تبدیلی کی ہوا: مڈ ٹرم انتخاب ہی مسئلہ کا حل ہیں


عدالتیں دھڑا دھڑ عمران خان اور تحریک انصاف کو ریلیف دے رہی ہیں اور حکومت بدحواسی میں صرف یہ سوچ رہی ہے کہ کیسے بانی تحریک انصاف کو مستقل طور سے حراست میں رکھا جائے۔ گزشتہ روز مخصوص نشستوں کے بارے میں سپریم کورٹ کے ایک ’سیاسی فیصلہ‘ کے بعد آج اسلام آباد کے ایڈیشنل سیشن جج کی عدالت سے صریحاً غیرسیاسی حکم کے ذریعے عدت کیس میں عمران خان اور بشریٰ بی بی کو بری کر دیا گیا۔

عدت کیس بشریٰ بی بی کے سابق شوہر کی درخواست پر قائم ہونے والا مقدمہ تھا جس میں ٹرائل کورٹ نے ان دونوں کو طویل المدت قید و جرمانے کی سزائیں دی تھیں۔ یہ مقدمہ عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے سابق شوہر خاور فرید مانیکا کی درخواست پر قائم کیا گیا تھا۔ سول جج قدرت اللہ کی عدالت نے انتخابات سے چند روز پہلے عمران خان اور بشریٰ بی بی کو عدت کی مدت پوری نہ ہونے سے پہلے نکاح کرنے کے ’جرم‘ میں سات سات سال قید اور جرمانے کی سزا دی تھی۔ البتہ آج ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اور سیشن جج افضل مجوکا نے اس سزا کو کالعدم قرار دیتے ہوئے حکم دیا کہ اگر یہ دونوں کسی دوسرے مقدمے میں مطلوب نہیں ہیں تو عمران خان اور بشریٰ بی بی کو رہا کیا جائے۔

اس حکم کے بعد عمران خان کو جیل میں بند رکھنے کا کوئی جواز نہیں تھا۔ البتہ ماہرین اور تجزیہ نگار حکومت کے ارادوں کو بھانپتے ہوئے یہی اندازے لگا رہے تھے کہ اس بار بھی شاید کسی نئے مقدمے میں انہیں قید ہی رکھا جائے گا۔ البتہ تحریک انصاف کے پرجوش رہنما اور حامی امید کر رہے تھے کہ اب عمران خان کو جیل سے رہائی مل جائے گی۔ حکومتی ترجمان پہلے ہی عمران خان کو مسلسل قید رکھنے کے بارے میں اپنے ارادے ظاہر کرتے رہے ہیں جس کا عملی مظاہرہ آج شام تک دیکھنے میں آ گیا جب ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کی طرف سے رہائی کا حکم سامنے آنے کے تھوڑی دیر بعد ہی نیب نے ایک نئے توشہ خانہ کیس میں عمران خان اور بشریٰ بی بی کو قید رکھنے کا حکم جاری کیا اور ان کی گرفتاری ڈال دی گئی۔

اس اقدام سے ایک بار پھر حکومت تند و تیز تنقید کی زد میں ہے اور ایک نام نہاد ’خود مختار‘ ادارے احتساب بیورو کی طرف سے عمران خان کی گرفتاری سے ایک بار پھر حکومت کی بدحواسی اور کسی حد تک بدنیتی بھی واضح ہوئی ہے۔ عمران خان اور بشریٰ بی بی کے خلاف عدت کیس مضحکہ خیز اور شرمناک تھا۔ اس کیس میں سول جج کی عدالت سے انتخابات سے فوری پہلے طویل المدت سزاؤں کا اعلان اس سے بھی زیادہ افسوسناک واقعہ تھا۔ تحریک انصاف ہی نہیں بلکہ ملک میں سول حقوق کے لیے جد و جہد کرنے والے اکثر کارکنوں اور تنظیموں نے اس سرکاری ہتھکنڈے کو ناروا قرار دیا تھا۔ عمران خان نے خفیہ شادی نہیں کی تھی بلکہ دوستوں اور اہل خاندان کی موجودگی میں علی الاعلان نکاح کیا تھا۔

خاور مانیکا اس سے پہلے اپنی رضامندی سے بشریٰ بی بی کو طلاق دے چکے تھے جس کے بعد وہ اپنی زندگی اپنی مرضی کے مطابق گزارنے اور فیصلے کرنے میں آزاد تھیں۔ مانیکا نے خود بھی بشریٰ بی بی کی عمران خان کے ساتھ شادی کو قبول کیا تھا اور وہ تحریک انصاف کی حکومت میں اعلیٰ عہدوں پر کام بھی کرتے رہے۔ انہوں نے ہمیشہ اپنی سابقہ اہلیہ اور عمران خان کے بارے میں مثبت اور توصیفی کلمات ہی ادا کیے۔ تاہم 6 سال انتظار کرنے کے بعد انتخابات سے پہلے انہوں نے اپنی سابقہ بیوی کے نکاح کو ناجائز قرار دلوانے کے لیے عدالتی چارہ جوئی کا فیصلہ کیا۔ عام طور سے سول معاملات میں شنوائی میں کئی کئی سال بیت جاتے ہیں لیکن عمران خان کو قید رکھنے اور بے توقیر کرنے کی جلدی میں انہیں 3 فروری کو ہی سزا سنا دی گئی۔ اس طرح اگرچہ یہ مقدمہ ایک فرد کی طرف سے دائر کیا گیا تھا لیکن اس کے وقت اور طریقہ کار سے صاف لگ رہا تھا کہ بعض نادیدہ قوتیں خاور مانیکا کو ڈھال بنا کر عمران خان کو عبرت کا نشان بنانا چاہتی ہیں۔ اس لیے یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ آج ڈسٹرکٹ اور سیشن کورٹ نے میرٹ کی بنیاد پر قانونی لحاظ سے درست فیصلہ کر کے ایک سنگین نا انصافی کا تدارک کیا ہے۔

البتہ گزشتہ روز سپریم کورٹ کے فل بنچ کی طرف سے آٹھ پانچ کی اکثریت سے آنے والا فیصلے کے بارے میں مسلسل ان شبہات کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ وہ کس حد تک قانون کے میرٹ پر پورا اترتا ہے۔ دیگر سرکاری ترجمانوں کے علاوہ و وزیر دفاع خواجہ آصف نے اس عدالتی فیصلہ کو آئین کے خلاف قرار دیا ہے۔ سیالکوٹ میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’یہ آئینی فیصلہ نہیں تھا۔ اس کے سیاسی مضمرات نظر آ رہے ہیں۔ آئین کو دوبارہ تحریر کیا گیا حالانکہ یہ اختیار صرف پارلیمنٹ کے پاس ہے‘ ۔ خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ فیصلہ اس شخص کی دہلیز تک پہنچایا گیا، جس نے دروازہ ہی نہیں کھٹکھٹایا تھا اور جو سائل ہی نہیں تھا۔ وزیر دفاع کے مطابق ’فیصلے کی ہوم ڈیلیوری کی گئی۔ یہ پی ٹی آئی پر من و سلویٰ اترا ہے‘ ۔

اس فیصلے کے حوالے سے یہی نکتہ درحقیقت تشویش کا سبب بنا ہے کہ اگرچہ سپریم کورٹ ملک کا سب سے بڑا عدالتی فورم ہے لیکن کیا اسے آئینی تشریح کے نام پر ایسے فیصلے کرنے کا حق حاصل ہے جو عام فہم میں آئینی طریقہ نہ ہو۔ اور جج حضرات جو تشریح کسی سیاسی مشکل سے نجات حاصل کرنے کے لیے سامنے لائیں۔ گزشتہ روز اس اداریے میں اس فیصلہ کا جائزہ لیتے ہوئے کہا گیا تھا کہ ججوں کی اکثریت نے ’غیر روایتی دانش سے کام لیتے ہوئے معروضی سیاسی حالات کے مطابق اس کا حل نکالنے‘ کی کوشش کی ہے۔ البتہ یہ سوال بدستور بحث کا موضوع رہے گا کہ سپریم کورٹ کے ججوں کو کیوں کر سیاسی نزاکتوں کا احساس کرنے اور کسی مشکل سیاسی صورت سے قوم و ملک کو نکالنے کی ذمہ داری سونپی جا سکتی ہے۔ یا وہ از خود ایک ایسی ذمہ داری اٹھانے کا فیصلہ کر سکتے ہیں جو ان کے آئینی و قانونی دائرہ کار میں نہیں آتی۔ ملک میں نظریہ ضرورت کے تحت عدالت عظمی کی طرف سے ’سیاسی نزاکتوں یا مجبوریوں‘ کی وجہ سے ماورائے آئین فیصلے کرنے کی روایت نہایت افسوسناک ہے۔ سپریم کورٹ کے ججوں نے ’نظریہ ضرورت‘ دفن کرنے اور آئین کی بالادستی کے لیے کام کرنے کا بارہا اعلان بھی کیا ہے۔ لیکن بعض مشکل معاملات میں سپریم کورٹ کی مداخلت اور متنازعہ فیصلے بدستور اس غیر آئینی روایت کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔

حالیہ تاریخ میں سپریم کورٹ کے اس غیر روایتی کردار کی ایک مثال اپریل 2022 میں سو موٹو کے تحت قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی تحریک عدم اعتماد کے خلاف رولنگ مسترد کرنے کے حکم سے پیش کی جا سکتی ہے۔ ملکی سپریم کورٹ پارلیمنٹ میں ہونے والی قانون سازی کے مطابق کام کرتی ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک پارلیمنٹ میں ہونے والی کارروائی پر سپریم کورٹ کو حتمی حکم جاری کرنے کا اختیار دے دیا جائے۔ سپریم کورٹ نے اسی قسم کا ماورائے آئین حکم بعد میں پنجاب اسمبلی کے تحریک انصاف کے باغی ارکان اسمبلی کے حق انتخاب کے بارے میں بھی جاری کیا۔ اور پنجاب میں منتخب حکومت ختم کروا کے اپنی صوابدید کے مطابق پرویز الہیٰ کو وزیر اعلیٰ بنانے کے لیے راہ ہموار کی تھی۔ سنی اتحاد کونسل کی درخواست کو رد کرتے ہوئے ایک قدم آگے بڑھ کر تحریک انصاف کو عوامی نمائندہ قرار دے کر اسے مخصوص نشستیں تفویض کرنے کا حکم بھی اسی نوع کی آئینی تفہیم کا نمونہ کہا جاسکتا ہے۔

بعض دوست اس فیصلہ کو بھی پرویز مشرف کی فوجی حکومت کو سپریم کورٹ کی طرف سے آئینی ترمیم کرنے کا حق دینے کے فیصلہ سے مماثل قرار دیتے ہیں۔ اس وقت سپریم کورٹ نے ایک فوجی آمر کو ایک ایسا حق تفویض کیا تھا جو خود اسے بھی حاصل نہیں ہے۔ سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلہ کے آئینی میرٹ پر بات تو ہونی چاہیے اور مستقبل میں کوئی ایسا طریقہ کار وضع کرنے یا آئینی ترمیم لانے کی ضرورت بھی موجود ہے جس سے سپریم کورٹ کو آئین کی از خود تشریح کے طریقے سے روکا جا سکے۔ البتہ اس حوالے سے ایک توجیہ یہ ضرور موجود ہے کہ سابق چیف جسٹس ارشاد حسن خان نے پرویز مشرف کو آئین میں رد و بدل کا اختیار دے کر آئین کی خلاف ورزی کرنے والے ایک فوجی آمر کے ہاتھ مضبوط کیے تھے۔ البتہ گزشتہ روز بنچ کے اکثریتی ججوں نے عوام کے حق نمائندگی کے اصول کو مقدس اور قابل احترام مانتے ہوئے تحریک انصاف کو مخصوص نشستیں دینے کا حکم دیا ہے۔ یوں کہا جاسکتا ہے کہ یہ فیصلہ نیک نیتی سے کیا گیا ہے لیکن محض نیک نیتی کوئی ایسا اصول نہیں ہے جس سے کسی عدالت کے ماورائے آئین فیصلوں کا جواز تلاش کیا جا سکے۔

دو روز میں البتہ عمران خان کو دو بہت اچھی خبریں ملی ہیں۔ دیکھنا چاہیے کہ یہ عدالتی فیصلے کیوں کر ملک کی سیاسی صورت حال پر اثر انداز ہوسکتے ہیں۔ شہباز شریف کی حکومت سیاسی طور سے مسلسل دفاعی پوزیشن پر ہے۔ 8 فروری کے انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کی بیان کردہ کامیابی کے بارے میں شبہات کے سائے گہرے ہو رہے ہیں۔ حکومت ملکی معیشت کو سہارا دینے کے لیے آئی ایم ایف کے تقاضے پورے کرنے پر مجبور ہے لیکن ان کی وجہ سے ہونے والے فیصلے عوام کی مشکلات میں اضافہ کا سبب بنے ہیں۔ اور اس کے نتیجہ میں حکومت مزید تنہائی کا شکار ہوئی ہے۔ شہباز شریف بطور وزیر اعظم موثر اور قابل تقلید قائد کا کردار ادا کرنے میں ناکام ہیں۔ معاشی فیصلوں اور بجٹ بناتے ہوئے روایتی طریقے بروئے کار لائے گئے ہیں جن کے بارے میں عام تاثر ہے کہ حکومت محاصل میں اضافے کا سارا ہدف عام لوگوں پر بالواسطہ ٹیکس لگا کر پورا کرنا چاہتی ہے اور ملکی اشرافیہ کو زیر بار کرنے کا حوصلہ نہیں کر سکی۔ اس کے علاوہ سیاسی طور سے تحریک انصاف کی طرف سے دباؤ میں اضافہ ہو رہا ہے۔

یہ سارے عناصر تبدیلی کی ہوا کے اشارے ہیں۔ غیر مقبول اور مشکوک نمائندگی والی کمزور حکومت پانچ سال کیوں کر پورے کر سکتی ہے؟ بحران سے نکلنے کے لیے ضروری طریقے اختیار کرنے میں حکومتی کوتاہی کی علاوہ تحریک انصاف کی شدید خود سری بھی مشکل بنی ہوئی ہے۔ عمران خان حکومت سے بات چیت پر راضی نہیں ہیں اور اسٹیبلشمنٹ سے انتخاب کروانے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ حالانکہ وہ فوج کو سیاسی عمل سے پیچھے ہٹنے کا مشورہ بھی دیتے ہیں۔ حکومت کی یہ مجبوری تو سمجھی جا سکتی ہے کہ عمران خان یا تحریک انصاف کے ساتھ مستقبل کے کسی قابل عمل سمجھوتہ پر اتفاق رائے کے بغیر عمران خان کی رہائی شاید حکومت کے لئے ’ڈیتھ وارنٹ‘ کی حیثیت اختیار کر جائے۔ اسی لیے حکومت ایسا کوئی خطرہ مول نہیں لے گی۔

اس مشکل سے نکلنے کے لیے حکومت کو مڈ ٹرم انتخابات منعقد کروانے کے کسی منصوبہ کا خاکہ تیار کرنا چاہیے اور تحریک انصاف کو اس پر راضی کرنا چاہیے تاکہ ملک میں تصادم، ہیجان اور بحران کی صورت حال ختم ہو سکے۔ عمران خان اور تحریک انصاف کو بھی اسٹیبلشمنٹ سے براہ راست مذاکرات کی ضد کی بجائے، حکومت کے ساتھ معاملات درست کرنے کے لئے تعاون پر آمادہ ہونا چاہیے۔ تاکہ ایک سے دو سال میں نئے انتخاب کروا کے موجودہ بے یقینی کا خاتمہ ممکن ہو سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 3048 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments