تحریک انصاف کا جلسہ: ڈرتے کیوں ہو بھائی
اسلام آباد کی سنگجانی مویشی منڈی میں تحریک انصاف کے جلسہ کے بعد راولپنڈی اور اسلام آباد کے بیشتر راستوں کو کھول دیا گیا ہے۔ یوں جڑواں شہر کے لوگوں نے ایک دن سے زیادہ دیر تک ’محصور‘ رہنے کے بعد سکھ کا سانس لیا۔ جلسہ کے حوالے سے وفاقی وزرا کا دعویٰ ہے کہ یہ ناکام ہو گیا ہے اور لوگوں نے اس میں شرکت نہیں کی جبکہ تحریک انصاف کے لیڈروں کا زعم ہے کہ انسانوں کے ہجوم نے ملک کے ’جعلی‘ حکمرانوں کو دو ٹوک پیغام دیا ہے کہ ’ہمارا راستہ نہ روکا جائے‘ ۔
ان متضاد دعوؤں کے بارے میں سچ جھوٹ کی بحث کار لاحاصل ہے۔ لیکن یہ طے ہے کہ تحریک انصاف کے جلسے سے قبل حکومت حواس باختہ تھی اور اس جلسہ کو محدود رکھنے اور لوگوں کو جلسہ گاہ تک پہنچنے سے روکنے کے لیے تمام جائز و ناجائز طریقے اختیار کیے گئے۔ دوسری طرف تحریک انصاف نے اس جلسہ کو ’کامیاب‘ بنانے کے لیے خیبر پختون خوا حکومت کے وسائل بے دریغ استعمال کیے۔ ملک میں قانون و انصاف کی حکمرانی کا دعویٰ کرنے والے لوگوں کے اس طرز عمل سے ایک ہی بات واضح ہوتی ہے کہ اس حمام میں سب ننگے ہیں اور جس کا جتنا بس چلتا ہے وہ عوام ہی کے وسائل سے عوام کو بے وقوف بنانے کا سامان مہیا کرتا ہے۔ وفاقی حکومت اور خیبر پختون خوا حکومت نے کم از کم اس جلسہ کے حوالے سے ثابت کیا ہے کہ اصولوں کی بنیاد پر موقف پیش کرنے کی بجائے طاقت کا بے ہودہ مظاہرہ عوام کو متاثر کرنے کے لیے ضروری سمجھا جاتا ہے۔
وفاقی حکومت نے بظاہر لوگوں کی حفاظت اور اسلام آباد کو شرانگیزی سے بچانے کے لیے راستے بند کیے۔ اسلام آباد کو کنٹینر لگا کر قلعہ بند کیا گیا۔ ٹرانسپورٹ معطل کردی گئی۔ سنگجانی کے علاقے میں تمام ہوٹل، گیسٹ ہاؤسز اور کیٹرنگ کا کام 2 دن کے لئے بند رکھنے کے احکامات جاری کیے گئے تھے۔ پولیس نے کہا تھا کہ کسی بھی صورت کیٹرنگ سامان، رہائش یا کھانا نہیں دیا جائے گا۔ ہدایات پر عمل درآمد نہ کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ اس حکم کا مقصد یہی تھا کہ جلسہ میں شرکت کے لیے دور دراز سے آنے والے لوگوں کی مشکلات میں اضافہ کیا جائے یا انہیں تکلیف پہنچائی جائے۔ اسی طرح سنگجانی اور اس کے گرد و نواح میں انٹرنیٹ سروس معطل تو نہیں ہوئی لیکن اس کی رفتار بہت کم تھی۔ یوں اس علاقے سے مواصلت اور معلومات کی ترسیل میں رکاوٹ ڈالی گئی۔ یہ سارے کام شہریوں کی حفاظت کے نقطہ نظر سے کیے گئے، اسی لیے ان اقدامات پر قومی خزانے کے منہ کھول دیے گئے لیکن یہ رکاوٹیں کھڑی کر کے شہریوں و تاجروں کو نقصان برداشت کرنے پر مجبور کیا گیا۔ اس کی جواب دہی کے لیے کوئی آمادہ نہیں ہو گا۔
اس میں تو کوئی شک نہیں کہ سیاسی مخالفین کا راستہ روکنے کے لیے ایسے ہتھکنڈے کوئی نئی بات نہیں ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ملک میں قائم ہونے والی ایک بری اور افسوسناک روایت کو ہمیشہ کے لیے محض اس لیے تسلیم کر لیا جائے کہ اس سے پہلے بھی ایسا ہوتا رہا ہے؟ اگر پہلے کوئی غلط کام ہوتا تھا تو اسے ختم کرنے اور جمہوریت کا نام لے کر ملک پر حکومت کے دعویداروں کو مثبت روایات کا آغاز کرنا چاہیے جس میں ایک دوسرے کے لیے عزت و احترام کا امکان پیدا ہو۔ خوف اور نفرت کی فضا ختم ہو اور کسی طرح سیاسی مسائل پر صحت مند مکالمہ کا آغاز ہو سکے۔ ظاہر ہے کہ کوئی کمزور حکومت اس قسم کا حوصلہ نہیں کر سکتی حالانکہ فراخ دلی سے مخالفین کو اپنی رائے ظاہر کرنے کا موقع دے کر کوئی بھی حکومت یہ واضح کر سکتی ہے کہ وہ اختلاف رائے کا احترام کرتی ہے اور کسی مخالف سیاسی قوت سے پریشان نہیں ہے۔ لیکن ملک کے سیاسی گروہوں میں خوف کی یہ فضا دو طرفہ ہے۔ ہر پارٹی کو خوف ہے کہ اگر اس نے اقتدار پر اپنی گرفت ڈھیلی کی تو مخالف اقتدار میں آ کر اس کے ساتھ وہی سلوک کریں گے جو اس وقت ان کے ساتھ روا رکھا جا رہا ہے۔
تحریک انصاف کی حکومت کے دورانیہ میں جس ایجنڈے پر مستعدی اور تندہی سے کام کیا گیا تھا، وہ سیاسی مخالفین پر عرصہ حیات تنگ کرنے کے حوالے سے ہی تھا۔ اب مسلم لیگ (ن) کی حکومت اپنی طرف سے حساب برابر کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ یوں دیکھا جاسکتا ہے کہ ’خوف‘ نے ملکی سیاست پر ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔ یہی خوف مخالفین کو جیلوں میں بند رکھنے پر مجبور کرتا ہے اور اس اندیشے کی وجہ سے ہی تحریک انصاف کو جلسہ کرنے کی اجازت نہیں دی جا رہی تھی کہ کہیں وہ اتنے لوگ جمع نہ کر لیں کہ اسلام آباد میں وزیر اعظم ہاؤس خالی کرنے کی نوبت آ جائے۔ دوسری طرف خوف ہی کا شکار خیبر پختون خوا کا وزیر اعلیٰ ایک عام سیاسی کارکن کی طرح پارٹی جلسہ میں شریک ہونے کی بجائے بھاری مشینری اور گاڑیوں کے طویل قافلے کے ساتھ ایسی شان و شوکت سے جلسہ گاہ آتا ہے کہ یوں لگے جیسے کوئی ’فوج‘ کسی دشمن کو زیر کرنے کے لیے پیش قدمی کر رہی ہے۔ اس دوطرفہ خوف سے سرکاری یعنی عوامی وسائل کا ناجائز اور غیر ضروری استعمال بلکہ ضیاع دیکھنے میں آتا ہے۔ اور فریقین میں تناؤ کی کیفیت میں اضافہ ہوتا ہے۔ حالانکہ ہر ہوشمند شخص ہر سیاسی گروہ سے ہاتھ باندھ کر یہ عرض کرتا ہے کہ تصادم کی اس کیفیت کو کم کیا جائے تاکہ ملک میں مسائل کی طرف بھی توجہ دی جا سکے اور انہیں حل کرنے کا راستہ تلاش ہو سکے۔
تحریک انصاف کے جلسہ کے بعد اور اڑتالیس گھنٹے تک اسلام آباد اور راولپنڈی کے لوگوں کو نت نئی پابندیوں میں جکڑے رکھنے کے بعد دو وفاقی وزرا اسلام آباد میں پریس کانفرنس کے دوران اس جلسہ کو تحریک انصاف کی ناکامی قرار دیتے ہوئے دعویٰ کرتے ہیں کہ ’کی بورڈ کے ذریعے سے انقلاب لانے والے عوام کے لیے کچھ نہیں کر سکتے۔ لوگ خود نہیں نکلے، کل انہیں زبردستی جلسہ کے لیے لایا گیا تھا‘۔ حکومتی ترجمان اگر اپوزیشن کے جلسہ کی ناکامی کا احوال بیان کرنے کی بجائے حکومتی بدحواسی کا حال بتاتے تو شاید حقیقی اور درست تصویر سامنے آ سکتی تھی۔ عطااللہ تارڑ کو اگر یقین ہے کہ جلسہ ناکام ہی ہونا تھا کیوں کہ لوگ تحریک انصاف کے ساتھ نہیں ہیں تو انہیں ان معلومات کو سیاسی بینر بنانے کی بجائے یہ بتانا چاہیے تھا کہ پھر حکومت کیوں اس جلسہ کے انعقاد کے حوالے سے کئی ماہ سے شدید پریشانی کا شکار تھی۔ بار بار جلسہ کی اجازت دے کر این او سی منسوخ کرنے میں کیا حکمت تھی؟
اگر حکومت کو اپنی عوامی مقبولیت کا یقین ہے اور پتہ ہے کہ عوام عمران خان اور ان کی پارٹی کو مسترد کرچکے ہیں تو اول تو جلسہ کو اسلام آباد کے کسی مقام کی بجائے سنگجانی مویشی منڈی کے میدان میں منتقل کروانے کی ضرورت کیوں محسوس کی گئی۔ کسی سیاسی اجتماع سے کیسے لوگوں کی زندگی مشکل بنائی جا سکتی ہے؟ البتہ جب اسے روک کر اشتعال کی کیفیت پیدا کی جاتی ہے تو شہریوں کو ہر صورت میں پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ڈپٹی کمشنر اسلام آباد نے اس جلسہ کے انعقاد کی اجازت دیتے ہوئے تحریک انصاف کے ساتھ 42 نکات پر مشتمل معاہدہ کیا تھا۔ اس میں مخصوص راستوں سے آنے اور ایک خاص وقت میں جلسہ ختم کرنے کی یقین دہانی حاصل کی گئی تھی۔ اگر مخصوص راستوں کی نشاندہی کا مقصد عام ٹریفک میں خلل کی روک تھام کرنا تھا تو دارالحکومت کی انتظامیہ کی طرف سے رکاوٹیں کھڑی کر کے اور راستے روک کر جو خلل پیدا کیا گیا، اس کا ذمہ دار کون ہے۔ اسی طرح نہ صرف شام 7 بجے جلسہ ختم کرنے کی شرط معاہدے میں شامل کی گئی بلکہ یہ وقت آنے پر منتظمین کو فوری طور سے جلسہ گاہ خالی کرنے کا حکم دیا گیا۔ انتظامیہ کی طرف سے ایسی حرکتیں کرنے سے ہی حکومت کی کمزوری کا تاثر مضبوط ہوتا ہے۔ حکومت اگر ان بچگانہ بدحواسیوں کا مظاہرہ نہ کرتی تو یہ تاثر تحریک انصاف شاید سنگجانی جلسہ میں دس گنا زیادہ لوگ جمع کر کے بھی پیدا کرنے میں ناکام رہتی۔
کسی بھی جمہوریت میں کسی قسم کی آواز دبانا مسئلہ کا حل نہیں ہے۔ اس سے گھٹن اور اشتعال پیدا ہوتا ہے۔ بعض اوقات یہ غم و غصہ بڑی تباہی کا سبب بھی بنتا ہے لیکن ایک بات تو طے ہے کہ اس سے جمہوری روایت کمزور ہوتی ہے اور کسی بھی حکومت کی اتھارٹی اور اقتدار پر گرفت کے بارے میں سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ حکومت پہلے ہی مین اسٹریم میڈیا کے بعد سوشل میڈیا پر نت نئی پابندیوں کے ذریعے خبروں کی ترسیل اور خیالات کے آزادانہ اظہار پر پابندیاں عائد کر رہی ہے۔ اس کے علاوہ قومی سکیورٹی کے نام پر شہریوں کی گرفت کا طریقہ اختیار کیا جاتا ہے۔ اب اگر جلسے اور تقریریں کرنے کو بھی جرم قرار دیا جائے گا تو اس سے حکومت کی مشکلات میں کمی واقع نہیں ہوگی۔ اس کے برعکس اظہار کی آزادی حکومت کے لیے یہ موقع پیدا کرتی ہے کہ عوام کو مخالفین کے دعوؤں کی تصدیق کے لیے حکومت کی بات سننے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے اور وہ صحت مندانہ اور متوازن رائے بنانے میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔
دوسری طرف تحریک انصاف کو کئی ماہ کی کوششوں اور سخت محنت کے بعد سنگجانی میں جلسہ کرنے اور اپنی بات لوگوں تک پہنچانے کا موقع نصیب ہوا تھا۔ پارٹی چئیرمین بیرسٹر گوہر علی نے ضرور معتدل انداز میں جمہوری طریقوں کا راستہ مسدود کرنے سے متنبہ کیا اور کہا کہ اس حقیقت کو مان لینا چاہیے کہ عمران خان کو سیاست سے مائنس کرنے کا ہتھکنڈا ناجائز ہے۔ اب ان کے خلاف تمام مقدمات ختم ہو گئے ہیں، اس لیے انہیں رہا کیا جائے تاکہ ملک میں سیاسی ماحول بہتر ہو سکے۔ البتہ ان کی متوازن گفتگو کو خیبر پختون خوا کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور کی غیر متوازن، اشتعال انگیز، بے ربط اور دھمکی آمیز باتوں نے بے معنی کر دیا۔ ان کا دعویٰ ہے کہ وہ فوج کو خود ہی ’ٹھیک‘ کر لیں گے۔ عمران خان کو دو ہفتے میں رہا نہ کیا تو وہ خود ہی انہیں رہا کر دیں گے۔ یا مخالفین کو ہتھکڑیاں ڈال کر گھسیٹیں گے۔ ایسی باتیں تحریک انصاف کو مضبوط اور سیاسی طور سے قابل اعتبار بنانے کی بجائے سیاسی ’بوجھ‘ ثابت کرتی ہیں جس سے جان چھڑانے کو جائز کہنے کے لیے دلائل جمع کیے جاتے ہیں۔
سنگجانی کے جلسہ سے حکومت کو یہی پیغام ملتا ہے کہ اسے حوصلے سے سیاسی مخالفین کے حق اجتماع کو قبول کرنا چاہیے۔ اس سے کوئی قیامت نہیں آئے گی۔ یہ جلسہ خود تحریک انصاف کے لیے یہی سبق ہے کہ اگر اس نے اشتعال انگیزی کا راستہ ترک نہ کیا تو اس کا سیاسی سفر آسان نہیں رہے گا۔ اس میں کامیابی سے زیادہ ناکامی کے امکانات زیادہ ہیں۔ جیسا کہ تحریک انصاف کے حلیف اور پشتون خوا ملی عوامی پارٹی کے لیڈر محمود خان اچکزئی نے اسی جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’تحریک انصاف میں تنظیم کی کمی ہے۔ صرف لوگ جمع کرنے سے انقلاب نہیں لایا جا سکتا‘ ۔
- سپریم کورٹ کا درست قانونی فیصلہ - 04/10/2024
- مشرق وسطیٰ میں ناکام امریکی پالیسی - 03/10/2024
- ایران کا جوابی حملہ اور مشرق وسطی میں جنگ کے گہرے بادل - 02/10/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).