افغان طالبان کی نئی کڑی پابندیاں: ’عورتوں کا نہ چہرہ دکھائی دے اور نہ آواز سنائی دے‘

علی حسینی - بی بی سی نیوز، فارسی


افغان خواتین
نئے قانون کے تحت خواتین کو اپنی آواز محدود رکھنے کا پابند بنایا گیا ہے
افغانستان میں طالبان نے گذشتہ ہفتے نئے قوانین منظور کیے تھے جن کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ ان کا مقصد ’نیکی کو فروغ دینا اور برائی کو ختم کرنا‘ ہے۔ ان قوانین کے تحت خواتین نہ تو عوامی مقامات پر اونچی آواز میں بول سکتی ہیں اور گھروں سے باہر اپنا چہرہ دکھا سکتی ہیں۔

اقوام متحدہ نے نئی نام نہاد ’نیکی کی پابندیوں‘ کی مذمت کی ہے اور ان کے نفاذ پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

اقوام متحدہ کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے اتوار کے روز خبردار کیا تھا کہ نئے قوانین ’افغانستان کے مستقبل کے لیے پریشان کن وژن‘ پیش کرتے ہیں۔

طالبان کے سپریم لیڈر ہیبت اللہ اخوندزادہ نے اس قانون کی توثیق کی ہے۔

وزارت اخلاقیات جسے باضابطہ طور پر نیکی کی تبلیغ اور روک تھام کی وزارت کے نام سے جانا جاتا ہے اس نے اس بات پر زور دیا کہ ملک میں کوئی بھی ان قوانین سے مستثنیٰ نہیں ہے۔

نئے قوانین کے تحت طالبان کی اخلاقیات کی پولیس کو افغانوں کی عوامی زندگی میں مداخلت کرنے کی اجازت دی گئی ہے تاکہ وہ نظر رکھیں کہ لوگ کیا پہنتے ہیں، عوامی مقامات پر کس طرح نظر آتے ہیں، وہ کیا کھاتے پیتے ہیں۔

نئے قانون کے تحت خواتین کی آواز کو بھی عوامی سطح پر ’برا‘ قرار دیا گیا ہے۔

نئی پابندیوں میں کہا گیا ہے ’جب بھی کوئی بالغ عورت ضرورت کی وجہ سے گھر سے باہر نکلتی ہے تو اس پر لازم ہے کہ وہ اپنی آواز، چہرے اور جسم کو چھپائے۔ ‘

وزارت پہلے ہی شرعی قانون کی بنیاد پر اسی طرح کے اخلاقی تقاضوں کو نافذ کر رہی ہے اور اس کا کہنا ہے کہ اس نے اس پر عمل نہ کرنے پر ہزاروں افراد کو حراست میں لیا ہے۔

طالبان کے مطابق یہ قوانین شریعت کے قانون کی تشریح کے مطابق ہیں جو 2022 میں طالبان کے سپریم لیڈر کے ایک حکم نامے پر مبنی تھے اور اب باضابطہ طور پر قانون کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ ان قوانین کا نفاذ وزارت اخلاقیات کرے گی۔

قانون خواتین کے بارے میں کیا کہتا ہے ؟

اس قانون میں تفصیل سے بتایا گیا ہے کہ کس طرح خواتین کو اپنے چہروں سمیت اپنے جسم کو مکمل طور پر ڈھانپنا ہوگا تاکہ وہ مردوں کو فتنے اور برائی کی طرف لے جانے سے بچ سکیں۔

قانون کےمطابق:

  • ایک عورت پر اپنا جسم مکمل طور پر ڈھانپنا لازم ہے۔
  • ایک عورت کو ’فتنہ پیدا کرنے‘ سے بچنے کے لیے اپنا چہرہ ڈھانپنا لازم ہے ۔
  • ایک عورت کی آواز کو ’عورہ‘ سمجھا جاتا ہے اور یہ عوامی طور پر سنائی نہ دے۔ عربی لفظ عورہ جسم کے ان حصوں سے مراد ہے جنھیں ڈھانپنا ضروری ہے۔ عورہ جسم مرد یا عورت کے جسم کا وہ حصہ ہے جو سر عام نظر نہیں آنا چاہیے۔
  • عورتیں اپنے گھروں کے اندر سے بھی اونچی آواز میں گاتے یا پڑھتے ہوئے سنائی نہ دیں۔
  • خواتین کے کپڑے پتلے، چھوٹے یا تنگ نہیں ہونے چاہیں۔
  • عورتوں کو اپنے جسم اور چہرے کو ان مردوں سے چھپانا ہے جن سے ان کا خون کا ازدواجی رشتہ نہیں۔

مردوں پر بھی خواتین کے جسم اور چہروں کو دیکھنے پر پابندی ہے اور یہی بات مردوں کو دیکھنے والی بالغ خواتین پر بھی لاگو ہوتی ہے۔

مردوں پر نئی پابندیاں

نئے اخلاقی قوانین کے تحت مردوں پر بھی کچھ پابندیاں عائد ہیں۔

اب انھیں اپنے گھروں سے باہر اپنے جسم کو اپنی ناف سے گھٹنوں تک ڈھانپنا ہوگا کیونکہ جسم کے ان حصوں کو عورہ‘ سمجھا جاتا ہے۔

مردوں کو اپنے بالوں کو اس طرح سٹائل کرنے کی اجازت نہیں ہے جو شریعت کے خلاف ہو۔

طالبان نے کئی صوبوں میں حجاموں پر داڑھی منڈوانے یا کاٹنے پر پابندی عائد کر رکھی ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ یہ حکم شریعت کے مطابق ہے۔

نئے قوانین کے تحت داڑھی مٹھی بھر لمبی ہونی چاہیے۔

اخلاقیات کے قانون کے تحت مردوں کے ٹائی پہننے پر بھی پابندی ہے۔

محتسبین کون ہیں؟

افغانستان

نئے قانون کے تحت مرد اور عورت سواری میں ایک ساتھ نہیں بیٹھ سکتے

محتسب اس قانون کو نافذ کرنے کے ذمہ دار ہیں اور تمام صوبوں میں کام کریں گے۔

وہ قانون پر عمل در آمد کی نگرانی کرتے ہیں اور مجرموں کو عدالت میں لاتے ہیں۔

نئے قانون کے نفاذ کے ساتھ ہی ان کے انتظامی اختیارات پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط ہو گئے ہیں خاص طور پر اس لیے کہ انھیں طالبان رہنما کی مکمل حمایت حاصل ہے۔

وہ اپنے گھروں سے نکلنے والی خواتین کی آوازوں یا موسیقی کو خاموش کر سکیں گے اور مردوں کو ہیئر سٹائل کی پابندیوں پر عمل نہ کرنے پر اپنے بال منڈوانے یا کاٹنے کے لیے کہہ سکیں گے۔

قانون میں کہا گیا ہے کہ پولیس کو یہ اختیار بھی حاصل ہوگا کہ وہ ٹیکسی ڈرائیوروں کو ان خواتین کو سواری دینے سے روکے جو کسی قریبی مرد رشتہ دار کے ساتھ نہیں ہیں جیسے والد یا بالغ بھائی یا جو شریعت کے مطابق حجاب نہیں پہن رہیں۔

مردوں اور عورتوں گاڑی میں ایک ساتھ بیٹھنے کی اجازت نہیں ہے۔

زندہ چیزوں کی تصویر بنانے کی ممانعت

افغان خواتین

QUDRATULLAH RAZWAN/EPA-EFE/REX/Shutterstock
نئی پابندیوں پر تنقید کی جا رہی ہے

نئے قانون میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ جانداروں کی تصاویر بنانا، رکھنا یا شائع کرنا منع ہے۔ جس کا مطلب پرندے، جانور یا خاندان کے کسی فرد کی تصویر کھینچنا بھی ممنوع ہے۔

نئے قانون کے تحت جانداروں کے مجسموں کی خرید و فروخت پر بھی پابندی ہے۔

اس قانون میں اخلاقیات کی پولیس سے کہا گیا ہے کہ وہ ٹیپ ریکارڈر، ریڈیو، جیسے موسیقی بجانے جیسے غلط استعمال کو روکے جسے شرعی قانون میں ’حرام‘ سمجھا جاتا ہے۔

جانداروں کی تصاویر اور فلموں کی تیاری اور دیکھنے پر بھی پابندی ہے۔

لیکن نئے قوانین کے برعکس تقریبا تمام طالبان حکومتی عہدیدار کیمرے کے سامنے نمودار ہوئے ہیں جن میں نیکی کی تبلیغ اور برائی کی روک تھام کے وزیر محمد خالد حنفی بھی شامل ہیں۔

پابندیاں کیا ہیں؟

افغان خواتین

خواتین کو چہرہ مکمل ڈھانپنے کا حکم دیا گیا ہے

اس قانون میں کہا گیا ہے کہ اگر کوئی شخص کھلے عام ’قابل مذمت فعل‘ کا ارتکاب کرتا ہے تو اسے متعدد سزائیں دی جائیں گی۔

ان میں ’خوف خدا دلانے سے مشورہ دینے‘ اور جرمانے اور جیل میں تین دن تک قید کی سزا شامل ہے۔

طالبان کی جانب سے اس قانون کے نفاذ کو تنقید کانشانہ بنایا جا رہا ہے۔

افغانستان میں اقوام متحدہ کے امدادی مشن کے سربراہ روزا اوتون بائیوا نے کہا ہے کہ ’دہائیوں کی جنگ کے بعد اور ایک خوفناک انسانی بحران کے درمیان، افغان عوام نماز کے لیے دیر سے پہنچنے، مخالف جنس کے کسی فرد کی طرف دیکھنے، یا کسی پیارے کی تصویر رکھنے پر دھمکیوں یا جیل جانے کے بجائے بہتر سلوک کے مستحق ہیں‘۔

نئے قوانین ابھی پوری طرح لاگو نہیں

طالبان حکومت نے مذہبی حکمرانی نافذ کر رکھی ہے اور وہ اخلاقیات کے قانون کو سرکاری طور پر نافذ کرنے سے پیچھے نہیں ہٹے گی لیکن دارالحکومت کابل سمیت ملک کے کچھ حصوں میں اس قانون کو منظم طریقے سے لاگو نہیں کیا جا رہا۔

وزارت اخلاقیات کے ایک ذرائع نے بی بی سی نیوز پشتو کو بتایا کہ وہ نئی شقّوں کے نفاذ کے لیے ایک فریم ورک پر کام کر رہے ہیں۔

ذرائع کے مطابق ایک بار جب اس فریم ورک کو حتمی شکل دے دی جائے گی تو قانون پر عمل درآمد میں مزید وضاحت آئے گی۔

تاہم اس قانون کے تحت زیادہ تر دفعات پہلے ہی ملک کے باقی حصوں میں لاگو کی جا رہی ہیں۔

نیکی کی تبلیغ اور برائی کی روک تھام کی وزارت افغانستان میں سب سے زیادہ فعال گورننگ باڈیز میں سے ایک ہے۔

وزارت کا کہنا ہے کہ گذشتہ سال پولیس نے شریعت پر عمل نہ کرنے پر 13 ہزار سے زائد افراد کو عارضی طور پر حراست میں لیا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 33788 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments