ہیڈ ماسٹر اور میں بڑے ہو گئے لیکن۔۔!


ان کا نام عارف ہے۔ بھید بھری دنیا کےحقیقی عارف بھی ہیں ۔

دنیا میں وارد ہونے والا ہر بچہ روتے ہوئے آتا ہے۔ یقین نہیں آتا کہ عارف اس سمے بھی رویا ہو گا۔

پیار سے بلوچ یا بلوچا بھی کہلاتے ہیں لیکن ہیڈ ماسٹر نام کیوں پڑا یاد نہیں۔

ہیڈ ماسٹر مجھے اوئے کہہ کر بلاتا ہے۔ اوئے کہتے ہوئے مسکراتا جاتا ہے اور اس کی آنکھیں شرارت کے شرارے چھوڑتی جاتی ہیں۔ بچپن میں ہیڈ ماسٹر کے ساتھ بکریاں چرائیں۔ کسی پھلاہی کی چھاؤں تلے پتھر کو سرکے نیچے رکھے ہم جانوروں کو دیکھتے رہتے۔ حدیں متعین تھیں کہ اس سے آگے بکریوں کو نہیں جانے دینا۔ جانوروں کو روکنے کی ایک باری میری اور ایک ہیڈ ماسٹر کی ہوتی۔ ہیڈ ماسٹر اپنی باری پر فورا دوڑتا ہوا چلا جاتا اوردس منٹ بعد لاٹھی ٹیکتا ہانپتا واپس آ جاتا۔ میں اپنی باری پر کچھ پس و پیش کرتا تو ہیڈ ماسٹر لاٹھی سے مارنے دوڑتا۔ یہاں یہ عرض کرتا چلوں کہ ہیڈ ماسٹر کی لاٹھی مارنے کی ایک ہی رفتار ہوتی ۔ ان کے نزدیک گدھے بکری مرغی یا انسان کی کوئی تفریق نہیں ۔ وہ ایک ہی رفتار سے یعنی پورے زور سے لاٹھی مارنے کا استحقاق بچپن سے رکھتے ہیں۔ جیسے ہی ہیڈ ماسٹر لاٹھی گھماتا مجھے مجبورا جانا پڑتا۔

ہیڈ ماسٹر کو کرکٹ سے نہ ہی کوئی لگاؤ تھا نہ کھیل سکتا تھا ۔ اس لیے کرکٹ کے میدان کی سرحد پر کھڑا رہتا ۔ مسکراتا رہتا۔جبکہ دوسری جانب اس کی بکریاں چر رہی ہوتیں۔ اگر کبھی کوئی گیند بھولے بھٹکے اس کے پاس چلی جاتی تو گیند کو واپس نہیں پھینکتا تھا۔ بس گیند کوہاتھ میں رکھ کر میدان میں کھڑے لڑکوں کی جانب دیکھ کر ہنسنے لگتا۔ سب گالیاں نکالتے برا بھلا کہتے کہ ہیڈ ماسٹر واپس پھینک گیند۔ پھر تھوڑی دیر بعد ہیڈ ماسٹر گیند واپس پھینک دیتا لیکن ساتھ ساتھ ہنس ہنس کر دہرا ہو جاتا۔

ایک دن میں اور ہیڈ ماسٹر بکریا ں چرا رہے تھے کہ وقاص دوڑا دوڑا اس جنگل میں آیا۔ چہرہ لال سرخ تھا اور سانس چڑھا ہوا تھا۔ چادرتھوڑی سی اتار کر بغل میں چھپائے ڈائجسٹ کی جانب اشارہ کیا اور چادر واپس اوڑھتے ہوئے کہنے لگا ۔”جلدی چل ایک بات بتانی ہے” میں نے کہا یہیں بتا۔۔کہنے لگا ۔۔نہیں نہیں یہاں ہیڈ ماسٹر کے سامنے نہیں یہ بڑبولا ہے کہیں اور ذکر کر دے گا۔

ان دنوں قدرے ‘پڑھے لکھے’ چرواہوں(مردوخواتین)میں کچھ ڈائجسٹ بہت مقبول تھے۔پاکیزہ ٗ شعاعٗ خواتین ٗ سسپنس اور جاسوسی ڈائجسٹ۔ لیکن سب رنگ وغیرہ بلیک میں ملتا تھا۔ اشاعت کم تھی یا شاید ختم ہو گئی تھی

ہم درختوں کے ایک جھنڈ کو عبور کرتے ایک ایسی جگہ پہنچ چکے تھے جہاں خدا کے علاوہ کسی کی مداخلت کا امکان کم تھا اور خدا کی مداخلت پر ہم واضح تھے کہ قیامت سے پہلے ملاقات ہونی نہیں ہے۔

وقاص نے پاکیزہ کا ایک شمارہ اس احتیاط سے نکالا جیسے نشئی اپنا مال دوستوں کو دکھاتے ہوئے احتیاط برتتے ہیں۔

ڈائجسٹ کھولتے ہوئے اس کے ہاتھ کپکپا رہے تھے۔ایک صفحے پر اس نے انگلی رکھی اور کہنے لگا یہ پڑھ۔۔

میں نے پڑھنا شروع کیا۔۔” اندھیرا اور سناٹا تھا۔ اس نے جبین کو دبوچا اور بھیڑیے کی طرح بھنبوڑ ڈالا۔ اس کی عزت تار تار ہو چکی تھی” میں نے یہ پڑھ کر ایک بڑی سی تھوک نگلی۔ میرے کان کے اوپری حصے بس آگ پکڑنے کوتھے۔ میں نے بمشکل وقاص سے تصدیق چاہی۔۔”مطلب اس نے وہ والا کام کیا تھا؟”

گاؤں کے بچوں کے لیے ”وہ والا کام” کوئی حیران کن چیز نہیں ہے وہ ہر وقت آس پاس جانوروں کو یہ کرتے دیکھتا رہتے ہیں اورکہیں ان کو کسی طرح ٹوٹی پھوٹی اطلاع انسانوں کے حوالے سے بھی اوائل عمری میں ہی مل جاتی ہے۔ لیکن ڈائجسٹ میں کھلم کھلا ذکر بہرحال خاصے کی چیز تھی۔

ہم نے ورق کے اس حصے کو پھاڑ کر نیفے میں پورن آرکائیوکا حصہ بنایا۔ ان دنوں ڈائجسٹوں میں کچھ ورق اسی طرح پھٹے ہوئے یا بلیڈ سے نفاست سےتراش لیےگئے ہوتے۔اور ہم فورا بات کو پہنچ جاتے کہ یہاں ‘وہ والا کام’ ہوا ہوگا۔ پھر ‘وہ والے کام ‘ کےحوالے سے اس خلا کو اپنے تخیل سے پر کیا جاتا۔(بتانے کی ضرورت نہیں کہ مصنف سے بہتر پرکیا جاتا)

میں واپس آیا تو ہیڈ ماسٹر نے نہیں پوچھا۔ بس ہنستا رہا۔ ہیڈ ماسٹر ایک فراغ دل سہولت کار تھا۔ زندگی کو سہولت فراہم کرتا۔ کائنات میں زندگی ایسے ہی فراغ دل سہولت کاروں کے طفیل رواں ہیں۔

ابھی گذشتہ دنوں بھتیجے کی شادی پر گیا تو حسب معمول ہیڈ ماسٹر اوئےکرتا ہوا آیا۔ مجھے اچانک کیکر اور پھلاہی کے نیچے نتھنوں سے ٹکراتی گھاس کی خوشبو یاد آئی۔ بکریوں کے بالوں کی خوشبو۔۔اور ان کے لمبے کان کہ جب کوئی مکھی تنگ کرتی تو وہ زورسے کان کا جھٹکا دیتیں۔ ہیڈماسٹر کے ریوڑ میں بجتی گھنٹیوں کی آوازیں۔ تازہ ہل چلائی زمین پر ہیڈ ماسٹر سے لڑی کشتیاں۔۔ ہیڈ ماسٹر کے ہر فقرے کے شروع ۔۔وسط۔۔ اورآخر پر ٹانکا لفظ حرامی۔۔یا ۔۔ایہہ حرامی۔۔یا ۔۔حرامی نہ ہووے تاں

بابا جب کوئی ماں بکری بیچتے تو جاتی بکری کو دیکھ کر اس کے بچے بلبلا اٹھتے۔ باں باں کرتے رہتے۔

یا جب بچوں کو بیچا جاتا تو ماں بکری کا درد عرش ہلاتا۔

میں اکیلے بیٹھے وقاص کو کہتا۔۔ ہم زندگی کیسے بسر کریں گے کیا ہم اس طرح جانور بیچ پائیں گے؟

جب ہم جانور نہیں بیچیں گے تو کھائیں گے کہاں سے۔۔؟

وقاص افق کی جانب ریتلی زمین پر گرمی سے اٹھتے الاؤ کی جانب دیکھتے ہوئے دانشورانہ انداز سے کہتا۔۔

”میرا خیال ہے جب ہم بڑے ہو جائیں گے تو ہم بھی بڑوں جیسے ہو جائیں گے”

وقاص تو بڑا ہوا ہی نہیں۔ مر گیا۔ میں اور ہیڈ ماسٹر بڑے ہو گئے ۔۔

لیکن ہیڈ ماسٹر آج بھی ویسے کا ویسا ہی ہے ۔۔ہنستا مسکراتا۔۔

اور وقاص دیکھ مجھ میں آج بھی اتنی سکت نہیں کہ ماں بکری یا بکری کے بچے بیچ سکوں۔

ہاں لیکن ایک لحاظ سے میں ‘بڑا’ ہو گیا کہ تمھارے اور اپنے محبوب ہیڈ ماسٹر کو میں اس وارفتگی سے نہیں ملتا جس محبت اور چاؤ سے وہ ملتا ہے۔ میرے پاس وقت ہی نہیں ہوتا ۔ ہر وقت انسانی حقوق اور انسانیت کا شرف بحال کرنے کی مہمات سر پر سوار رہتی ہیں۔

ہیڈ ماسٹر کو سمجھانا مشکل ہے کہ وقت بہت قیمتی ہے۔

گاؤں جاتا ہوں تو دیکھتا ہوں کہ دور بلوچ سجن بکریاں چرا رہا ہے لیکن اس کے پاس نہیں جا پاتا۔

کمبخت فیس بک گاؤں میں آہستہ چلتا ہے۔ پھٹیچر اور جاوید لطیف کے تضحیک آمیز بیان پرفوری ردعمل دینا ضروری ہوتا ہے۔۔

ہیڈماسٹر کو یہ سب سمجھانا مشکل ہے۔۔لیکن

کیا اس کو یہ سب سمجھنے سے دلچسپی ہوگی؟ وہ تو عارف ہے!

وقار احمد ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وقار احمد ملک

وقار احمد ملک اسلام آباد میں مقیم ایک صحافی ہے۔ وہ لکھتا نہیں، درد کی تصویر بناتا ہے۔ تعارف کے لیے پوچھنے پر کہتا ہے ’ وقار احمد ملک ایک بلتی عورت کا مرید اور بالکا ہے جو روتے ہوئے اپنے بیمار بچے کے گالوں کو خانقاہ کے ستونوں سے مس کرتی تھی‘ اور ہم کہتے ہیں ، ’اجڑے گھر آباد ہوں یا رب ، اجڑے گھر آباد۔۔۔‘

waqar-ahmad-malik has 180 posts and counting.See all posts by waqar-ahmad-malik