جوتا کاری اور سیاست


جوتا ہماری زندگیوں کا ایک لازمی جزو ہے۔ خواتین ہوں یا مرد، جوتا خریدتے وقت ہر طرح کی احتیاط برتتے ہیں۔ رنگ کیسا ہو، آرام دہ کتنا ہے، پورے سائز کا ہے یا نہیں، دفتر میں چلے گا، صرف پکنک کا ہے یا پھر ہر جگہ پہنا جا سکتا ہے۔ سو طرح کی سوچ بچار کے بعد ایک جوتا خریدا جاتا ہے۔ گھر لا کر ڈبے سمیت کہیں بھی رکھ دیا۔ نیا جوتا کسی جگہ بھی رکھا جا سکتا ہے۔ جس دن وہ جوتا پہلی مرتبہ پاؤں میں آتا ہے، دو کوڑی کا ہو جاتا ہے۔ گھر میں ہیں تو کمرے سے باہر اتاریے، دفتر میں اتارنا پڑے تو کوشش ہو گی کہ ہاتھ دھو لیے جائیں اور دور کرکے رکھا جائے۔ خدا نہ کرے ہسپتالوں کی ایمرجنسی میں جانا ہو یا آپریشن تھیٹر میں کسی کو دیکھنا ہو تو وہاں بھی جوتے باہر اتروائے جاتے ہیں۔ ہر مذہب کی عبادت گاہ میں جوتوں کے لیے داخلی دروازے پر ہی انتظام ہوتا ہے کیوں کہ جوتا ناپاک متصور ہے، جوتے کے ساتھ سو طرح کے جراثیم بھی ہو سکتے ہیں۔ تو جوتا ناپاک ہے اور ناپاکی قابل نفرت فعل ہے۔ یوں ناپاکی اور نفرت کے پیمانے ہم کسی حد تک برابر دیکھتے ہیں۔ ایران، عراق، پاکستان، بھارت یہ سب وہ خطے ہیں جو ویسے بھی جوتوں کے لیے ہزارہا نفرت بھرے محاورے رکھتے ہیں، جوتوں سمیت آنکھوں میں گھسنا، جوتے چاٹنا یا جوتم پیزار ہو جانا اور بیسیوں دوسری ضرب الامثال عربی یا ہندی میں بھی گنوائی جا سکتی ہیں۔

نفرت اور غصے کے مارے بے قابو ہو کر جوتا پھینک مارنا، یا جوتوں سے مرمت کرنا ہمارے معاشرے میں بے عزتی کی آخری منزل سمجھی جاتی ہے۔ ماں کے جوتوں کے علاوہ دنیا میں کسی شخص کا جوتا برداشت نہیں ہوتا، یہ بھی طے ہے۔ تذلیل کی آخری حد ظاہر کرنے کے لیے کسی دشمن کو جوتا مارا جاتا ہے اور یہ عدم برداشت کی جانب پہلا قدم ہے۔ جو ہاتھ جوتا پھینک سکتے ہیں، اگر انہیں تحفظ حاصل ہو تو وہی کل کو اسلحہ تھام کر گولیاں بھی برسا سکتے ہیں، بات ماحول ملنے کی ہے۔ جوتا پھینکنے والا جانتا ہے کہ اسے چند دن کے لیے سستی شہرت ملے گی اور اگر وہ اسے استعمال کر پایا تو وہ سو کام بھی نکلوا سکتا ہے۔ جسے جوتا مارا گیا اور جس نے جوتا مارا، دونوں الگ فریق ہیں، دونوں کے بیچ نظریاتی دوری ہے۔ ڈائیلاگ نہیں ہوا، یا ممکن نہیں تھا تو جوتا پھینک دیا گیا۔
آزاد انسان کا نظریاتی طور پر درمیانہ راستہ اختیار کرنا ممکن نہیں ہے۔ وہ دنیا سے، اپنے ماحول سے لاتعلق نہیں رہ سکتا۔ فرق مائیکرو یا میکرو لیول پر ہو سکتا ہے، لیکن بہرحال ہو گا۔ اگر ملک کی سیاسی پارٹیوں میں سے کسی کے ساتھ اس کی وابستگی نہیں ہے تو فبہا، مگر جمہوریت یا آمریت میں سے کسی ایک طرف اس کا جھکاؤ ضرور ہو گا۔ یہ نہیں ہے تو وہ شخصی نظام حکومت کی طرف مائل ہو گا یا کوئی بھی چوتھا آپشن اپنے ذہن میں رکھے بیٹھا ہو گا۔ وہ آپشن جو اس کے خیال میں تمام مسائل کا حل ہے۔ تو اس حل کے لیے وہ جس بھی جائز اور قانونی طریقے کی حمایت کرے، یہ اس کا حق ہے۔ لیکن جو باقی نظام ہائے ریاست ہیں وہ ان کے خلاف بھی ہو گا۔ یقیناً ہو گا۔ اختلاف زندگی کی بنیاد ہے۔ دن کا اختلاف رات ہے، سردی کا گرمی ہے، بہار خزاں سے مختلف ہے، اندھیرا روشنی پر ختم ہوتا ہے، تو یہ سب کائناتی طریقے ہیں اور ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ اس کے باوجود سکون سے ایک دوسرے کے ساتھ چلتے ہیں۔ اختلاف کا اظہار جوتے پھینک کر کیا جائے، یہ کسی بھی ریاستی بندوبست میں قابل برداشت نہیں ہے۔

ایران، پاکستان، انڈیا، عراق اور دوسرے بہت سے ایسے ملک ہیں جو سیاسی لیڈروں پر جوتے برسائے جانے کے معاملے میں خود کفیل ہیں۔ معلوم ڈیٹا کے مطابق سیاست دانوں پر جوتا کاری کی ابتدا 2008 میں عراق سے ہوئی۔ وہاں کے ایک صحافی منتظرالزیدی نے صدر بش کو بغداد میں ایک پریس کانفرنس کے دوران جوتا کھینچ مارا۔ وہ انہیں لگ نہ سکا تو دوسرا اتار کر مار دیا، نہ وہ نشانے پر لگا نہ عراقی مسائل حل ہو سکے۔ اس سے پہلے یہی جوتے صدام کی تصویروں کو بھی پڑے تھے، جس وقت سب اچھے کی اطلاع تھی۔ تیرے جانے کے بعد تیری یاد آئی والا معاملہ تھا۔ عراقی عوام کے جذبات اپنی جگہ لیکن جوتا ایک وقتی خبر کے علاوہ کچھ نہ بنا سکا۔ اور بش جو اس جوتا کلچر سے بہرحال اتنے واقف بھی نہیں تھے، انہوں نے اس واقعے کو صرف یہ کہہ کر ٹال دیا، ’اگر آپ حقیقت جاننا چاہیں، تو وہ دس نمبر کا تھا‘‘۔ کھیل ختم پیسہ ہضم۔

ایران میں صدر احمدی نژاد کو جوتوں کا سامنا کرنا پڑا، بھارت میں لعل کرشنا ایڈوانی کو یہ پریشانی رہی، چدم برہم پر بھی ایک سکھ نوجوان صحافی نے جوتا پھینکا، اروند کجریوال شکار ہوئے، اور تو اور بش کو جوتا مارنے کے بعد اگلے برس ہی منتظرالزیدی فرانس میں خود اسی حرکت کا شکار ہو بیٹھے۔ تشدد بہرحال مزید تشدد کو جنم دیتا ہے، گالی کی کوکھ سے فساد نکلتا ہے اور بے شک پہلی گولی دشمن کو ٹینک چڑھانے کی کھلی دعوت ہوتی ہے۔

گزشتہ دس برس ایسے گذرے کہ پاکستان میں بزرگ سیاست دان شیرافگن نیازی پر تشدد ہوا، صدر ہوتے ہوئے آصف علی زرداری کی جانب جوتا اچھالا گیا، احمد رضا قصوری کے منہ پر کالا رنگ ملا گیا، ارباب غلام رحیم پر اسمبلی کے باہر تشدد ہوا اور اب شیخ رشید پر دو چار روز پہلے جوتا پھینکا گیا۔ یہ سب ہماری سیاست کے مختلف الخیال راہنما ہیں۔ اگر ملک کا آئین جمہوری ہے تو سیاست اس کا لازم حصہ ہے۔ یہ تمام لوگ پاکستان کا سیاسی چہرہ ہیں، مختلف انتخابات میں یہ جیتے بھی ہیں، یہ ہارے بھی ہیں، مجموعی طور پر سیاست کے ادارے اور لوگوں کے ووٹ بینک کی نمائندگی کرتے ہیں۔ نظریاتی اختلاف یا پارٹی وابستگی پر کسی ایک سیاست دان کو جوتا مارنا پورے سسٹم کو جوتا مارنے والی بات ہے۔ اور یہ ناقابل برداشت ہے۔ اسے مزید شہہ ان سرخیوں سے ملتی ہے جو ذرائع ابلاغ ہر ایسی خبر پر بناتے ہیں۔ فلاں سیاست دان جوتا کلب میں شامل، فلاں نے جوتے کھا لیے، فلاں کو جوتا پڑ گیا، یا للعجب! ہم میں سے کون ہے جو اپنے گریبان میں جھانکے اور خود کو کسی بھی دوسرے

شخص سے برتر سمجھ سکے؟ تو کیا اس کا مطلب ہوا کہ ہر شخص کا ہر شخص کو جوتے مارنا جائز ہو گا اور بات ہنسی ٹھٹھے میں اڑا دی جائے گی؟ سیاست دانوں کو ویسے بھی جوتے مارنا سب سے آسان ہوتا ہے!

یہ وقت ہے کہ بظاہر اس معمولی سی تذلیل کو تمام سیاست دان ذاتی طور پر محسوس کریں اور اپنے گھر سے ہی سہی، بیٹھے بیٹھے ایک مذمتی بیان بھی جاری کر دیں تو شاید ان کے پارٹی کارکن کچھ عقل کو ہاتھ مار لیں۔ شیخ رشید پر جوتا پھینکنے والے شخص نے وجہ سیاسی اختلاف بیان کی اور خود کو برسر اقتدار جماعت کا رکن/ ورکر ظاہر کیا۔ ترجمان پنجاب حکومت زعیم قادری نے اس واقعے پر کھلے دل سے معافی مانگی، مذمت کی، بہت اچھا کیا۔ یہ برا وقت ہے، گاہک، موت، جوتا اور برا وقت کسی کا انتظار نہیں کرتے، اس سے پہلے کہ یہ وقت کسی اور سیاسی راہنما پر آئے کم از کم اتنی مذمت کر دیجیے کہ مکالمے کا سیاسی شعور بیدار ہو سکے اور ہاتھ پاؤں چلانے کی رسم میں کمی ہو۔ راوی چین لکھتے لکھتے کب شہر آشوب لکھ بیٹھے، کسے خبر ہے۔

بشکریہ روزنامہ دنیا

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain