لوگ ہیں ان میں سے کوئی بھی ہم اپنے بچوں کو نہیں بتا سکتے۔ چاہے کامیاب انسان ہوں یا قابل و ماہر۔ ہمیں بتانے اور پڑھانے کیلئے چاہئے کوئی ایسا جس کے نام میں سابقہ ’ال‘ ہو یا ’بن اور ابن‘ کہیں نہ کہیں ایڈجسٹ ہو جائے۔ ہاں ہو سکتا ہے جیسے کہ پچھلے 25،30 سال سے نیل آرم سٹرانگ کے مسلمان ہونے کے جھوٹ کو بنا تحقیق مان بیٹھے ہیں ویسے ہی کبھی المارک بن الزکر برگ کر دیں۔ تحقیق کی زحمت کرے کون۔ بس مان لو اور جان چھڑاﺅ۔ ویسے برادر ’ال بل بن گیٹس‘ کا تو پورا ایک سبق لکھا جا سکتا ہے کیونکہ وہ اپنے برادر اسلامی بھائیوں کے بچوں کو پولیو سے بچانے کی فکر میں مرا جاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).