ڈوبتا اسرائیل


اسرائیلی عوام اور سیاسی پارٹیوں کو فلسطینی ایک آنکھ نہیں بھاتے مگر کچھ سیاسی پارٹیاں اور قائدین تو چاہتے ہیں کہ اس علاقے سے فلسطینیوں کا مکمل صفایا کر دیا جائے، ان کے قیدیوں اور مغویوں کو بھوک سے تڑپا تڑپا کر مارا جائے۔ ایسے ہی خیالات کے حامل ایک وزیر با تدبیر ہیں اتمار بن گاویر۔ وہ قومی سیکورٹی کا انچارج وزیر ہے۔ اس نے 26 اگست کو اعلان کیا کہ وہ قبلۂ اول بیت اللہ الحرام الشریف کے اندر ایک یہودی عبادت گاہ تعمیر کرے گا۔ اس مشن کی کامیابی کے لئے وہ ایک مذہبی جنگ چاہتا ہے جس کے نتیجے میں تمام فلسطینیوں کو مار دیا جائے اور زمینوں پہ کھلے عام تعمیرات میں پھر کوئی رکاوٹ نہ ہو۔ گویا

گلیاں ہو جان سنجیاں وچ مرزا یار پھرے

جب سے وہ بنجمن نیتن یاھو کا سنگی بیلی بنا ہے تب سے وہ اپنے خوابوں کو تشنہ تکمیل تک پہنچانے کی کوشش کر رہا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ مغربی پٹی ویسٹ بینک کو بھی اڑا کر محض ایک اسرائیلی محلہ بنا دے وہ کئی مرتبہ مسجد الاقصیٰ پہ حملہ آور ہو چکا ہے۔ وہ فلسطینی قیدیوں کو بھوکا رکھ کر مار دینے کا کٹر حامی ہے۔ وہ قیدیوں کے ساتھ دوران اسیری بدسلوکی کو ایک اعلیٰ عمل سمجھتا ہے اور ان مظالم کرنے والی سپاہ کو اپنے اصلی ہیرو مانتا ہے۔ اس کی شدت پسندی اس قدر خوفناک ہے کہ وہ بطور نوجوان فوج میں بھرتی بھی انہیں خیالات اور طرز عمل کی وجہ سے نہیں ہوا تھا۔ اس کے حامی سیاسی لوگ کئی مرتبہ ویسٹ بینک میں ظلم و ستم کی کئی داستانیں رقم کرتے آئے ہیں۔ اب تک 670 فلسطینیوں کو تہہ تیغ کر دیا گیا ہے تاکہ یہودی آبادی کو ویسٹ بینک میں خالی جگہ ملے اور وہ اپنی مرضی کی تعمیرات کر سکیں۔ اسرائیلی پلان کے مطابق مغربی پٹی کی نوے فیصدی آبادی کو ختم کر دیا جائے گا اور وہاں یہودی آباد کاری کی جائے گی۔ جو مزاحم ہو گا اسے دہشتگردی کے الزام میں دھر لیا جائے گا اور پھر غیر انسانی سلوک سے انہیں جیلوں میں رکھا جائے گا تا وقتیکہ وہ انتقال ہی کر جائے۔ مغربی پٹی کو بھی غزہ کی طرح ظلم و ستم کا نشانہ بنانے کی پوری تیاری کی جا رہی ہے۔ یزیدی فوج کی طرح خوراک اور پانی بند کر کے تمام اسپتالوں کو تباہ کر دیا جائے گا اور یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں غزہ میں جو کچھ ہوا وہی کچھ اب مغربی پٹی میں بھی کرنے کا منصوبہ ہے۔ اسے روک ٹوک تو کوئی کر نہیں سکتا البتہ تائید و حمایت تمام طاقتوروں کی جانب سے مسلسل بڑھ رہی ہے۔ اس کے قبیحہ فعل کو عملی جامہ پہنانے کے لئے تمام وسائل دستیاب ہیں۔ غزہ کو جہنم زار بنا دیا گیا ہے اب انسانیت کی بقاء کے امکانات ناممکن بنا دیے گئے ہیں۔ یہی مظالم اب مغربی پٹی میں دہرائے جائیں گے۔ غزہ سے بھی بڑی جیل اب مغربی پٹی بنا دی جائے گی۔ اب وادی اردن اور جنوبی ہیبرون کی پہاڑیوں پر دس لاکھ افراد کو بسایا جائے گا اور اس میں انتہائی تیزی سے کام کیا جائے گا۔ اسرائیلی وزیر خارجہ اسرائیل کاٹز کہتا ہے کہ اس سلسلے میں ہم کسی جوابی کارروائی سے بچنے کے لئے اپنے لوگوں کو عارضی پناہ گاہوں میں بسائیں گے اور جب کام مکمل ہو جائے گا تو دوبارہ انہیں مستقل آباد کر دیں گے۔ اس کے جواب میں جوزف بورزل جو یورپی یونین کا وزیر خارجہ امور ہے کہتا ہے کہ یہ انتہائی تشویشناک خبر اور خوفناک ارادے کو ظاہر کرتا ہے یہ تو دوسرا غزہ کا منظر نامہ ہو گا جو ناقابل قبول ہے۔ اب سارے سیاسی لوگ ایسی انتہا پسند سوچ کے حامل نہیں ہیں۔ بین شیٹ کے صدر رونان بار نے ایک خط لکھ کر اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے کہ اس وزیر کی وجہ سے پورے جگ میں ہمارے لئے یہ باعث شرمندگی ہے جو ہمیں اپنے اتحادیوں کی نظروں میں بھی ذلیل کروا رہا ہے۔ شدت پسندوں کی جب دسمبر 2022 سے حکومت قائم ہوئی ہے تب سے طاقتور فوج کو بھی کنارے کر دیا گیا ہے اور تمام فیصلہ سازی اس جیسے انتہاپسند وزراء ہی کرتے ہیں جہاں جرنیلوں کی کوئی نہیں سنتا۔ سیاسی اور عسکری ماہرین کا خیال ہے کہ اسرائیل ڈوب رہا ہے اور اس کے مکمل خاتمے میں زیادہ دیر نہیں۔ ایک سابقہ فوجی کمانڈر یاتزک برک نے اسرائیل کے سب سے بڑے اخبار ہرٹیز میں 22 اگست کو ایک اہم مضمون لکھا ہے کہ ہم ڈوب رہے ہیں اور زیادہ سے زیادہ ایک آدھ سال میں اسرائیل کا نام بھی مٹ جائے گا۔ اس کا ذمہ دار وہ نیتن یاھو کی جنتا کو قرار دیتا ہے۔ اسرائیلی معاشرے، سیاسی پارٹیوں اور حکومتی جنتا کو یہ یقین ہے کہ یہ ان کے بچاؤ کا آخری موقعہ ہے اگر اب وہ کچھ نہ کر سکے تو پھر کبھی ایسا ممکن نہ ہو گا اور اب وہ بفر زون کا قیام چاہتے ہیں جو آئندہ انہیں کسی سات اکتوبر سے محفوظ رکھ سکے۔

میجر عامر ضیا ریٹائرڈ
Latest posts by میجر عامر ضیا ریٹائرڈ (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments