کریئر کے انتخاب میں والدین کا کردار
بچوں کے کریئر کا انتخاب بہت اہمیت رکھتا ہے اور یہ ایک اہم فیصلہ ہوتا ہے۔ اب دور بہت بدل گیا ہے اور اس کے تقاضے بھی تبدیل ہو گئے ہیں۔ ظاہر ہے جب وقت بدلتا ہے تو ہم کیوں نہ بدلیں یا ہماری سوچ کیوں فرسودہ رہے۔ اب وہ زمانہ نہیں رہا کہ صرف ڈاکٹر اور انجینئر ہی بنا جاتا تھا اور والدین اپنے خواب بچوں پر مسلط کیا کرتے تھے۔ اب اس قدر نئے شعبے متعارف ہو چکے ہیں کہ بلا امتیاز کسی بھی شعبے کو اپنایا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ کسی کریئر کونسلر کی بھی مدد لی جا سکتی ہے۔
ہم والدین کا المیہ یہ ہے کہ ہم آج کے ٹیکنالوجی کے اس دور میں بھی اس زعم میں مبتلا ہیں کہ ہم زیادہ جانتے ہیں کیونکہ ہم بڑے ہیں اور ہمارا تجربہ زیادہ ہے لہذا ہم ٹھیک بھی ہیں۔ ہم نے ایسے کیا تھا تو ہماری اولاد بھی ویسا ہی کرے ’بچوں کو کیا معلوم کہ کیا اچھا ہے اور کیا بُرا ہے‘ وہ تو بچے ہیں انہیں کیا معلوم کہ زمانہ کیسا ہے ’کیسے زندگی گزارنی ہے‘ کیسے کمانا ہے لیکن ہم بھول جاتے ہیں کہ آج جہاں ہر طرح کی معلومات ایک کلک پر حاصل ہو جاتی ہیں وہیں ’اس جدید دور کے بچے ہم سے زیادہ سمجھدار ہو گئے ہیں‘ وہ معلومات بھی رکھتے ہیں اور ان کو نہ صرف ٹیکنالوجی کا علم ہے بلکہ اس کے استعمال سے بھی واقف ہیں اس کے ساتھ ساتھ نئے تقاضوں کا بھی بخوبی ادراک رکھتے ہیں۔
کریئر کے انتخاب کے سلسلے میں بچوں کو یہ آزادی حاصل ہونی چاہیے کہ وہ اپنی مرضی کے شعبے کو اپنا سکیں اور آگے لے کر چل سکیں۔ اگر والدین اولاد پر زور زبردستی کرنے میں کامیاب ہو بھی جاتے ہیں تب بھی بچے وہ خوشی حاصل نہیں کر پاتے جو ان کا حق ہے اور نہ ہی وہ سکون ان کو ملتا ہے جو اپنی مرضی کے شعبے کو اپنانے سے مل سکتا ہے۔ دوسری طرف اگر بچے بات مان بھی لیں تو وہ اس طرح محنت نہیں کرتے یا دل لگا کر نہیں پڑھتے جس طرح وہ اپنے پسند کے مضامین رکھ کر خوشی سے پڑھ سکتے ہیں۔ جب کوئی بچہ اپنی مرضی کے مضامین کا یا شعبے کا انتخاب کرتا ہے تو وہ اس کے لیے خوشی حاصل کرنے کا ذریعہ بن جاتا ہے اور اسے وہ ایک چیلنج کی طرح لیتا ہے کیونکہ اُس سے اُس کے خواب منسلک ہوتے ہیں۔
خواب کیا ہوتے ہیں یہ وہی بہتر جانتے ہیں جو کھلی آنکھوں سے خواب دیکھتے ہیں اور ان کی تعبیر کے لیے جدوجہد کرتے ہیں۔ بچوں کے بہتر مستقبل کے لیے ہمیں اپنے والدین ہونے کا کردار ادا کرنا چاہیے اور اپنے وسائل کے مطابق ان کا ساتھ دینا چاہیے ’ان کی سوچ اور خوابوں کا احترام کرنا چاہیے نہ کہ اپنی سوچ ان پر مسلط کر کے ان کی سوچ اور پرواز کو قید کر دیا جائے اس کے برعکس ان کو کھلا آسمان مہیا کرنا چاہیے تاکہ وہ اپنی پرواز بھر سکیں۔ اس دنیا کو دریافت کر سکیں۔ بجائے ان کو طعنے دینے‘ ان کے ارادوں اور عزائم کو پسپا کرنے کے ہم کیوں نہ ان کے ساتھ کھڑے ہوں ’ان کی رہنمائی کریں۔ ہم کیوں نہ اپنی اولاد کا حوصلہ بنیں۔ چاہے وہ غلط فیصلہ ہی کیوں نہ لیں‘ ہمیں ان کے ساتھ کھڑے ہو کر اپنا کردار نبھانا چاہیے تاکہ ان کے قدم ڈگمگائیں نہیں ’نہ ہی ان کا حوصلہ پست ہو۔ ان کو ٹھوکر لگے تو ان کو سنبھالنے اور اٹھانے‘ ہمت بڑھانے کے لیے ہم کھڑے ہوں تبھی تو وہ بے خوف ہو کر ہمت و حوصلے کے ساتھ آنے والے طوفانوں کا مقابلہ کر سکیں گے۔ جن حالات کا ہم نے سامنا کیا ان سے وہ نہ گزریں ’اس لیے ہمیں ان کے لیے راہ ہموار کرنی چاہیے۔
ہماری اولاد ہے اگر ہم ان کے خوابوں تک پہنچنے میں ان کا ساتھ نہیں دیں گے تو وہ اپنی منزل تک پہنچیں گے کیسے؟
آج کے دور میں ہر طرح کا علم اور آگاہی مفت میں ہمیں یوٹیوب، گوگل اور دیگر پلیٹ فارمز پر مل جاتی ہے۔ اس کے علاوہ بہت سارے لوگ کورسز بنا کر فری میں نوجوان نسل کو اسکل بیسڈ ہنر دے رہے ہیں تاکہ وہ کسی بھی شعبے میں اپنی دلچسپی کے مطابق انتخاب کر کے آگے بڑھ سکیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ ڈگری کی اپنی اہمیت ہے جس سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔
مناسب نوکری اور اچھے مستقبل کے لیے ہمارے پاس ڈگری کا ہونا بہت ضروری ہے ہاں اس کے ساتھ ساتھ اسکل سیکھنے کی اہمیت بھی اپنی جگہ ہے کیونکہ آج بھی ہمارا تعلیمی نظام فرسودہ ہے جہاں بس رٹا لگوایا جاتا ہے پریکٹیکل مہارتیں نہیں سکھائی جاتیں۔ جس کی وجہ سے روزگار ملنا مشکل ہوتا جا رہا ہے اس کے علاوہ مواقع بھی حاصل نہیں ہیں۔ نوجوان نسل ہاتھ میں ڈگریاں لیے اچھے مستقبل کی آس میں روز نہ جانے کتنے دفاتر کے چکر لگاتے ہیں اور مایوس لوٹتے ہیں کیونکہ ان کو یہ سکھایا ہی نہیں گیا کہ خود کیسے مواقع پیدا کرنے ہیں۔ یہ ایک الگ المیہ ہے۔
لیکن ہم بات کر رہے تھے کریئر کے انتخاب اور والدین کی جہاں ہمیں والدین ہونے کے ناتے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے اور یہ نہیں دیکھنا چاہیے کہ فلاں کا بچہ کیا کر رہا ہے ’فلاں نے کس شعبے سے اچھا خاصا کما لیا ہے اور میری بچے کو بھی وہی شعبہ اختیار کرنا چاہیے (بھیڑ چال کا شکار نہیں ہونا چاہیے ) اگر بچہ کچھ الگ کرنا چاہتا ہے تو اسے کرنے دیا جائے۔ لوگوں کو نہیں اپنی اولاد کی دلچسپی اور خوشی کو دیکھنا چاہیے۔ ان کی خوشی کی خاطر اپنی سوچ کو بدلنا چاہیے اور کوشش کرنی چاہیے کہ ہم اپنے بچوں کے لیے ایک مضبوط سہارا بن سکیں۔ کئی بار پیسہ ہی سب کچھ نہیں ہوتا ہاں یہ بھی حقیقت ہے کہ پیسہ اچھی زندگی گزارنے کے لیے بہت ضروری ہے لیکن کئی بار مال و دولت حاصل کر کے بھی دلی اطمینان اور سکون حاصل نہیں ہوتا کیونکہ وہ اپنے پیشن (شوق) کو کہیں دور چھوڑ گئے ہوتے ہیں اور زندگی بار بار موقع فراہم نہیں کرتی۔ اپنے بچوں کی خاطر اپنی سوچ کو بدل کر دیکھیں، ان کا ساتھ دے کر دیکھیں، ان کا مضبوط سہارا بن کر دیکھیں، وہ کامیاب ہو کر آپ کو دکھائیں گے ان شاءاللہ۔
- کریئر کے انتخاب میں والدین کا کردار - 05/09/2024
- بیتی ہوئی یادیں ڈائری کی زبانی - 22/08/2024
- موسمیاتی تبدیلیاں اور ہمارے رویے - 06/08/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).