خاور نعیم ہاشمی کے اعزاز میں صحافی برادری کی تقریب
گزشتہ دنوں لاہور پریس کلب میں نامور صحافی خاور نعیم ہاشمی کی 63ویں سالگرہ کا کیک کاٹا گیا۔ خاور نعیم ہاشمی 4 مارچ 1954کو پید ا ہوئے۔ وہ پاکستان کے مشہور اولین اداکاروں میں ایک نعیم ہاشمی کے فرزند ہیں۔ اس تقریب میں بہت سے نامور صحافی موجود تھے جن میں لاہور پریس کلب کے صدر شہباز میاں، سیکرٹری عبدالمجید ساجد، اشرف سہیل، نعیم مصطفی، ڈاکٹر لا ل خان، سعید اظہر، مسعود اختر، ڈاکٹر اجمل نیازی، زاہد شمسی، آصف بٹ، عابد خان اور دیگر شامل تھے۔ تقریب میں حاضرین نے خاور نعیم ہاشمی کی صحافت کے لئے خدمات کو خراج تحسین پیش کیا اور مختلف حوالوں سے ان کی شخصیت کے مختلف پہلوؤ ں پر گفتگو شنید کی۔
خاور نعیم ہاشمی میگزین، نیوزاور ٹی وی جرنلزم میں ایک اہم نام ہے۔ ا ن کے والد نعیم ہاشمی بہت بڑے اداکار اور ہیرو تھے جن سے وہ بے پناہ محبت کرتے ہیں اور ہرسال باقاعدگی اور بڑے اہتمام سے ان کی برسی مناتے ہیں۔ ان کے شاگر مختلف مشہور اخباروں اور ٹی وی اسٹیشنز پر کام کرتے ہیں۔ قلم کی حرمت کے لئے ان کی بے پناہ خدمات ہیں وہ ایک مجسم نظریاتی صحافی ہیں۔ ان کے شاگر ہر جگہ موجود ہیں اور صحافی برادری کے لئے ان کی بے پناہ قربانیاں ہیں۔ 13مئی 1978کو جب بہت سے صحافیوں کو پکڑ کر جیلوں میں ڈالا گیا تو خاور نعیم ہاشمی ان میں ایک تھے۔ ان کو کوڑوں لگائے گئے۔ بہت سے صحافیوں نے موقع کو غنیمت جان کر معافی نامہ پر دستخط کر دیے اور توبہ کر کرکے باہر نکل گئے لیکن خاور نعیم ہاشمی وہ واحد انسان تھے جنہوں نے اصولوں پر سمجھوتا نہیں کیا معافی نہیں مانگی اور جیل کی سہولتیں برداشت کیں۔
وہ ضمیر کی صدا پر لیبک کہنے والے صحافی ہیں۔ وہ اپنے والد سے بے پناہ محبت کرتے ہیں۔ وہ جہاں بھی گئے انہوں نے صحافت کے لئے، صحافیوں کے لئے اداروں کے لئے بہت کام کیا۔ جب وہ جنگ اور جیو میں تھے توان کے خلاف بہت سی پابندیاں لگی تو انہوں نے آواز اٹھائی۔ جب وہ بول میں گئے تو بول کے خلاف اقدامات کیے گئے تو سڑکوں پر آئے اور صحافیوں کی آواز بنے۔ وہ تمام صحافیوں کے ہیرو ہیں۔ وہ پریشانی اور مایوسی کا اظہار نہیں کرتے۔ وہ استا د ہیں، لیڈر اور اور قلم کی حرمت کے پاسدار ہیں۔ ان کے اندر لیڈر کی خوبیاں بے حد موجود ہیں۔ وہ صحافیوں کے حقوق کے علمبردار ہیں اور نوجوان صحافیوں کے خاص طور پررول ماڈل ہیں اور جدو جہد کے پیکر ہیں۔ وہ جونئیززسے بے حد محبت کرتے اور ان کی رہنمائی کرتے ہیں۔ وہ سب کی عزت کرتے ہیں اور عزت نفس مجروحکیے بغیر سب کے کام آتے ہیں۔ وہ ایک بہت بڑے انسان ہیں اور انسانیت سے محبت کرنے والے ہیں۔ ان بارے میں کہا جا سکتا ہے۔
جن سے مل کے عشق ہو جائے زندگی میں وہ لوگ
آپ نے دیکھے نہ ہو نگے مگر ایسے بھی ہیں
وہ ایک بہادر انسان ہیں اور ہمیشہ ظلم کے خلاف لڑتے آرہے ہیں۔ اس موقع پر موجود ایمرا کے صدر عابد خان کا کہناتھا کہ جس بھی موقع پر انہوں نے ہماری رہنمائی فرمائی وہ اس میں کامیاب ہوئے۔ انہوں نے کوڑے تو کھائے لیکن کوڑوں کو کروڑوں میں تبدیل نہیں کیا۔ وہ ایک کمیٹڈ انسان ہیں۔ وہ سب کے دوست ہیں اور نوجوانو ں کے آئیڈیل اور ہیروہیں۔ ڈاکٹر لال خان کا کہنا تھا کہ آزادیٔ صحافت کے خلاف لڑائی اب بھی جاری ہے اور اسی طرح جاری رہے گی۔ اس دور میں خاورنعیم ہاشمی جیسے لوگ ایک روشنی کا مینار ہیں۔ خاور نعیم ہاشمی کے قریبی دوست اور مشہور صحافی ڈاکٹر اجمل نیازی کا کہنا تھا کہ خاور نعیم ہاشمی کی دوستی ان کے لئے ایک بہت بڑی نعمت ہے۔ خاور نعیم ہاشمی ایک رومینٹک آدمی ہیں وہ ان کے انتہائی قریب رہے ہیں اور ان کے لئے ایک اعزاز کی بات ہے کہ وہ ان کے ایک قریبی دوست ہیں۔ ان کی دوستی ان کے لئے نعمت سے کم نہیں ہے۔
ایمرا کے سیکرٹری آصف بٹ نے خاور نعیم ہاشمی کو ان کی سالگرہ پر مبارک باد پیش کی اورکہاکہ ان کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے ان کے پاس الفاظ نہیں ہیں۔ پروگریسو گروپ کے چئیرمین معین اظہر صاحب کا کہنا تھا کہ خاور نعیم ہاشمی اندر سے ایک بہت خوبصور ت انسان ہیں اور وہ دل سے ان کا احترام کرتے ہیں۔ وہ نوجوان صحافیوں کے ہیروں ہیں اور صحافیوں کی بے پناہ مدد کرتے ہیں۔ دکھ اور درد میں ان کے کام آتے ہیں۔ میاں راشد فرزند کا کہنا تھا کہ والدین سے محبت االلہ تعالی سے محبت ہے اور والدین سے محبت االلہ تعالی کے قریب لے جاتی ہے۔ خاور نعیم ہاشمی ان کے ایک اچھے دوست ہیں اور وہ ایک اچھے انسا ن ہیں۔ خاور نعیم ہاشمی ملٹی ڈائی مین شنل شخصیت ہیں وہ ہمیشہ ان کے تجربات سے فائدہ اٹھاتے رہے ہیں۔ مشہور صحافی و ایڈیٹر خالد چودھری کا کہنا تھا کہ خاور نعیم ہاشمی سے ان کا 45 سال کا تعلق ہے اور انہوں نے خاور نعیم ہاشمی کے ساتھ مصیبتیں برداشت کیں اور آزادیٔ صحافت کے لئے بے پناہ قربانیاں دیں۔
اس موقع پر خاور نعیم ہاشمی نے اس عزت افزائی کے لئے اور تقریب منعقد کرنے کے لئے خاص طور پر لاہور پریس کلب کا شکریہ ادا کیا اور فرمایا کہ آخری دفعہ جب وہ جنگ میں کام کررہے تھے 1982میں تو ان کو قید کیا گیا اور ان کو شاہی قلعہ میں سات ماہ کے لئے بند کر دیا گیا اور فوجی عدالت میں پیش کیا گیا اور جو دفعہ لگائی وہ 302کی دفعہ تھی کہ ان کا جرم آزادیٔ صحافت کے لئے آواز بلند کرنا تھا۔ لیکن وہ 302کا پروانہ پڑھ کر ڈرے نہیں۔ انہوں اس موقع پر خاص طور پر اپنے استادوں ڈاکٹر مظفر عباس، آئی اے رحمان، ظہیرکاشمیری اور شوکت صدیقی کا ذکر کیا اور اپنی تربیت اور تعلیم میں ان کا شکریہ ادا کیا۔ اس موقع پر انہوں نے اپنے والد کو بھی یاد کیا اور کہا عزت نفس کا سبق انہوں نے اپنے والد سے سیکھا، المیوں کے برداشت کرنے کا سبق بھی انہوں نے اپنے والد سے سیکھا۔ انہوں 16سال کی زندگی میں اپنی صحافیانہ زندگی کا آغاز کیا اور اپنے والد کی وجہ سے اور ان کے اصولوں پر قائم رہتے ہوئے 47سال صحافت کے میدان میں اپنی خدمات سر انجا م دے رہیں ہیں۔ انہوں نے صحافت کو صحافت ہی سمجھا قلم کی حرمت کو ہمیشہ مقدم رکھا اور اسے کاروبار نہیں بنایا۔ انہوں مخالفین اور دشمنوں کے بارے میں کبھی بھی نہیں سوچا۔ انہوں نے یہاں حضرت علی ؓ کا قول بھی حاضرین کو بتایا کہ جب مخالفین اور دشمنوں کی تعداد بڑھنے لگے تو سمجھو االلہ تعالی آپ کو عزت دے رہا ہے۔ انہوں نے زندگی میںNo کرنا نہیں سیکھا ہمیشہ غلطیوں سے سیکھا ہے۔ محبتیں کیں ہیں اور زندگی میں دوسروں کی مدد کی ہے اور پیار بانٹا ہے۔ اس موقع پر انہوں نے بڑا خوبصورت شعر سنایا!
۔ صبح کو ڈھونڈتے مجھے شام ہو گئی
کچھ اس طرح زندگی تمام ہو گئی
انہوں نے اس موقع پر فرمایا کہ اچھی چیزیں دوستوں سے شئیر کرتے رہنا چاہیے۔ انہوں نے فرمایا کہ وہ محبت کو محدود کرنے کے قائل نہیں ہیں او ر اس سلسلہ میں منیر نیازی کے فلسفہ عشق پر یقین رکھتے ہیں کہ محبت سب سے کرنی چاہیے اور اس کو محدود نہیں کیا جا نا چاہیے۔ اس موقع پر خاور نعیم ہاشمی کے بیٹے جن کا نام انہوں نے والدکی محبت کی بناپر نعیم ہاشمی رکھا ہے۔ نعیم ہاشمی صاحب بھی موجود تھے ان کا فرمانا تھا کہ ان کے والد مفاد پرست اور مطلبی نہیں ہیں وہ اپنے والد کے نقشے قدم پر چلنے کی کوشش کررہے ہیں اور انہیں خاور نعیم ہاشمی کابیٹا ہونے پر فخر ہے۔ اس موقع پر لاہور پریس کلب کے صدر شہباز میاں کاکہنا تھا کہ خاور نعیم ہاشمی ایک رہبر ہیں اور رہنما ہیں اور صحافت میں ان کا ایک بہت بڑا نام ہے۔ وہ ہمارے انمو ل ہیرے ہیں اور ہمارا فخر ہیں۔ صحافت میں اگر کوئی ان کا استاد ہے تو وہ خاور نعیم ہاشمی ہے، یہ انہی کی بدولت آج ان کے مقام پر موجود ہیں، ہمیشہ ان کی رہنمائی کرتے ہیں۔ خاور نعیم ہاشمی سے ان کا تعلق ایک جذباتی ہے۔ انہوں نے خاور نعیم ہاشمی کا شکریہ ادا کیا کہ وہ اس دور میں آزادیٔ صحافت کے لئے نو جوان صحافیوں کی رہنمائی کر رہے ہیں اور ان کی سرپرستی کرتے رہتے ہیں۔ وہ ہمت اور حوصلے کی ایک علامت ہیں۔ نو جوان صحافیوں کو ان کے نقشے قدم پر چلنا چاہیے۔ انہوں نے خاور نعیم ہاشمی کو ان کی 63ویں سالگرہ پر مبارکباد پیش کی۔
- ترک کہانی: بابائے چرند و پرند - 28/05/2024
- کھیل کھیل میں - 19/05/2024
- اپالو سے آئی کیوب۔ قمر تک - 13/05/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).