ریفریشر کورس: دہ جماعت پاس ڈائریکٹ حوالدار


آج ساڑھے نو بجے گہوارہ علم پہنچے۔ تقریباً آٹھ دن کے بعد دوبارہ یہاں آمد ہوئی تھی۔ اندیشہ ہائے دور دراز سے بھرے ذہن کے ساتھ کلاس روم میں داخل ہوئے۔ وہاں اٹھارہ بیس کے قریب ٹیچرز براجمان تھے۔ اور گپ شپ لگ رہی تھی۔ شکور صاحب بھی بے بس، خاموش اور الگ تھلگ بیٹھے ہوئے تھے۔ آج منشا صاحب موجود نہ تھے تو کسی سے بھی اتنا نہ ہوسکا کہ تلاوت کلام پاک سے دن کا آغاز کرسکے۔ ہمیں دیکھتے ہی دوست مختلف قسم کے ریمارکس دینے لگے۔ کسی نے کہا یار اب آنے کی کیا ضرورت تھی ہم نے تمہاری 16 مئی تک حاضری لگا دی ہے۔ اور بل بنوا کر بھجوا دیا ہے۔ تم نے ناحق یہاں آنے کی زحمت کی۔ ایک طرف سے رپورٹ ملی کہ تمہارے بل پر مبارک صاحب اعتراض کر رہے تھے۔ ہم نے مبارک صاحب سے بات کرنا چاہی تو وہ کافی اکھڑے ہوئے نظر آئے پتہ نہیں ان پر بخار کا اثر تھا یا گھر سے دوری کا ۔ بہر حال خاموشی ہی میں عافیت سمجھی۔ ہم نے سوچا کہ ابھی پیریڈ شروع نہیں ہوا کیوں نہ باقی کام نمٹا لیں۔ کیونکہ کل واپس بھی جانا تھا۔ کالج سے نکل کر سی ایم ایچ پھر یونیورسٹی آفس اور ڈائریکٹوریٹ ہوتے ہوئے کالج واپس آئے تو لیکچر شروع تھا۔

ڈاکٹر نصیر صاحب کیمسڑی پڑھا رہے تھے۔ انہیں لیکچر دیتے ہوئے دیکھ کر پہلا خیال جو ہمارے ذہن میں آیا وہ اندھیرا اجالا کا کردار دہ جماعت پاس ڈائریکٹ حوالدار کا تھا۔ ڈاکٹر صاحب کا بات کرنے کا انداز کچھ اس سے ملتا جلتا تھا۔ پروفیسر صاحب بڑی محنت سے پڑھا رہے تھے۔ اسی دوران انہوں نے عمل انگیز کا ذکر کیا تو ہم نے حسبِ معمول سوال داغ دیا کہ عمل انگیز کا ایکچوئل فنکشن کیا ہے۔ فرمانے لگے کہ ایکٹیویشن انرجی کو کم کر دیتا ہے۔ ہم نے دریافت کیا ایسا کیوں کرتا ہے تو لگے آئیں بائیں شائیں کرنے۔ بہر حال وہ اس بات کا کوئی تسلی بخش جواب نہ دے سکے۔

پہلے پیریڈ کے اختتام کے بعد ہم ریاضی کے پیریڈ میں آئے۔ وہاں شیخ صاحب اکیلے کھڑے تھے ان سے گپ شپ لڑائی۔ باقی ریاضی کے طلباء کو گھیر کر اُن کے پاس لائے اور لیکچر شروع ہوا۔ آج وہ کچھ زیادہ ہی خاموش نظر آرہے تھے۔ وہ خاموشی سے بلیک بورڈ کی طرف منہ کر کے کاغذ سامنے کر کے کچھ لکھتے رہے۔ اور ہم پیچھے بیٹھے گپیں لگاتے رہے۔ جب ان کا کاغذ ختم ہوا تو میں نے ان کے دیے ہوئے پرچے میں سے ایک سوال سمجھانے کی درخواست کی۔ سوال اس نوعیت کا تھا کہ مثلث کے ضلعوں کے مابین نسبت دی گئی تھی۔ اس کے زاویے معلوم کرنا تھے۔ وہ اس بات پر مصر تھے۔ کہ جو نسبت ضلعوں میں ہوتی ہے وہی زاویوں میں ہوتی ہے۔ جبکہ ہم اس سے انکاری تھے۔ کافی لے دے ہوتی رہی ہم نے انہیں ایک دو مثالیں دیں تب جا کر وہ ہم سے متفق ہوئے۔ اور وہ سوال غلط قرار دے دیا گیا۔ اب ہم نے اسی پرچے سے ایک اور سوال نکال کر سمجھانے کی درخواست کی۔ کلاس کے باقی شرکا باقاعدہ ہماری منت سماجت کر رہے تھے کہ خدا کے لیے بس کرو۔ تم ہفتے کے بعد آئے ہو اور ایک دن میں ہی اپنا کوٹا پورا کر لیا ہے لیکن باز آنے والوں میں سے ہم بھی نہیں تھے۔ آدھ گھنٹہ تک دوسرے سوال پر مغز ماری ہوتی رہی نتیجہ صفر نکلا۔ آخر اس سوال کو بھی غلط قرار دے دیا گیا۔ ہم باقی لوگوں کو ڈرانے کے لیے تیسری بار اٹھے تو لوگ باقاعدہ طور پر ہمارے پیچھے پڑ گئے۔ اور لگتا تھا کہ ہم نے اب کوئی مسئلہ کھڑا کیا تو یہ لوگ انتقامی کارروائی کریں گے۔ ہم خاموشی سے کلاس روم سے باہر آ گئے۔

دوسرے کمرے میں پتہ چلا کہ اسی دوران افتخار صاحب بیالوجی پڑھا گئے ہیں۔ ہمیں تو اس بات پر کوئی اعتراض نہ تھا۔ لیکن مولوی صاحب شور مچانے لگے کہ جب افتخار صاحب کو معلوم تھا کہ وقت ریاضی کے پیریڈ کا ہے تو انہوں نے بیالوجی کا لیکچر کیوں شروع کیا۔ ہم ایک وقت میں دو پیریڈ کیسے پڑھ سکتے ہیں۔ انہیں بہلا پھسلا کر ٹھنڈا کیا گیا۔ شام کو نہا دھو کر سیر کے لیے نکلے۔ تو میاں صاحب سائنس کالج کے ہوسٹل میں لے گئے۔ وہاں چار ڈی پی ای  صاحبا ن کا ایک بورڈ بیٹھا ہوا تھا۔ چار ڈی پی ای  صاحبان اور ایک پروفیسر خالد صاحب۔ خالد صاحب بہت باوقار شخصیت کے مالک تھے پیارے سے آدمی لگے۔ یہاں آنے سے پہلے میاں سے شرط لگی تھی کہ اگر تم ہوسٹل سپریڈینٹ کے سامنے مسلسل پانچ منٹ تک کوئی بات کر لو تو واپسی پر ایک ایک سیون اپ ہماری طرف سے پیش کی جائے گی۔ شرط جیتنے کی پوری پوری کوشش کی لیکن سپریڈینٹ کسی کو بات کرنے کا موقع دینے کے عادی نہ تھے۔ ایک دو بار ہم نے بات کرنے کی کوشش کی تو قطع کلامی معاف جیسے فقرے کا سہارا لے کر بات کو لے اڑے۔ آخر کار ہمیں ہار ماننا پڑی اور نو بجے کے قریب وہاں سے واپسی ہوئی۔ واپس آ کر پڑوسیوں کے کمرے میں جا بیٹھے۔ ہم نے تفریح طبع کے لیے تنظیم اساتذہ کا ذکر چھیڑا تو اقبال صاحب اور منشا صاحب میں ٹھن گئی بڑی مشکل سے بات کو رفع دفع کیا۔ بارہ بجے یہاں سے اٹھ کر اپنے کمرے میں پہنچے تو طالب “لعلاں دی پنڈ” نکال کر پنجابی کے شعر سنانے کی ناکام کوشش کرنے لگا اور ہم بستر پر لیٹ کر سونے کی ناکام کوشش کرنے لگے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments