فرعونیت سے پارسائی کا سفر
انسانی رویے کی یہ بات بہت غور طلب ہے کہ اکثر لوگ اپنی زندگی کے آخری حصے میں ہی مذہب کی طرف رجوع کرتے ہیں، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ پوری زندگی کو نیک اعمال اور مذہبی رجحانات کے مطابق گزارنا چاہیے۔ پاکستان جیسے معاشروں میں یہ رویہ عام ہے، جہاں اکثر کرپٹ افسران اور بیوروکریٹ اپنی زندگی کے طاقتور ادوار میں بے تحاشا کرپشن کرتے ہیں، اپنی کرسی پر بیٹھ کر خود کو فرعون سمجھتے ہیں، اور جب ان کی عمر ڈھلتی ہے، تو مسجد کی لائٹیں بند کرنے جیسے کام کرتے نظر آتے ہیں۔
اس رویے کی نفسیات کو سمجھنے کے لیے ہمیں کئی پہلوؤں پر غور کرنا پڑتا ہے۔ سب سے پہلے، ضمیر کی بیداری کا عنصر بہت اہم ہے۔ جیسے جیسے انسان کی عمر بڑھتی ہے، اس کا ضمیر اسے جھنجھوڑتا ہے اور وہ اپنے ماضی کے گناہوں پر پشیمانی محسوس کرتا ہے۔ جوانی اور طاقت کے دنوں میں دنیاوی لذتوں میں گم ہو کر لوگ اکثر اپنے اعمال کے نتائج کو نظر انداز کر دیتے ہیں، لیکن بڑھاپے میں وہ اپنے گزرے ہوئے وقت کا حساب کرتے ہیں اور نیک بننے کی کوشش کرتے ہیں۔
اس تبدیلی کی ایک بڑی وجہ آخرت کا خوف بھی ہے۔ زندگی کے اختتام پر، جب موت قریب محسوس ہوتی ہے، تو انسان کو یہ خوف ستانے لگتا ہے کہ اس کا حساب کتاب کیسے ہو گا۔ وہ اپنی آخرت کی فکر میں مذہب کی طرف رجوع کرتا ہے تاکہ وہ اپنے ماضی کے گناہوں کا کفارہ ادا کر سکے۔ اس وقت اسے آخرت کی فکر زیادہ ہو جاتی ہے کیونکہ دنیاوی زندگی کا اختتام قریب ہوتا ہے اور اب اس کے پاس اصلاح کا وقت بہت کم رہ جاتا ہے۔
مزید یہ کہ، جسمانی کمزوری بھی ایک بڑی وجہ ہے۔ بہت سے لوگ اس وقت مذہبی بن جاتے ہیں جب ان کے پاس گناہوں کے مواقع یا جسمانی صلاحیتیں ختم ہو جاتی ہیں۔ جیسا کہ کہا گیا ہے، ”جب طوائف کے قابل نہیں رہتے تو طواف کو چلا جاتے ہیں“ ، یعنی جب گناہ کے کاموں کا اختیار اور وسائل نہیں رہتے تو لوگ مذہبی ہو جاتے ہیں۔ اس رویے میں دنیاوی لذتوں کے ختم ہو جانے کے بعد ایک پناہ کی تلاش نظر آتی ہے، جو مذہب کے ذریعے حاصل کی جاتی ہے۔
اس کے علاوہ، ہمارے معاشرتی نظام میں بھی ایسے لوگوں کو مذہبی بنتے دیکھا جاتا ہے جو طاقتور دور میں ظلم و ستم کرتے ہیں لیکن جب ان کا عہدہ یا حیثیت ختم ہو جاتی ہے، تو وہ معاشرتی احترام پانے کے لیے مذہب کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں مذہب کو عزت اور نیک نامی کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے، اور جب لوگ خود کو کمزور اور بے اختیار محسوس کرتے ہیں تو وہ اس ذریعے سے عزت حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
عمر کے آخری حصے میں وقت کا احساس بھی لوگوں کو مذہب کی طرف مائل کرتا ہے۔ جب انسان کو یہ احساس ہوتا ہے کہ اس کے زندگی کے دن گنے چنے رہ گئے ہیں، تو وہ دنیاوی چیزوں سے دل ہٹا کر اپنی آخرت کی تیاری میں مشغول ہو جاتا ہے۔ اسے اپنی موت کا خوف ہوتا ہے اور وہ اپنے گزرے ہوئے گناہوں کا کفارہ ادا کرنے کے لیے مذہبی اعمال کی طرف راغب ہو جاتا ہے۔
فرعونیت سے پارسائی کا سفر ایک گہرا مشاہدہ ہے جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ کس طرح بعض لوگ اپنی زندگی کے مختلف ادوار میں بالکل متضاد رویے اپناتے ہیں۔ جب یہ لوگ عہدوں پر ہوتے ہیں تو ان کا لہجہ نہ صرف اپنے رشتہ داروں بلکہ ہمسایوں اور عزیز و اقارب کے ساتھ بھی سخت اور بدتمیز ہو جاتا ہے۔ طاقت کا نشہ انہیں اس حد تک مغرور کر دیتا ہے کہ وہ اپنے ارد گرد کے لوگوں سے انسانی رویوں کی بنیادی قدریں بھی بھول جاتے ہیں۔ لیکن جیسے ہی یہ عہدے اور اختیارات ختم ہو جاتے ہیں، ان کا رویہ بالکل تبدیل ہو جاتا ہے۔ وہی لوگ جو کل تک فرعونیت کے انداز میں بات کرتے تھے، آج مذہب کی تبلیغ اور آخرت کا خوف دلا رہے ہوتے ہیں۔
یہ رویہ ہمیں ایک اور پہلو پر غور کرنے کی دعوت دیتا ہے : کیا یہ لوگ واقعی دل سے مذہب کی طرف رجوع کرتے ہیں یا یہ بھی ان کی ذہنی اجارہ داری کا ایک اور مظہر ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ لوگ آخرت میں بھی قبضہ چاہتے ہیں؟ شاید ان کے ذہن میں یہ خیال ہو کہ مرنے کے بعد بھی وہی حکمرانی کریں گے، اور جنت کا جو تصور ان کے ذہن میں بٹھا دیا گیا ہے، وہاں پر بھی انہی کی اجارہ داری ہوگی۔ اس کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ان کی ذہنیت ہمیشہ سے کنٹرول اور طاقت کی بھوکی رہی ہے، اور جیسے دنیاوی طاقت ان سے چھن جاتی ہے، وہ جنت کو اپنی اگلی حکومت کے طور پر دیکھنے لگتے ہیں۔
یہ نفسیات اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ بعض لوگ اپنے عہدے اور اختیار کے ساتھ جس رویے کا اظہار کرتے ہیں، وہ صرف دنیا تک محدود نہیں رہتا، بلکہ آخرت کو بھی وہ اپنے قبضے میں لینا چاہتے ہیں۔
یہ رویہ دراصل انسانی نفسیات کی ایک کمزوری کو ظاہر کرتا ہے، جہاں لوگ طاقت اور اختیار کے دنوں میں دنیاوی لذتوں میں مگن رہتے ہیں اور آخرت کو بھول جاتے ہیں۔ حالانکہ ایک متوازن اور مکمل زندگی کا تقاضا یہ ہے کہ انسان اپنی زندگی کے ہر مرحلے میں مذہب اور نیک اعمال کو اپنا شعار بنائے، نہ کہ آخری لمحوں میں خوف زدہ ہو کر نیک بننے کی کوشش کرے۔ نیک اعمال اور مذہبی رجحانات کو زندگی کے ہر حصے میں اپنانا چاہیے، کیونکہ یہ صرف آخری عمر کا وظیفہ نہیں بلکہ پوری زندگی کا مقصد ہونا چاہیے۔
- عشق محبت اور عادت - 04/05/2025
- محنت کشوں کی تذلیل، نکموں کا غرور - 27/04/2025
- شادی شدہ اور شادی زدہ۔ دو قومیں، ایک انجام - 19/04/2025
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).