سندھ کا ایتھوپیا بننے والا صحرائے تھر


صحرائے تھر صوفی شاعر شاہ عبداللطیف بھٹائی کی شاعری، ماروی کی حب الوطنی اور مائی بھاگی جیسی لوک فنکارہ اور قدرتی حسن، روایات اور ثقافت کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور اور معروف ہے۔ پاکستان کے جنوب مشرق اور بھارت کے شمال مغرب سرحد پر واقع یہ وادی تھر بنیادی طور پرہندووں اور مسلمانوں کی بین المذاہب ہم آہنگی کی زندہ جاوید مثال ہے۔

تھر صوبہ سندھ کا وہ خوبصورت حصہ ہے جسے صحرا کی جنت بھی کہا گیا ہے جہاں پیار اور محبت کرنے والے دل کے امیر، اور معاشی طور پر غریب لوگ رہتے ہیں۔ جن کا ناشتہ، دوپہر اور رات کا کھانا،پیاز اور ہری مرچ سے تو ضرور ہوتا ہے، مگر ان کی مہمان نوازی، پیار اور خلوص کی دنیا تعریف کرتے نہیں تھکتی۔ جو ایک دفعہ تھر چلا جائے وہ ہر بار جانے کا سوچتا رہتا ہے کیو نکہ وہ تھر کے خوبصورت نظارے اور تھری لوگوں کا پیار بھولے سے بھی نہیں بھلا پاتا۔ پیٹ خالی ہو یا حلق پیاسا، بدن پہ پھٹے پرانے کپڑے ہوں تو کیا ہوا، یہ مست حال لوگ دنیا کی رنگینیوں سے دور اپنے رنگ میں رنگے ہوئے ہیں۔

جھونپڑیوں میں رہنے والے یہ لوگ، جن کے پاس نہ بجلی ہے نہ پینے کا پانی، نہ ان کو صحت کی سہولیات، نہ سکول، نہ شاپنگ مال ،نہ روڈ نہ راستے۔ لگتا ہے کہ یہ لوگ کسی اور ہی سیارے کی مخلوق ہیں۔ تھر کے خوبصورت رنگوں میں مور کی ایک خاص اہمیت ہے۔ مور کا ذکر تھری لوگوں کی خوشیوں اور ان کے لوک گیتوں میں شامل ہے اور اس کا ذکر سندھ کے صوفی شاعر شاہ لطیف کی شاعری سے لے کر، انقلابی شاعر شیخ ایاز کی اداس نظموں میں بھی ملتا ہے۔ مور جو کبھی تھر کی ہواو¿ں میں پر کھول کر ناچتے تھے آج وہ تڑپ تڑپ کر مر رہے ہیں اور یہ تھری لوگ موروں کی ان اموات پر بہت افسردہ ہیں،کیونکہ تھری لوگوں کی جان تھر کی ہر شے میں ہے۔ دوسری طرف تھری لوگ بھوک اور افلاس کا شکار ہیں۔ ان کے بچے غذائی قلت کا شکار ہیں اور اس کی وجہ سے ان کی اموات ہو رہی ہیں۔ ان کے پاس نہ سوشل میڈیا ہے نہ انٹرنیٹ، نہ ہی کوئی سمارٹ فون، دنیا سے دور کسی اور دنیا مین رہتے ہیں۔

جب کبھی وہاں کوئی وبا اور قحط پھیل کر شدت اختیار کرتا ہے تبھی جاکے میڈیا اور باقی لوگ ان کے بارے میں سنتے، لکھتے اور پڑھتے ہیں۔ تھر کے یہ بیچارے لوگ آسمان کی طرف دیکھتے، آس لگائے رہتے ہیں۔ ان خوبصورت لوگوں کی وادی کو کیا نام دیا جائے جہاں ریت ہی ریت ہے جہاں پانی کی پیاس بجھانے کے لئے بچوں اور عورتوں کو کوسوں میل دور جانا پڑتا ہے۔ جیسے پرندے پیٹ بھرنے کے لیے صبح کو نکلتے ہیں اور شام ڈھلتے ہی گھر کو واپس آ جاتے ہیں۔ ایسی ہی زندگی ہے ان تھری لوگوں کی۔ اگر کوئی بیمار ہو جائے تو سمجھو قہر ٹوٹ پڑا۔ ان بیچاروں کو کوسوں میل چل کے ڈاکٹر کے پاس جانا پڑتا ہے اور جب علاج کے لئے پیسے نہ ہوں اور سرکاری ہسپتال کا آسرا ہو، تو ہم سب کو پتہ ہے ان سرکاری ہسپتالوں کا حال کیا ہوتا ہے۔ اور سندھ کے ہسپتالوں کا تو اللہ ہی حافظ ہے۔

روزگار کے مواقع تو نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ان تھری لوگوں کی زندگی قرض اتارنے اور پیٹ بھرنے کی جدوجہد میں گزر جاتی ہے۔ تھری لوگوں کے لئے یہ مشہور ہے کہ جب بھی تھر میں بارش کی بوندیں پڑتی ہیں تو اس بارش کی خوشبو اور مہک سے تھری جہاں کہیں بھی ہوں وہ واپس اپنے وطن آ جاتے ہیں۔ یہ لوگ بس تھوڑی سی بارش پر خوش رہنے والے لوگ ہیں۔ آج کل یہ تھری لوگ اسی بارانِ رحمت کی آس لگائے بیٹھے ہیں کہ کب بارش ہو اور ان کے پرندے، چوپائے اور ان کی زندگیاں بچ جائیں۔ باقی اگر بات کی جائے ان حکمرانوں کی تو انہوں نے تو اس صحرائے جنت کو ایتھوپیا بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).