سنجیدہ و رنگین اعز عزیزی


 کہاں میں جو پتلون پہن کر بھی دفتر کی گھومنے والی کرسی پر آلتی پالتی مار کر بیٹھ جانے والا ہوں اور کہاں وہ جن کے سوٹ کے کوٹ کی جیب میں ہمیشہ ایک درمیانے سائز کا تہہ کیا ہوا رومال ہوتا تھا، اور سامنے والی جیب میں ایک چھوٹا کنگھا۔ وہ اس رومال کی اندرونی تہہ سے اپنے بوٹ چمکاتے نفاست سے تہہ لگاتے اور پھر سے جیب میں رکھ لیتے، کنکھے سے اپنی پریشان زلفوں کو سنوارتے اور کنگھا واپس رکھ لیتے تھے۔ وہ اگر سخت گرمی کے موسم میں بھی باہر نکلتے تو سوٹ پہن کر البتہ اتنا ضرور کر لیتے تھے کہ واسکٹ زیب تن کرنا موقوف کر دیا کرتے تھے جو سازگار موسم میں ان کے سوٹ کا لازمی حصہ ہوا کرتی تھی یا پھر موسم گرما میں کبھی کبھار سفاری سوٹ پہن لیتے تھے، نفاست میں تطابق کے فرق کے باوجود میری اعّز صاحب سے گاڑھی چھنتی تھی۔ ان کے ساتھ میری شناسائی تب ہوئی تھی جب وہ انقلاب ونقلاب کو تج کر ایگزیکٹیو بن گئے تھے اور وہ بھی ایک میمن سیٹھ کی تمباکو فروش کمپنی کے۔ یہاں میں نے تھوڑا سا جھوٹ بول دیا ہے، ان کی انقلاب کی خواہش سے جان تھوڑے نہ چھوٹی تھی وگرنہ ان کے سارے بچے “بڑے پاپا” کے شیدائی کیونکر ہوتے؟ یقینا” اس میں بڑے پاپا یعنی ڈاکٹر اعزاز نذیر صاحب کے اندر چھپے بچے کا بھی کمال تھا مگر اس ضمن میں اعز صاحب کا کردار کہیں زیادہ تھا۔ انہوں نے ایک جانب دکنی شرفاء کی طرح حسب مراتب کا خیال رکھا تھا کیونکہ بچوں کے “بڑے پاپا” ان کے برادر بزرگ تھے دوسری جانب ڈاکٹر صاحب کی انقلاب سے لگن کا پاس بھی کیا تھا۔ اگر وہ کہیں انقلاب سے نفور ہو گئے ہوتے تو کسی نہ کسی طرز بچوں کے کان ضرور بھرتے مگر وہ اس کے برعکس ان کی حوصلہ افزائی کیا کرتے تھے کہ دنیا کو بدلنے کی خواہش کے اس رنگ کو جتنا چاہو اوڑھو پر اپنی پڑھائی سے اغماض مت برتو۔ اس بارے میں وہ کبھی کبھار خاصے سنجیدہ بھی ہو جاتے ہوں گے اور ان کا زیادہ سنجیدہ ہو جانا ہی ان کے غصے کا اظہار ہوا کرتا تھا یا زیادہ سے زیادہ ان پر کچھ لمحوں کے لیے شدید جھنجھلاہٹ طاری ہو جایا کرتی تھی اور بس، پھر سے وہی دھیمی مسکان مسکراتے ہوئے اعز صاحب بن جایا کرتے تھے، ایک خیال کرنے والے باپ، ایک تعلق خاطر کے حامل شوہر، ایک بھرپور دوست، ایک فرض شناس ایگزیکٹیو، ایک بافکر نقاش، ایک باصلاحیت سنگ تراش، ایک شوقین کلیکٹر، سکوں کے، نگوں اور پتھروں کے اور نجانے کیا کچھ کے۔

 ان سے میری دوستی ڈاکٹر اعزاز نذیر کے توسط سے ہوئی تھی۔ مجھے کسی کو رہنما تسلیم کرنا کبھی آیا ہی نہیں البتہ اپنے سے عمر میں بڑے کی جتنی تعظیم ہو سکتی ہے وہ لازما” کرتا ہوں بلکہ ممکن ہو تو بچھ جاتا ہوں کیونکہ میری والدہ نے ہمیشہ یہی تاکید کی تھی کہ اگر کوئی تم سے ایک روز بھی بڑا ہو تو اس کا احترام کرنا۔ اس تربیت نے بعض اوقات دکھ بھی پہنچایا جب ایسے لوگوں کا بھی احترام کیا جو عمر میں تو شاید کچھ بڑے ہوں لیکن اپنی طینت میں خاصے چھوٹے تھے اور اب تک ہیں۔ ایسے لوگوں میں ایک معروف کالم نگار خاص طور پر شامل ہیں جو ایک بار صرف “گالیاں بکنے” کے لفظ پر اسقدر سیخ پا ہوئے کہ سر عام ٹی وی سکرین پر فی الواقعی گالیاں بک دیں، موصوف کو شاید یہ معلوم نہیں تھا کہ گالیاں دی نہیں جاتیں، بکی جاتی ہیں۔ یہ جملہ معترضہ اس لیے کہ غالباً سبھی لائق احترام نہیں ہوتے مگر ڈاکٹڑ صاحب موصوف تو ہم سب سے بہت بڑے ہوتے ہوئے بھی اپنی شفقت سے سامنے والے کی عمر کے ہو جاتے تھے، چنانچہ وہ میرے لیے قابل صد احترام ڈاکٹر صاحب ہوتے ہوئے بھی اصل میں کامریڈ اعزاز تھے۔ اس وجہ سے انہوں نے جب بھی میرے ہاں قیام کیا میری کوشش یہی رہی تھی کہ حتٰی الوسع ان کی ہمرہی کروں۔ اس راہ نوردی کے دوران ہی ایک بار انہوں نے بتایا تھا کہ اعز نام کے ان کے برادر خورد اپنے کنبے سمیت لاہور میں مقیم ہیں اور یہ بتانے کے بعد وہ مجھے لے کر، لاہور کے ایک حصے میں دوسری منزل پر واقع ایک اپارٹمنٹ میں ان کے ہاں گئے تھے۔ ہم بہت دیر بیٹھے رہے تھے، اعز صاحب کی بیگم نے جو بعد میں میری بڑی بہن ثابت ہوئی تھیں، ہمیں کھانا کھلایا تھا اور بچوں نے “بڑے پاپا” کے علاوہ مجھے بھی بہت اچھی کمپنی دی تھی۔ ہم نکلنے کو تھے کہ اعز صاحب تشریف لے آئے تھے۔ کیونکہ ہمیں نکلنا تھا اس لیے ان کے ساتھ چند منٹوں کی ملاقات رہی تھی۔ اس مختصر مدت میں ان کا سبھاؤ اسقدر بھایا کہ لگنے لگا اور درست لگا تھا جیسے ان سے دوستی ہو گئی ہو۔

 پھر واقعی دوستی ہو گئی تھی۔ ڈاکٹر صاحب تو گاہے بگاہے ہی کراچی سے تشریف لاتے تھے۔ زیادہ سے زیادہ ایک ویک اینڈ چھوڑ کر یا تو میں اعز صاحب کے ہاں چلا جاتا تھا یا اعز صاحب میرے ہاں تشریف لے آیا کرتے تھے۔ ایک دوسرے کے ہاں کبھی ہم اکیلے جاتے تو کبھی بیگمات اور بچوں کے ہمراہ۔ ان کی چھوٹی بیٹی بینا میری بیٹی آریانہ سے ایک آدھ سال بڑی تھی یوں وہ آپس میں سہیلیاں بن گئی تھیں جبکہ میرے بیٹے کا ہم عمر کوئی نہ تھا لیکن اسے تین بڑے بھائی میسّر آ گئے تھے۔

 اعز صاحب شروع میں تو اپنی گذری ہوئی زندگی سے متعلق کچھ نہیں بتاتے تھے۔ مجھے چونکہ ڈاکٹر اعزاز صاحب بتا چکے تھے کہ وہ حسن ناصر شہید کے قریبی ساتھی رہے تھے اور گرفتار بھی ہوئے تھے، اذیت رسانی کا شکار بھی چنانچہ میرے استفسار پر کچھ نہ کچھ بتانے لگے تھے۔ وہ اس نتیجے پر بہت پہلے پہنچ چکے تھے جس پر میرے جیسے سوویت یونین میں تعمیر نو کے نام سے بنیادی تبدیلیاں آنے اور بالآخر سوویت یونین کے انہدام کے بعد پہنچے تھے۔ اس لیے وہ بائیں بازو کی عملی سیاست سے خود کو یکسر الگ کر چکے تھے تاہم ان کی سوچ ایک منصفانہ سماج کے قیام کی سعی کرنے سے ضرور ہم آہنگ تھی۔

 اعز صاحب خوشیاں بانٹنے والے شخص تھے اور اس عمل میں ان کی خوش خلق بیگم ان کی معاون و مددگار تھیں۔ ایک بار جس روز ہماری شادی کی سالگرہ تھی اس سے ایک روز پہلے ہم دونوں میں کوئی جھگڑا ہو گیا تھا جس پر ہم دونوں کے منہ سوج گئے تھے اور ہم نے ایک دوسرے کے ساتھ بولنا ترک کر دیا تھا، سالگرہ تو کیا منانی تھی۔ ایک گاڑی آ کر رکی تھی جس میں سے اعز بھائی اور بھابی، بینا اور پنوں کے ہمراہ نکلے تھے۔ ان سب کے ہاتھوں میں پھولوں کے ہار تھے۔ انہوں نے ہم دونوں کے گلے میں ہار ڈال دیے تھے ساتھ ہی اعز صاحب نے پیار سے ڈانٹتے ہوئے کہا تھا،” بھئی یہ کیا جھاڑ جھنکار چہرے بنائے بیٹھے ہو، اٹھو اور سالگرہ منانے کا اہتمام کرو”۔ ہم دونوں مسکرانے لگے تھے، بچے کھل اٹھے تھے یوں انہوں نے اچانک آ کر نہ صرف ہماری صلح کرا دی تھی بلکہ ایک بھرپور تقریب کا سماں پیدا کر دیا تھا۔ ایسے لگتا تھا جیسے انہیں گیان ہو گیا تھا کہ ہم میاں بیوی میں ناچاقی ہو چکی ہے، جسے جا کر دور کرنا چاہیے۔

اعز صاحب بظاہر سنجیدہ اور خاموش لگتے تھے مگر وہ نہ صرف مختلف موضوعات پر اپنی نپی تلی رائے دیا کرتے تھے بلکہ جہاں ضرورت پڑتی بات کی مناسبت سے کھل کر ہنستے بھی تھے۔ البتہ اپنے موقف سے ہٹنے والے نہیں تھے اور عام معاملے کو بھی سنجیدہ لے لیا کرتے تھے۔ جیسے ایک بار جب میں اپنے کسی معمولی عارضے کا ان سے تذکرہ کر رہا تھا، انہوں نے کہا تھا ،”بھی کیا بات کرتے ہیں آپ، آج کل ہمیں رنگین پسینے آنے لگے ہیں”۔ میں نے بطور ڈاکٹر کے کہہ دیا تھا کہ ماسوائے زرد رنگ کے پسینے کے جو شدید یرقان میں آنا ممکن ہے کسی اور رنگ کا پسینہ نہیں آ سکتا۔ اس پر وہ سنجیدہ ہو گئے تھے اور کہا تھا،” بھئی آپ کا مطلب ہے کہ ہم جھوٹ بول رہے ہیں؟”۔ ” نہیں اعز صاحب، آپ کو گمان بھی تو ہو سکتا ہے” میں نے عرض کی تھی۔ ” گمان کس بات کا، خود گھر آ جائیے گا، دکھا دوں گا اپنے کرتے، پھر بتائیے گا کہ گمان ہے یا حقیقت”۔ ٹھیک ہے جناب، حاضر ہو جاؤں گا، میں نے معاملہ دبانے کو کہہ دیا تھا۔ چند روز بعد ان کے ہاں جانا ہوا تھا۔ میرا خیال تھا کہ وہ رنگین پسینے کا قصہ بھلا بیٹھے ہونگے مگر انہوں نے جھٹ سے سفید اور آبی رنگ کے دو کرتے میرے سامنے رکھ دیے تھے۔ سفید کرتے پر ہلکے نیلے رنگ کے دھبے تھے بالخصوص بغلوں والی جگہوں اور کمر پر اور آبی رنگ والے کرتے پر گلابی رنگ کے ویسے ہی مگر مختلف حجم کے دھبے تھے۔ آبی کرتے پر نیلے دھبے کیوں نہیں تھے اور سفید پر گلابی کیوں نہیں تھے؟ میرا موقف یہی تھا کہ کہ پینٹ کرتے ہوئے آپ کا ہاتھ لگ گیا ہوگا مگر بھابی اور بچے سبھی ان کے ہم نوا تھے کہ نہیں یہ ان کے پسینے کا ہی رنگ ہے۔ اعز بھائی آرٹسٹ تھے، مجھے لگا تھا کہ انہوں نے کرتوں پر فن کا مظاہرہ کیا ہے اور مجھے بدھو بنا رہے ہیں، مگر وہ سنجیدہ رہے تھے اور میں چپ ہو رہا تھا۔ سائنس کی رو سے ایسا نہیں ہو سکتا مگر کیا کہتا، اعز صاحب جو بات کر لیتے تھے اس پر ڈٹ جایا کرتے تھے۔

ویسے تو یہی لگتا تھا کہ وہ خواتین کی جانب نگاہ اٹھا کر نہیں دیکھتے تھے لیکن وہ شاید عقاب کی نگاہ رکھتے تھے اور خواتین کو ایک نگاہ سے دیکھنے کے بعد ان کے تمام تناسب و آہنگ اپنے ذہن میں محفوظ کر لیا کرتے تھے، یہی وجہ تھی کہ ان کے بنائے ہوئے مجسموں میں معلوم خواتین کے ہی جسمانی پینترے ہویدا ہوتے تھے۔ میں چونکہ ان سے مصورانہ علم الاعضاء کے اسباق بھی لیتا تھا، اس لیے ان کا بنایا مجسمہ دیکھنے کے بعد ان کی جانب دیکھتا تھا تو وہ یہ جان کر کہ میں اسرار بوجھ چکا ہوں مسکرا دیتے تھے۔

  ان سے میری آخری ملاقات کراچی میں ہوئی تھی جب میں ریڈیو صدائے روس کے پاکستانی سامعین کے پہلے سیمینار میں شرکت کرنے والے وفد میں شامل ہو کر روسی مرکز ثقافت و سائنس کراچی پہنچا تھا۔ ڈاکٹر اعزاز نذیر صاحب کے صاحبزادے برخوردار حسن ناصر میرے اصرار پر اعز صاحب کو لے کر پہنچے تھے۔ اعز صاحب کے وہی رنگ ڈھنگ تھے۔ اسی طرح نستعلیق دھلے دھلائے البتہ عمر زیادہ ہو چکی تھی اور دو ایک بار انہوں نے حسن ناصر کو باور کرایا تھا ” بھئی ہم دل کے مریض ہیں” مجھے یہی لگا تھا جیسے وہ کہہ رہے ہیں، “بھئی ہمیں رنگین پسینے آتے ہیں”۔ اس مختصر ملاقات میں انہوں نے مجھ سے ایک ہی سوال کیا تھا ،” وہاں تو خاصی خواتین سے متمتع ہونے کا موقع ملا ہوگا، مصورانہ علم الاعضاء سے متعلق میری دی گئی معلومات کی سچائی کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟” اس سوال کے جواب میں اب میں انہیں دیکھ کر مسکرا دیا تھا اور وہ سمجھ گئے تھے، مسرور ہوئے تھے کہ شاگرد نے توثیق کر دی ہے۔ میں انہیں یہ بتانا بھول گیا تھا کہ میں نے ان کے اس سبق کی توضیحات اپنی تحقیقی کتاب “محبت ۔۔۔ تصور اور حقیقت” کے باب ” محبت اور بدن” میں درج کر دی ہیں۔ انہیں بار بار خاص مقام پر جانا پڑتا تھا اس لیے وہ اس محفل سے جلدی چلے گئے تھے۔ پھر اردو کانفرنس شروع ہو گئی تھی اور میں مصروفیت کے سبب ان سے تفصیلی ملاقات نہ کر پایا تھا۔

 بس پھرمعلوم ہوا کہ وہ ایک روز آرام سے ہماری بھابی سے ملنے چلے گئے ہیں اور اب دونوں مجھے اوپر سے دیکھتے ہوئے رنگین پسینے کی کہانی یاد کرکے ہنس رہے ہیں، جیسے شاد تھے ویسے ہی شاد ہیں جبکہ ان کی آرزووں اور مالک جہاں کی عنایت سے ان کی آل اولاد آباد۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).