دی ریویو ود مہوش: سنگ مر مر میں تشدد اور راستبازی کے دعوے ساتھ ساتھ


کہتے ہیں بڑا بول نہیں بولنا چاہیے۔ اور اس بڑے بول کا تعلق صرف مال و دولت یا نمائش سے نہیں۔ اس بڑے بول کا تعلق خود راستبازی سے بھی ہے۔ ایک منٹ! میں سمجھاتی ہوں۔ آپ نے کبھی کبھی نوٹ کیا ہوگا کہ کچھ لوگ بہت بڑے بڑے بھاشن بہت آسانی سے دے جاتے ہیں۔ خاص کر کہ جب کسی اور پہ مصیبت پڑے۔ یا کوئی اور کسی اخلاقی مسئلے کا شکار ہو۔ بقول مرحوم اداکار سکندر صنم  کہ کڑھائی کسی اور کی بن رہی ہوگی، کھانی کسی کو ہوگی مگر کچھ لوگ فوری دیکھ کے بولتے ہیں  “ابھی آدھا گھنٹہ اور لگے گا مرغی گلنے میں!” نیز یہ کہ بھاشن دینے سے پہلے سنہری اصول یاد رکھیں: وہی بولیں جس پہ خود پورے اتر سکیں۔

ہم سب میں سے جو لوگ سنگ مر مر دیکھ رہے ہیں ان کو پچھلے ہفتے کی قسط جذباتیت سے بھرپور لگی ہوگی۔ اس قسط میں دل برداشتہ ہو کر شیریں نے گلستان خان کے سامنے اپنے نہ کیے ہوئے گناہوں کا اعتراف کیا جس کے بعد گلستان خان کی بیوی، جو کہ ہر وقت دوسروں کو اچھا بننے کا درس دیتی تھی، شیریں کی طرف بڑھتی ہے اور اسے زور دار تھپڑ رسید کرتی ہے۔ منٹوں بعد بانو بھی شہ پا کے شیریں کو مارنا پیٹنا شروع کر دیتی ہے۔ ایک منٹ کو اورنگ اس کو بچانے کے لئے اٹھتا ہے مگر اس کی بیوی، پلوشہ، اسے روک دیتی ہے اور وہ واپس بیٹھ جاتا ہے۔ اس سین میں شیریں کے پٹنے کے دکھ سے کہیں زیادہ دکھ ان انسانیت اور انصاف کے الم برداروں کی منافقت پہ ہوا جو پچھلی کئی اقساط سے گلستان خان کی جلاد صفت کو کوستے تھے۔ مگر انہوں نے ثابت کر دیا کہ وہ بھی گلستان خان سے کم نہیں۔ بلکہ گلستان خان کو تو شاید اپنے کیے پہ پچھتاوا بھی ہوا، مگر یہ سب تو اتنی اچھائی کا دعویٰ کرنے کے بعد اتنے کھوکلے نکلے۔

شاید یہ بھی ایک بہت بڑا سبق ہے ہم سب کے لئے کہ خود کا تحفظ کرنے میں کبھی کبھی ہم کس قدر حیوان بن جاتے ہیں۔ اپنے آپ کو بچانے کے لئے انسان کبھی کبھی اپنے تمام اصولوں کا سودا کتنی آسانی سے کر لیتا ہے۔

 

اس قسط پر دیکھئے میرا تفصیلی ریویو:

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).