دور دیس کے شہر اور چار طرف بہتے دریا


ساری زندگی تقریباً ہر پانچ سال ایک نئی جگہ پر رہے۔ ہماری تین نسلیں چار ملکوں میں رہیں، اس لئے جب کوئی کہتا ہے کہ وہ نارمن میں پیدا ہوئے اور ساری زندگی یہاں ہی رہے یا ان کے باپ دادا، ماں باپ اور اب وہ خود بھی یہیںرہتے ہیں تو اس تجربے کو میں سمجھ نہیں سکتی ہوں۔ کچھ لوگوں نے ساری دنیا بھی گھومی ہوئی ہے اور بہت سے لوگوں سے ملے ہیں۔ یہ پتا چلتا ہے کہ جن لوگوں نے سفر کیا ہو وہ دنیا کو اور زندگی کو ایک نقطہ نظر سے نہیں بلکہ کئی زاویوں سے دیکھ سکتے ہیں۔
غالب نے کہا تھا کہ وہ شاعر کیسے ہوسکتا ہے جس نے کبھی شراب نہیں چکھی، معشوقوں کے ہاتھ سے چپل نہیں کھائے اور جیل کو اندر سے نہیں دیکھا! زندگی خود بھی بہت سکھاتی ہے۔ ضروری نہیں کہ صرف موٹی موٹی کتابیں یا بڑی عمارتیں ہی کچھ سکھائیں گی۔
آپ آج بہت دبلے لگ رہے ہیں اور چہرہ بھی پتلا سا ہو گیا ہے، کیا آپ کی طبیعت خراب ہے، میں نے 84 سالہ مریض سے پوچھا۔ وہ اپنی عمر کے بریکٹ میں سب سے زیادہ وزن اٹھانے کے دنیا کے چیمپئنوں میں سے ایک ہیں۔ میں اپنی پوتی کے ساتھ ایک ہیوی لفٹنگ کے مقابلے کے لئے نیوزی لینڈ جا رہا ہوں اور وزن کی لمٹ اتنی ہے اس لئے جان بوجھ کر وزن گھٹایا ہے۔ مقابلے سے دو گھنٹے پہلے وزن کیا جاتا ہے اور اگر ٹھیک نہ ہو تو ڈس کوالیفائڈ ہوسکتے ہیں۔ ہم اتنی دور جا رہے ہیں اور میں نہیں چاہتا کہ وہاں پہنچ کر ایسا ہو۔ اس لئے جو درکار ہے اس سے کم ہی رکھا ہوا ہے۔ پھر انہوں نے بتایا کہ کس طرح کھانا پینا کم کر کے اور باقاعدگی سے ورزش کرکے کھلاڑی اپنا وزن قابو میں رکھتے ہیں اور اگر عین وقت پر زیادہ ہو تو چند گھنٹوں میں کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان میں سے قبض کی دوائیں زیادہ کھانے کے علاوہ ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ گاڑی میں ہیٹر چلا کر موٹے کپڑے پہن کر اتنا پسینہ نکالا جائے کہ وزن کم  ہو جائے۔ یہ تو بہت مشکل کام ہیں، میں نے کہا تو کہنے لگے ہاں اگر آسان ہوتا تو ہر کوئی چیمپئن ہوتا۔
اس کے علاوہ ان کے دونوں کندھوں میں پرابلم ہے جس کی سرجری کی ضرورت ہے اور صحت یابی میں سات آٹھ مہینے لگ جائیں گے جبکہ مقابلہ ایک مہینے میں ہے۔ کہنے لگے یہ مقابلہ ہر چار سال میں صرف ایک دفعہ ہوتا ہے اور میں نہیں چاہتا کہ اس کو مس کروں۔ ہو سکتا ہے کہ وزن میرے سر پر یا کمر پر گر جائے۔ تو آپ مت جائیے! جان ہے تو جہان ہے۔
کہنے لگے بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ اپنے ملک سے دور سفر کرکے ایک مقابلہ جیت کر پوڈیم پر کھڑے ہوتے ہیں اور آپ کے ملک کا ترانہ بجایا جاتا ہے تو کیسا محسوس ہوتا ہے۔ ایسا میں نے پہلے دو بار کیا اور میں یہ دوبارہ کرنا چاہتا ہوں۔
ان کی زندگی سے میں نے یہ سبق سیکھا کہ اگر انسان اپنی زندگی میں کوئی بھی مقصد بنا لے اور اس پر انتھک محنت کرے تو اس کے مثبت سائیڈ افیکٹ ہوتے ہیں جیسا کہ ان کے لیے انٹرنیشنل ٹریول اور اچھی صحت۔ اور وہ زندہ ہیں تو سماج کو بہتر بنانے میں ہاتھ بٹا رہے ہیں اور ان کے بچوں کے بچوں کو بھی دنیا دیکھنے کا موقع مل رہا ہے۔ اگر ہاتھ پیر چھوڑ کر مر گئے ہوتے تو یہ سب چیزیں نہ ہوتیں۔
ایک مریض کو کسی اینڈوکرائن بیماری کی وجہ سے میرے پاس بھیجا گیا تھا۔ آپ کیا کرتے ہیں؟ ان سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ میں یہاں یونیورسٹی میں جہاز اڑانا سکھاتا ہوں۔ اچھا جہاز اڑانا سیکھنے میں کتنا ٹائم لگتا ہے؟ تو کہنے لگے کہ چھ مہینے۔ کچھ تھیوری کا کورس ہے اور کچھ فلائنگ کا۔ یہ سن کر میری دلچسپی بڑھی کہ صرف چھ مہینے میں اگر میں جہاز اڑانا سیکھ لوں تو ہم خود بھی ایک پرانا چھوٹا سا جہاز لے سکتے ہیں یا پھر کرائے پر بھی لے سکتے ہیں، اس کو اڑا کر نارمن سے جب چاہے جلدی سے امی کے گھر ڈیلاس پہنچ جائیں گے۔ ویک اینڈ کے اوکلاہوما سے ٹیکساس کے ٹریفک کو مات دینے کے خیال سے ہی میری آنکھیں چمکنے لگیں اور میں نے ایک لمحے کے لیے تصور کیا کہ ساوتھ باونڈ آئی تھرٹی فائیو پر قطار میں پھنسی گاڑیوں کی لائن کو آسمان سے پیچھے جاتے دیکھ رہی ہوں، لیکن وہ تمام خیالی انڈے یہ سن کر ایک دم ٹوٹ گئے کہ ہفتے میں تین دن جہاز اڑانے کی پریکٹس کرنی پڑے گی۔ اگر میں ہفتے میں تین دن جہاز اڑاوں گی تو میرے مریض کون دیکھے گا؟ نارمن میں ہماری اسپیشلٹی میں صرف دو ڈاکٹر ہیں، ایک میں اور ایک ڈاکٹر فام۔ اگر میں غائب ہوجاوں تو وہ، ان کی بیوی اور دو ننھے منے پیارے بچے دل میں مجھے بددعا ضرور دیں گے کہ سارا کام ان کے سر پر ڈال گئی ہوں۔
آپ کس ملک میں پیدا ہوئیں؟ انہوں نے پوچھا۔ پاکستان۔ میں لاہور میں رہتا تھا اس لئے پوچھ رہا ہوں۔ اوکلاہوما میں کتنے لوگوں کو لاہور کا پتا ہے۔ کہاوت ہے کہ جس نے لاہور نہیں دیکھا وہ ابھی پیدا ہی نہیں ہوا تو اوکلاہوما میں آپ اور میں ان لوگوں میں سے ہوئے جو پیدا ہوچکے ہیں۔ لاہور ایک تاریخی شہر ہے جہاں وقت کے بہتے ہاتھ سامنے دیکھ سکتے ہیں۔
آپ وہاں کب تھے؟ جب میں ہائی سکول میں تھا تو میں اور میری چھوٹی بہن اپنے والدین کے ساتھ لاہور میں رہتے تھے۔ 1971 ء میں جنگ سے پہلے ہم لوگوں نے پاکستان چھوڑ دیا تھا اور واپس امریکہ آگئے۔ میرے والدین مشنری تھے اور انہوں نے انڈیا کا پارٹیشن اپنے سامنے دیکھا کہ کس طرح ہندو مسلمانوں پر اور مسلمان ہندووں پر ظلم کر رہے تھے۔ اس کے بعد یہ سمجھ میں آیا کہ ملکوں کو مذہب کے نام پر تقسیم کرنے کا کچھ سینس نہیں بنتا کیونکہ پھر بنگال جدا ہوگیا۔
کہنے لگے مشرقی پاکستان جمہوریت کے مطابق جیت گیا تھا جو مغربی پاکستان نے برداشت نہیں کیا اور جنگ کر دی۔ یہ باتیں آپ سمجھ رہے ہیں لیکن وہاں تاریخ کے کورس میں نہیں پڑھایا جاتا، میں نے ان سے کہا۔ کہنے لگے وہ ہر جگہ ایسا ہی ہے۔ ہمیں بھی مینیفسٹ ڈیسٹنی پڑھائی گئی تھی اور جو ریڈ انڈین ہیں وہ تاریخ کو مختلف نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ہر کوئی تاریخ کو اپنے ہی نقطہ نظر سے دیکھتا ہے۔
کیا آپ کو وہاں رہنا یاد ہے؟ ہاں بہت اچھے دن تھے۔ ہم ایک معمولی ٹین ایجر تھے اور ادھر ادھر جانے میں کوئی مسئلہ نہیں ہوتا تھا۔ خیبر پاس کراس کرکے دو بار کابل بھی چلے گئے۔ ایک بار بس خراب ہوگئی تو ہم سب نے مل کر اس کو دھکا لگایا۔ نئی دلی گئے، الٰہ آباد میں رہے، میں اور میرا بھائی گنگا میں نہائے، یہ اچھا ہوا ہمیں کوئی انفیکشن نہیں ہوئی ۔انہوں نے بازو اٹھا کر کہا۔ اب تو کوئی امریکی اس طرح آزادی سے پاکستان اور افغانستان نہیں جا سکتا۔ دنیا کتنی بدل گئی۔
ایک مریض ہوشیار پور انڈیا سے امریکہ اس وقت آگئے تھے جب وہ سولہ سال کے تھے۔ ایک مرتبہ واپس آئے تو ان کی ذیابیطس کا کنٹرول بگڑا ہوا تھا۔ کہنے لگے کہ میری امی آئی ہوئی ہیں اور روز پراٹھے بنا کر کھلاتی ہیں اس لئے میری شوگر زیادہ ہوگئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کی امی لاہور میں پیدا ہوئی تھیں۔ اتقاق کی بات ہے کہ میرے سوتیلے ابو ہوشیار پور میں پیدا ہوئے تھے تو اس طرح ہماری فیملیز نے 1947ء میں متضاد سمت میں سفر کیا۔ میں نے ویٹنگ روم میں جا کر ان کی امی سے ہاتھ ملایا،ان کی طبیعت پوچھی، ان سے میں نے مہاجر ہونے کا انسانی رشتہ محسوس کیا۔
(جن مریضوں کا بھی ذکر میری تحریروں میں ہے، ان سے اجازت لے لی گئی ہے اور ان کہانیوں کا ان بیماریوں سے کوئی تعلق نہیں جن کے لیے انہوں نے کنسلٹ لیا۔ اس لحاظ سے یہ کہانیاں ہپا کے قانون کی خلاف ورزی نہیں کرتیں۔)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).