کیا مقامی حکومتوں کے الیکشن میں مذہبی اقلیتوں کو ووٹ کا حق ملے گا؟
لوکل گورنمنٹ الیکشن میں مذہبی اقلیتوں کو سلیکشن نہیں الیکشن کا نعرہ مقبول ہوتا جا رہا ہے۔
مقامی حکومتوں کو ”جمہوریت کا اہم“ عنصر قرار دیا جاتا ہے۔ کیونکہ لوکل گورنمنٹ سسٹم مقامی سطح کی حکومت خود اختیاری کی بہترین شکل سمجھی جاتی ہیں۔ جو کہ نہ صرف عوام کے روزمرہ مسائل کے لئے بلکہ لوکل گورنمنٹ کی کسی نہ کسی شکل میں عوام براہ راست حکمرانی میں شامل ہوتی ہے۔
پاکستان میں رہنے والی مذہبی اقلیتوں کو مقامی حکومتوں کے ڈھانچوں میں لوکل گورنمنٹ الیکشن میں ووٹ کے ذریعے نہیں بلکہ پارٹی یا گروپ کی طرف سے ”مخصوص نشستوں پر سلیکشن“ کے ذریعے منتخب کیا جاتا ہے۔ جو کہ آئین پاکستان کے آرٹیکل 25 کی کھلم کھلی خلاف ورزی ہے۔ آئین پاکستان کے آرٹیکل میں واضح طور پر لکھا ہے کہ تمام شہری برابر ہیں اور انہیں برابری کے حقوق حاصل ہوں گے ۔ آئین پاکستان واضح طور پر لوکل گورنمنٹ کی نوعیت، نمائندگی کا فریم ورک اور بنیادی خد و خال بھی بیان کرتا ہے اور کیسے اور کون قائم کرے گا اس کی گائیڈ لائن بھی آئین میں موجود ہے۔ آرٹیکل 32 کی رو سے مملکت کی تعریف کی گئی ہے۔
مملکت کی تعریف میں مقامی حکومت کو مملکت کا حصہ بیان کیا گیا ہے۔ مملکت متعلقہ علاقوں کے منتخب نمائندوں پر مشتمل مقامی حکومتوں کی حوصلہ افزائی کرے گی۔ ایسے اداروں میں کسانوں، مزدوروں اور عورتوں کو خصوصی نمائندگی دی جائے گی۔ آرٹیکل 140۔ Aمیں صوبوں کو پابند کیا گیا ہے۔ ہر صوبہ قانون کے تحت مقامی حکومتوں کا نظام بنائے گا اور ان مقامی حکومتوں کو سیاسی انتظامی اور مالیاتی ذمہ داری اور اختیار مقامی حکومتوں کے منتخب نمائندوں کو منتقل کرے گا۔
انتخابات کی ذمہ داری آئین پاکستان کے آرٹیکل 140۔ Aکے زیر سیکشن Bکے تحت الیکشن کمیشن آف پاکستان مقامی حکومتوں کے انتخابات کروانے کا ذمہ دار ہو گا۔
لوکل گورنمنٹ کے لئے انتخابی حلقہ بندیاں عدالت عظمیٰ کی ہدایات پر الیکشن کمیشن کی ذمہ داریاں
لوکل ایریا قرار دینا اور لوکل ایریا میں کتنی اور کس قسم کی مقامی حکومتیں ہوں گی صوبائی حکومت اپنے قانون میں طے کرے گی مگر صوبائی حکومت کی طے کردہ مقامی حکومتوں میں انتخابی حلقہ بندیاں الیکشن کمیشن آف پاکستان طے کرے گا۔
پاکستان میں رہنے والی اکثریتی آبادی کو جمہوری نظام حکومت میں ووٹ کا حق دیا گیا ہے جبکہ مذہبی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے افراد کے سیاسی نمائندوں کو مقامی حکومتوں میں سلیکشن کے ذریعے منتخب کرنا اظہار رائے کی آزادی کو سلب کرنے کے مترادف ہے۔ یہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ لوکل گورنمنٹ سسٹم میں گلی، محلے، ٹاؤن، وارڈ کی سطح پر مقامی حکومتوں میں مقامی افراد ہی الیکشن میں حصہ لیتے ہیں اور اس الیکشن میں مذہبی اقلیتوں کے سیاسی ورکرز کے لئے یہ کوئی مشکل کام نہ ہے بلکہ عرصہ دراز سے پنجاب میں رہنے والی مذہبی اقلیتوں خصوصاً (مسیحی کمیونٹی) کا دیرینہ مطالبہ بھی ہے۔
اس صورتحال میں اگر کوئی بھی پارٹی یا گروپ اپنے من پسند افراد کو کونسلر منتخب کر دیتا ہے۔ تو اس طرح سے جمہوریت کا حسن ہی ختم ہوجاتا ہے۔ کیونکہ کسی بھی جمہوری نظام حکومت میں کسی ایک کمیونٹی کو ووٹ کا حق دینا اور دوسری کمیونٹی کو ووٹ کا حق نہ دینا بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ اس طرح سے مذہبی اقلیتوں کے افراد احساس کمتری کا شکار بھی ہوتے ہیں ان کو ترقیاتی منصوبوں میں برابری کی سطح پر بجٹ فراہم نہیں کیا جاتا، ان کے علاقوں میں مقامی حکومتوں کے فنکشنز صفائی ستھرائی، سٹریٹ لائٹس، صحت کی سہولیات، تعلیم، ملازمت کوٹہ پر عمل درآمد کا نہ ہونا، ترقیاتی منصوبوں میں مساوی حقوق کا نہ ملنا اور دیگر بنیادی انسانی سہولیات سے محروم رکھنا سخت نا انصافی ہے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کے مطابق پاکستان میں سال 2012 میں اقلیتی ووٹرز کی تعداد 28 لاکھ 65 ہزار پانچ سو تھی، سال 2018 میں اقلیتی ووٹرز کی تعداد 36 لاکھ 31 ہزار 471 تھی۔ سال۔ 2023 میں ہونے والی مردم شماری میں مذہبی اقلیتوں کی تعداد واضح نہیں کی گئی لیکن ایک عام اندازے کے مطابق 2024 میں ان ووٹرز کی تعداد میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ اس بات کی حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے کہ پاکستان میں اقلیتی ووٹرز کی ایک بڑی تعداد موجود ہے جن کے پاس مقامی سطح پر وسائل بھی موجود ہیں ان کو ووٹ کا حق نہ دینا ظلم و زیادتی ہے۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ پاکستان الیکشن کمیشن آف پاکستان کے پاس مذہبی اقلیتوں، افراد باہم معذوری سے تعلق رکھنے والے ووٹرز کا الگ الگ ڈیٹا ہی موجود نہ ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ جھنگ سے سی پی ڈی آئی پاکستان کی پارٹنر تنظیم عوام دوست فاونڈیشن کے فوکل پرسن نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو عام انتخابات 2024 سے قبل معلومات تک رسائی کے حق کے قانون کے تحت تحریری درخواست گزاری معلومات بروقت نہ ملنے پر پاکستان انفارمیشن کمشنر کو شکایت بھی درج کروائی گئی۔ اس کا تحریری جواب تو نہ ملا لیکن الیکشن کمیشن آف پاکستان کی طرف سے زبانی بتایا گیا کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے پاس ان تمام افراد کا الگ الگ ڈیٹا موجود ہی نہ ہے۔ ان کے پاس صرف مرد اور خواتین کا ڈیٹا موجود ہے۔
سابق صدر مملکت جنرل پرویز مشرف نے لوکل گورنمنٹ آرڈیننس 2001 کے مطابق جب ملک گیر مرحلہ وار لوکل گورنمنٹ الیکشن کروائے تو اس وقت مذہبی اقلیتوں کو پہلی بار لوکل گورنمنٹ الیکشن میں مخصوص نشستوں کی بجائے ووٹ کا حق ملا اس وقت سلیکشن کی بجائے الیکشن کا حق دیا گیا۔ اس دور حکومت میں نچلی سطح پر اقلیتوں کو دوہرے ووٹ کا حق دیا گیا مطلب اقلیت سے تعلق رکھنے والے افراد لوکل گورنمنٹ الیکشن میں مسلم کمیونٹی سے ووٹ لے بھی سکتے تھے اور دے بھی سکتے تھے یہ انتخابات مخلوط طرز انتخابات پر ہوئے۔
کیونکہ اکثریت سے تعلق رکھنے والے کونسلر امیدوار اقلیتی بستیوں میں ووٹ مانگنے جاتے تھے اور اقلیتی افراد اکثریتی ووٹرز کے پاس ووٹ مانگنے جاتے تھے۔ اس سے مذہبی سماجی ہم آہنگی کو بھی فروغ ملتا تھا۔ اس کے بعد پھر سے اقلیتوں کو مخصوص نشستوں پر سلیکٹ کیا جانے لگا اور ایک بار پھر مذہبی اقلیتوں کو نچلی سطح پر مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت میں پنجاب میں مقامی حکومتوں کا نیا نظام 2019 میں متعارف کروایا گیا۔ لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2019 جو کہ اپریل 2019 کے آخری ہفتے میں اسمبلی میں پیش کر دیا گیا تھا۔ اس پر حزب اختلاف اور حاضر سروس کونسلرز نے احتجاج بھی ریکارڈ کروایا تھا۔ اس بل کی تیاری میں کسی قسم کی مشاورت نہیں کی گئی اور بل کی منظوری کی شکل میں 60 ہزار منتخب کونسلرز اور سربراہان برخاست ہو گئے۔ اور حکومت پنجاب کو ایڈمنسٹریٹرز منتخب کرنے کا اختیار مل گیا۔
کونسلرز کا موقف یہ تھا کہ ان کو کام کرنے کا موقع ہی نہیں دیا گیا۔ بل آخر 2 مئی کو اس وقت کے گورنر نے اس کی منظوری دے دی اور 4 مئی میں گزٹ میں نوٹیفائی ہونے کے بعد قانون بنا دیا گیا۔ لیکن ایک بار پھر نئی آنے والی حکومت نے روک لیا اور اس ایکٹ میں ترامیم دوبارہ شروع ہو گئیں۔ ہر دور حکومت میں منتخب حکومت اپنے اپنے حساب سے اس قانون کو بنا تو لیتی ہیں لیکن کوئی بھی حکومت اس قانون پر عمل درآمد کرتی دکھائی نہیں دیتی۔
مذہبی اقلیت سے تعلق رکھنے والے بیشتر افراد نے چند سفارشات پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ لوکل گورنمنٹ الیکشن مقررہ مدت میں کروائے جائیں، مذہبی اقلیتوں کو مخصوص نشستوں کی بجائے مقامی حکومتوں میں براہ راست الیکشن میں منتخب ہونے کے مواقع فراہم کرتے ہوئے ووٹ کا حق دیا جائے، نچلی سطح پر ترقیاتی منصوبوں میں برابری کی سطح پر فنڈز فراہم کیے جائیں، پنجاب بھر میں مذہبی اقلیتی آبادیوں کی گلیوں، نالیوں، سولنگ، سٹریٹ لائٹس ترقیاتی منصوبوں، سیوریج کے لئے الگ فنڈز رکھے جائیں اور انہیں پبلک کیا جائے۔ ان فنڈز میں شفافیت اور احتسابی عمل کی نگرانی کے لئے مقامی افراد پر مشتمل کمیٹیاں بنائی جائیں۔
- ورلڈ یوتھ سکلز ڈے، نوجوانوں کا ہنر ہی ان کا مستقبل ہے - 15/07/2025
- سوات کے آنسو، دریا کی گواہی، ریاست کی غفلت - 29/06/2025
- حاجی فضل کریم چوہدری ایک نام، ایک نظریہ - 19/06/2025
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).