تقدس ایوان کس کی ذمہ داری ہے!


کسی بھی جمہوری معاشرے میں ایوان کا تقدس سب سے مقدم ہوتا ہے لیکن ہمارے ملک میں اراکین اسمبلی خود ایوان کا تقدس پامال کرنے میں کسی سے پیچھے نہیں! اکثر قومی اسمبلی کا اجلاس صرف کورم پورا نہ ہونے کی وجہ سے ختم ہو جاتا ہے یا شروع ہی نہیں ہو پاتا۔ جہاں تک ایوان سے ہونے والے مالی فوائد اور سہولیات کا تعلق ہے تو اس معاملے میں تمام اراکین اسمبلی متحد ہیں کہ وقتاً فوقتاً اس میں متواتر اضافہ ہوتا رہے اور تمام سہولیات جس میں بیرون ملک علاج معالجے کی سہولت بھی شامل ہے، سے بھرپور استفادہ حاصل کیا جائے۔ عوام کے دیے گئے ٹیکس سے اراکین اسمبلی کی تنخواہیں اور سہولیات کے لئے رقم جاری ہوتی ہے۔

قومی اسمبلی ایک قانون ساز ادارہ ہے لیکن اراکین کی توانائی قانون سازی سے زیادہ اپنے مخالف رکن کی ٹانگیں کھینچنے میں صرف ہوتی ہے۔ ایوان کی کارروائی کا اگر جائزہ لیا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ کوئی تقریری مقابلے کا مقام ہے۔ اراکین یوں تو عموما ًایوان سے غیر حاضر ہی رہتے ہیں، اگر حاضر ہو بھی جائیں تو ان کا مطمع نظر وزیر اعظم یا وفاقی وزرا سے اپنے ذاتی نوعیت کے کام کرانا ہوتا ہے۔ وزیر اعظم ا ور وفاقی وزرا تو ایوان میں تشریف لانے کی زحمت کم ہی گوارا کرتے ہیں چہ جائیکہ کوئی اہم نوعیت کا قومی مسئلہ درپیش ہو یا قو م کسی سانحے کی وجہ سے صدمے سے نڈھال ہو لیکن اس موقع پر بھی اراکین کارویہ مناسب نہیں ہوتا، تقریری مقابلے ہوتے ہیں مسائل کے حل کی طرف توجہ ہونے کی بجائے ایک دوسرے پرلعن و طعن کرنے میں ساراوقت صرف ہوجاتا ہے۔

وزیر اعظم اپنی تقریر میں قوم کو دلاسہ دے کر جب ایوان سے رخصت ہوتے ہیں تو ان کے ہم نوا اراکین اسمبلی بھی ایوان سے ا ن کے پیچھے پیچھے چلے جاتے ہیں، کورم کی نشاندہی ہوتی ہے اور یوں اجلاس ختم! قومی اسمبلی کا ایک اجلاس منعقد ہونے میں کروڑوں روپے خرچ ہوتے ہیں لیکن وزیراعظم، وفاقی وزرا اور اراکین اسمبلی کو اس کا قطعاً کوئی احساس نہیں ہے کیونکہ پیسہ تو قوم کی جیب سے خرچ ہو رہا ہے۔ پیپلز پارٹی اپنا دور حکومت مکمل کرچکی ہے۔ موجودہ حکومت بھی اپنے اقتدار کا نصف سے زیادہ عرصہ گزار چکی ہے اور بیشتر اراکین تو دوسری، تیسری دفعہ منتخب ہوکر ایوان کا حصہ بنے ہیں۔ لیکن اراکین اسمبلی کی اکثریت پارلیمانی روایات و اقدار سے نابلد ہے حتیٰ کہ سینئر اراکین بھی ذمہ داری کا مظاہرہ کرنے سے قاصر رہتے ہیں

ملکی سیاست میں ایک عرصہ سے طوفان بدتمیزی برپا ہے۔ مخالفین کے لیے وہ زبان و الفاظ استعمال کیے جا رہے ہیں جن کے استعمال کا تصور مہذب گھرانوں میں نہیں کیا جا سکتا۔ الیکٹرانک میڈیا اپنی آزادی کا بھرپور استعمال کرتے ہوئے جہاں ناخوشگوار سیاسی واقعات اور نازیبا الفاظ کا چرچا کرتا ہے، وہیں سوشل میڈیا پر بھی طوفان بدتمیزی کی مہم کا آغاز ہو جاتا ہے۔ حالیہ نا خوشگوار واقعات کی جڑیں اور تانے بانے، محترم عمران خان کے ان بیانات سے جا ملتے ہیں جب پہلے تو انہوں نے لاہور میں PSL فائنل کے انعقاد کو احمقانہ قرار دیا اور پاگل پن سے تعبیر کیا اور پھر مرے پہ سو درے کے مترادف، فائنل کے کامیاب انعقاد کے بعد بھی غیر ملکی کرکٹرز کو پھٹیچر اور ریلو کٹا کہہ کر وطن عزیز کو بدنام کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔

الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر عمران خان صاحب کے ان بیانات کو لے کر بحث جاری تھی کہ قومی اسمبلی کے اجلاس کاآغاز ہوگیا۔ میاں جاوید لطیف سینئر رکن اسمبلی ہیں، اجلااس میں تقریرکرتے ہوئے انہوں نے عمران خان صاحب کے حالیہ بیانات کو تاریخ کی روشنی میں غداری سے تعبیر کیا۔ جس پر تحریک انصاف کے اراکین نے ایوان میں بولنے کی اجازت چاہی لیکن سپیکر نے صورتحال کو نازک تصور کرتے ہوئے اجلاس ملتوی کردیا۔ اجلاس کے بعد جب میاں جاوید لطیف ایوان کی راہداری میں سے گزر رہے تھے تو طیش میں آئے نوجوان رکن اسمبلی مراد سعید نے نے ان پر حملہ کر دیا اور ایک مکا بھی جڑ دیا۔ رہی سہی کسر میاں جاوید لطیف کی اس پریس کانفرنس نے پوری کردی جب انہوں نے مراد سعید کی بہنوں کے بارے میں نا شائستہ زبان استعمال کی اور نازیبا الزامات لگائے۔ یہ پہلا واقعہ نہیں ہے کہ خواتین کے اوپر اس طرح کے الزامات لگائے گئے ہیں۔ اس سے قبل محترمہ بے نظیر بھٹو، محترمہ نصرت بھٹو، محترمہ مریم نواز شریف اور جمائما خان کی بھی کردار کشی کی گئی ہے۔ خیر یہ تو سیاسی شخصیات ہیں لیکن گھر کی خواتین جن کا سیاست سے تعلق نہیں، کے لیے اس طرح کی زبان اور الزامات پہلی دفعہ سننے میں آئے ہیں جو انتہائی قابل مذمت ہیں۔

معاملے کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے سپیکر قومی اسمبلی نے 6 رکنی غیر جانبدار تحقیقاتی پارلیمانی کمیٹی قائم کردی ہے جس کی قیادت جناب غوث بخش مہر کریں گے۔ کمیٹی میں کوئی ممبر بھی (ن) لیگ اور تحریک انصاف سے نہیں لیا گیا ہے۔ کمیٹی اپنی رپورٹ 6 مارچ تک پیش کرنے کی پابند ہے۔ عوام کوامید ہے کہ کمیٹی جلد از جلد غیر جانبداری کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے، واقعہ کے ذمہ داروں کا تعین کرتے ہوئے، ذمہ داران کے لیے قرار واقعی سزا تجویز کرے گی تاکہ مستقبل میں ایسے ناخوشگوار واقعات کی روک تھام ہوسکے۔ اس کے ساتھ ہی تمام اراکین اسمبلی سے یہی گزارش کی جا سکتی ہے کہ وہ اپنے سابقہ رویوں پر غور کریں اور اس میں مثبت تبدیلی لاتے ہوئے، ایوان کو عوام کا ترجمان ادارہ بنانے کا عزم کریں اور ایوان میں قانون سازی کے ساتھ، خارجہ پالیسی، ا من و امان، عوامی فلاح و بہبود کے منصوبوں پر بحث کریں اور  فیصلے کریں جو قومی امنگوں کے مطابق ہوں۔ اسی طرح ایوان کا تقدس، عوام کی نظر میں اور دیگر قومی اداروں کے ساتھ، بین الاقوامی سطح پر بھی قائم ہو گا۔ اگر اراکین اسمبلی اپنا رویہ تبدیل نہیں کریں گے اور موجودہ ڈگر پر ہی چلتے رہیں گے تو عوام کی نظر میں حکومت اور ایوان کی وقعت مزید گرجائے گی۔ عوام کی اکثریت تو ویسے ہی ووٹ دینے سے اجتناب کرتی ہے اور اسے وقت کا زیاں سمجھتی ہے۔ موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے کہیں ایسا نہ ہوکہ 2018ء میں ہونے والے عام انتخابات میں ووٹنگ کا تناسب 2013ء سے بھی کم ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).