ایک اسپتال کی ’فحاشی‘ – مکمل کالم
اگر آپ کا کوئی عزیز رشتہ دار بیمار ہو جائے اور اسے ایمرجنسی میں کسی اسپتال میں داخل کروانا ہوتو نجی اسپتال کے استقبالیہ پر موجود عملہ نہایت اطمینان سے ایک فارم آپ کے سامنے رکھے گا اور کہے گا کہ سر پلیز اِس پر دستخط کر دیں، اور آپ جھٹ سے بغیر پڑھے دستخط کر دیں گے کیونکہ اُس وقت آپ کے ذہن میں اپنے عزیز کی بیماری کے سوا کچھ نہیں ہو گا۔ وہ فارم جس پر اسپتال والے دستخط کرواتے ہیں، یہ ہے : ”میں _____ نے اپنے علاج کی لیے اِس ____ اسپتال کا انتخاب کیا ہے۔ میں رضاکارانہ طور پر اپنے ڈاکٹر /معالج کو منتخب کر رہا ہوں۔ مجھے اپنے ڈاکٹر /معالج کی تعلیمی قابلیت یا اُس کے طریقہ علاج پر کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔ اگر علاج کے دوران کوئی پیچیدگی ہوئی تو مریض اسے اپنے ڈاکٹر /معالج کی لا پروائی پر محمول نہیں کرے گا اور کسی بھی قسم کی قانونی چارہ جوئی کرنے کا مجاز نہیں ہو گا۔ میں اپنے علاج کے دوران اسپتال کی انتظامیہ اور نرسنگ کے عملے سے مکمل تعاون کروں گا۔ اگر علاج سے متعلق مجھے کوئی شکایت ہوگی تو میں اسے اسپتال کی انتظامیہ کے علم میں لاؤں گا اور اِس ضمن میں اُن کا فیصلہ تسلیم کرنے کا پابند ہوں گا۔ نہ میں کسی عدالت سے رجوع کروں گا اور نہ داد رسی کے لیے پولیس کے پاس جاؤں گا۔ اور میں اسپتال کے خلاف کسی بھی قسم کی قانونی کارروائی کر کے اِس کی ساکھ کو نقصان نہیں پہنچاؤں گا۔ میں نے یہ تمام شرائط پڑھ کر سمجھ لی ہیں اور میں اِن پر بلا خوف و خطر اور پورے جوش و جذبے کے تحت دستخط کر رہا ہوں تاکہ یہ رضامندی کا فارم اِس بات کا ثبوت ہو کہ میرا علاج اِس اسپتال میں شروع کیا جا رہا ہے۔“
میں نے یہ فارم لاہور کے ایک نام نہاد بڑے اسپتال سے حاصل کیا ہے، اِس اسپتال کی وجہ شہرت ٹیسٹ ٹیوب بے بی پیدا کروانے کی ہے۔ اگر مجھ ایسا کوئی شخص سوال اٹھائے کہ اِس ’فحش‘ فارم پر دستخط نہیں کیے جا سکتے تو اسپتال والے بتیسی نکال کر کہتے ہیں کہ سر اِس صورت میں پھر آپ اپنے مریض کو کہیں اور لے جائیں، آپ کے تعاون کا شکریہ۔ واضح رہے کہ یہ علاج کی رضامندی کا فارم نہیں ہے جسے دنیا میں Consent Form کہا جاتا ہے اور جس کے تحت مریض سے پوچھا جاتا ہے کہ آیا اُس نے علاج کا مکمل طریقہ کار سمجھ لیا ہے اور کیا وہ اِس طریقہ کار کے مطابق علاج کروانے پر راضی ہے یا نہیں۔
جس فارم پر ہمارے ملک کے اسپتال دستخط کروا رہے ہیں اسے بلیک میلنگ کا فارم کہنا زیادہ مناسب ہو گا، مہذب دنیا میں کہیں بھی اس قدر بے شرمی سے ایسے فارم پر دستخط نہیں کروائے جاتے اور نہ ہی مریضوں کا استحصال کیا جاتا ہے۔ ہم سرکاری اسپتالوں کو گالیاں تو بہت دیتے ہیں مگر کم ازکم وہاں اِس قسم کی بدعت نہیں ہے، آپ کاؤنٹر پر جائیں، مفت پرچی بنوائیں اور علاج کروائیں، البتہ فائیو سٹار ہوٹل جیسی رہائش نہیں ملے گی، اُس کے لیے آپ کو نجی اسپتالوں میں ہی جانا پڑے گا۔
میں اکثر سرکاری اسپتالوں میں جاتا رہتا ہوں، خاص طور سے شعبہ حادثات میں، وہاں کے حالات دیکھ کر دل تو بہت کُڑھتا ہے لیکن پھر یہ بھی سوچتا ہوں کہ اِن وسائل اور اِس بے ہنگم آبادی کے ساتھ سرکاری اسپتالوں میں اگر ہارورڈ سے فارغ التحصیل کوئی سی ای او بھی تعینات کر دیا جائے تو وہ بھی کچھ نہ کرسکے۔ یہاں لاہور کے چلڈرن اسپتال کی مثال دینی ضروری ہے، یہ اسپتال ڈاکٹر مسعود صادق کے زیر نگرانی ہے اور ڈاکٹر صاحب اسے دستیاب وسائل میں نہ صرف بہترین انداز میں چلا رہے ہیں بلکہ اسپتال کی توسیع بھی کر رہے ہیں، اور اِس کی وجہ ڈاکٹر صاحب کی شخصیت ہے جو بے داغ ہے، اِس کی بدولت انہیں وہ اخلاقی اتھارٹی حاصل ہے جو بہت کم لوگوں کو ملتی ہے، اِس اخلاقی اتھارٹی کی وجہ سے لوگ آپ کے لیے دل و جان سے کام کر گزرتے ہیں جو عام حالات میں مکمل قانونی اتھارٹی کا حامل شخص نہیں کروا سکتا۔
پاکستان کے سرکاری اسپتالوں کی حالت ِ زار جیسی بھی ہو، یہاں کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ جناب واپس جائیں ہم آپ کا علاج نہیں کریں گے۔ کینیڈا سے ہمارا کیا مقابلہ، وہاں مجھے ایک سکھ ٹیکسی ڈرائیور نے بتایا کہ کسی حادثے میں اُس کا بازو ٹوٹ گیا جس کی سرجری کے لیے اسپتال نے چھ ماہ کا وقت دیا، وہ غریب ٹوٹے ہوئے بازو کے ساتھ جہاز میں بیٹھ کر انڈیا گیا، وہاں سے سرجری کروائی اور پھر واپس کیلگری آیا۔
نجی اسپتالوں کی طرف آتے ہیں۔ اِن کی فیسوں پر تو پہلے ہی کوئی روک ٹوک نہیں تھی، بس کمپیوٹر سے ایک بِل نکال کر ہاتھ میں تھما دیا اور سامنے لگی اے ٹی ایم کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ سر آپ کی سہولت کے لیے یہ مشین موجود ہے۔ بندہ کسی قسم کا اعتراض نہیں کر سکتا۔ اب کافی عرصے سے انہوں نے اِس جبری فارم پر دستخط کروانے شروع کر دیے ہیں، اگر مجھے اِن اسپتالوں کا دفاع کرنا ہو تو میں کہوں گا کہ مریضوں کے لواحقین بے حد بد تمیزی کرتے ہیں، مریض کی طبیعت بگڑ جائے تو ڈاکٹر اور عملے کو گالیاں دیتے ہیں، انہیں زدو کوب بھی کرتے ہیں، لہذا انہیں اپنے دفاع کا حق ہے۔ یہ بات اِس حد تک تو درست ہے کہ بعض اوقات لواحقین خواہ مخواہ ڈاکٹروں کو مورد ِ الزام ٹھہراتے ہیں اور عملے سے بد کلامی بھی کرتے ہیں مگر یہ اِس بات جواز نہیں کہ اسپتال، مریض داخل کرنے سے پہلے اِس قسم کے بیہودہ فارم پر دستخط کروائے۔
مہذب دنیا نے اِس مسئلے کا حل بیمے کی صورت میں نکالا ہے۔ اگر یہ ثابت ہو جائے کہ مریض ڈاکٹر کی غفلت کی وجہ سے فوت ہوا ہے یا اُس کے علاج میں کوتاہی ہوئی ہے تو ڈاکٹروں کو اُس کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑتی ہے، اسی لیے ڈاکٹر اپنا بیمہ کروا لیتے ہیں، تاکہ ایسی کسی صورت میں بیمہ کمپنی وہ رقم ادا کرے، اسے Malpractice Insurance کہتے ہیں۔ پاکستان میں ایک ادارہ ہیلتھ کیئر کمیشن تو قائم ہے جو اِس قسم کی شکایات کی پڑتال کرتا ہے اور اِس بات کا تعین کرتا ہے کہ آیا ڈاکٹر، اسپتال یا عملے کی غفلت کی وجہ سے مریض کی حالت بگڑی یا کسی اور وجہ سے، اور قصور ثابت ہونے پر جرمانے بھی عائد کرتا ہے، مگر اِس ادارے کے دانت نہیں ہیں، یہ جعلی ڈاکٹروں کے خلاف بھی فقط جرمانے عائد کر کے بیٹھ جاتا ہے، اِس کے پاس کوئی اختیار نہیں کہ یہ اِس قسم کی بد اعمالیوں کو روک سکے۔
لے دے کر تان یہاں ٹوٹتی ہے کہ ہم نے ہر مسئلے کے حل کے لیے ادارے بھی بنا لیے، قانون میں ترمیم بھی کر دی، مگر مسئلہ حل نہیں ہوا۔ اِس کی وجہ میں پہلے بھی کئی مرتبہ لکھ چکا ہوں کہ تمام قوانین، ادارے، عدالتیں، تھانے، سرکاری دفاتر۔ یہ سب اُس وقت تک بیکار ہیں جب تک معاشرہ اخلاقی طور پر بیدار نہیں ہوتا، جس معاشرے کی روح مردہ ہو چکی ہو اُس معاشرے میں بے شک آپ آئین کی پیشانی پر لکھ دیں کہ یہاں اللہ کا قانون نافذ ہو گا، تب بھی وہاں اللہ کے قانون کی کوئی پروا نہیں کرے گا اور یہ ہم روزانہ اپنی گناہ گار آنکھوں سے دیکھتے ہیں۔ جہاں چار لوگ مل کر بیٹھتے ہیں وہ اپنی تعریفیں شروع کر دیتے ہیں اور دوسروں پر لعن طعن، ہر بندہ سمجھتا ہے کہ بس وہ درست ہے اور باقی غلط، وہ نیک نیت ہے اور دوسرے لوگ بد نیت، ایسے معاشرے میں کسی قانون کی وقعت نہیں رہتی۔ اسی لیے کسی اسپتال کا مالک اٹھتا ہے اور اپنا قانون نافذ کر دیتا ہے کہ اگر میرے اسپتال میں ڈاکٹر کی غفلت کی وجہ سے مریض مر بھی گیا تو کوئی مجھے ہاتھ نہیں لگا سکتا۔ ہمت ہے کسی میں تو ہاتھ لگا کر دکھائے!
- اور بھی دکھ ہیں زمانے میں ’قانون‘ کے سوا - 02/10/2024
- اپنے بچوں کو کامیاب ضرور بنائیں مگر۔ ۔ ۔ مکمل کالم - 29/09/2024
- خرابی ہمارے مقدر میں نہیں، ہم میں ہے! - 18/09/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).