انٹرنیٹ کی بندش: ہم کیا بیچیں گے
رنج سے خوگر ہوا انسان تو مٹ جاتا ہے رنج، غالب کے اس فرمان سے انکار تو نہیں مگر پاکستان کے شہریوں کے لیے مشکلوں کا آسان ہونا بھی مشکل نظر آتا ہے۔ بدامنی، انتشار، مہنگائی، ملاوٹ، بیروزگاری کی تو بات ہی کیا اب انٹرنیٹ کی سست روی پر بھی ہم دنیا میں ایک الگ مقام حاصل کرنے کے درپے ہیں۔ دنیا ایک سماجی گاؤں کی شکل اختیار کر چکی ہے اور اس گاؤں میں ہمارا پنڈ ’پاکستان‘ ایک مسلسل سیلابی ریلے کے نرغے میں دکھائی دیتا ہے۔ رواں سال محرم سے شروع ہونے والی یہ انٹرنیٹ بندش تاحال جاری ہے اور پی ٹی اے ترجمان کے مطابق وہ اس وقت تک کسی ایسے مسئلے کو نہیں دیکھتے جب تک انہیں شکایات موصول نہ ہوں۔
اگر آپ ٹیلی کمیونیکیشن کمپنیز کے اشتہار ملاحظہ فرمائیں تو یہ جان کر آپ کو حیرانی ہوگی کہ تمام کمپنیز انتہائی غریب پرور ہونے کا دعویٰ رکھتی ہیں۔ یعنی اس مہنگائی کے دور میں ہر کمپنی ایک عام آدمی کے لیے کم قیمت پر انٹرنیٹ پیکجز مہیا کرنے کا نعرہ لگاتی نظر آتی ہے۔ مگر حقیقت اس سے یکسر مختلف ہے۔ اگر دیکھا جائے تو ٹیلی کمیونیکیشن کمپنیز بھی آئی پی پیز کی طرح کام کرتی ہیں۔ آپ کا نیٹ چل رہا ہے یا نہیں، سپیڈ کم یا معیاری ہے، ان جھمیلوں سے دور ان کمپنیز کا مبلغ مقصد ہے منافع۔
جیسے حکومت آئی پی پیز کے آگے خود کو بے بس پاتی ہے ویسے ہی ٹیلی کمیونیکیشن کمپنیز کے آگے حکومت ’عوام‘ کو بطور چارے کے پیش کرتی ہے اور خود کسی چارہ جوئی سے کتراتی ہے۔
اگر صارفین ٹیلی کمیونیکیشن کمپنیز سے حالیہ انٹرنیٹ کی سست روی کی وجہ پوچھیں تو وہ ذمہ داری حکومت پر ڈالتی نظر آتی ہیں۔ اور اگر حکومت کی جانب سے فائر وال کی تنصیب سے ممکنہ انٹرنیٹ سست رفتاری کا پوچھا جائے تو حکومت خاموش نظر آتی ہے۔ ایسے میں صارفین کس سے پوچھیں؟
پاکستان کو سائنس اور ٹیکنالوجی کا مرکز بنانے کا خواب ہر آنے والی حکومت دکھاتی ہے مگر عملاً اس خواب کی تعبیر سے دوری کرونا وائرس سے بچاؤ کی سی ممکنہ حکمت کے طور پر نظر آتی ہے۔ افسوس کہ پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جو ممالک کم آمدنی والی معیشتوں میں پھنسے ہوئے ہیں اور اس کی بنیادی وجہ حکومتوں کی ناقص پالیسیز ہیں۔
بدلتی دنیا کے تقاضوں کے مطابق ضرورت تو اس بات کی تھی کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی مد میں سرمایہ کاری کی جاتی اور خام مال بیچنے اور وہی بیچتے رہنے سے آگے بڑھا جاتا مگر پکوڑے بیچنے اور بیچتے ہی رہنے والی سطر کا شیرہ ہمارے حلق میں ہی اٹک کر رہ گیا۔ دنیا اب عالمی تجارت میں اپنی تکنیکی مہارت کو بیچ کر سرمایہ کما رہی ہے اور ہم اُسی روایتی کھیل میں پھنسے ہیں کہ غلیل بنائیں گے اور غبارہ پھوڑیں گے۔
پڑوسی ملک بھارت اپنے بجٹ کا بڑا حصہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں ترقی کے لیے مختص کرتا ہے۔ اگر دونوں ممالک کی اس شعبے میں سرمایہ کاری کو دیکھا جائے تو بھارت سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں قریب 150 ارب ہندوستانی روپے خرچ کرتا ہے جبکہ پاکستان کی وزارتِ سائنس اور ٹیکنالوجی کا بجٹ محض 4 ارب روپے ہے۔
دنیا میں بیشتر ممالک اب پانچویں صنعتی انقلاب کے چیلنجز کا مثبت طرز عمل سے سامنا کرنے کی حکمت عملی اپنا رہے ہیں۔ جس میں سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں تیز ترقی کے ساتھ پیداواری صلاحیت کو تقویت دینا شامل ہے۔ جبکہ ہم ترقی معکوس کے سفر میں اپنا نام پتہ تک بھول بیٹھے ہیں۔
اگر دنیا میں پنپنے اور آگے بڑھنے کا سفر ہمیں جاری رکھنا ہے تو حکومتِ وقت کو سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبے پر خاص توجہ دینی ہوگی۔ آئے روز انٹرنیٹ کی بندش سے ای کامرس انڈسٹری کو جو نقصان ہو رہا ہے، پر قابو پانا ہو گا۔ ٹیلی کمیونیکیشن کمپنیز کو آئی پی پیز کے طرز عمل سے ہٹانا ہو گا اور عوام کے استحصال کے خلاف حکومت کو ان کمپنیز کے خلاف کارروائی کرنا ہوگی۔
- انٹرنیٹ کی بندش: ہم کیا بیچیں گے - 04/09/2024
- ہم نے خود ہی تراشے ہیں سازشوں کے راستے - 11/02/2024
- غزہ: ظلم و جبر کے خلاف 84 صفحات - 23/01/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).