سو افغانی اعتراضات کا ایک شافی جواب


عامر رانا پاکستان انسٹیٹیوٹ فار پیس سٹڈیز کے کرتا دھرتا ہیں۔ دہشت گردی شدت پسندی پر کئی سال سے بہت سنجیدہ کام کر رہے ہیں۔ جن لوگوں کو اس ٹاپک میں دلچسپی ہے انہیں ان کے ادارے کی شائع کردہ کتابوں کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ پاکستان اور افغانستان کے صحاٖفیوں کے تعلقات کار میں اضافے کے لیے بھی ان کا ادارہ سرگرم ہے۔ آج کل افغان صحافیوں کا ایک وفد ان کی دعوت پر پاکستان کا دورہ کر رہا ہے۔

آج کل پاک افغان تعلقات تناؤ کا شکار ہیں۔ ایسے میں افغان صحافیوں کا مخالفت نظرانداز کر کے پاکستان آنا قابل تعریف ہے۔ افغان صحافی اسلام آباد میں مختلف اداروں کا دورہ کر رہا ہے۔ انہیں موقع مل رہا ہے کہ پاکستانی اداروں شخصیات کا موقف براہراست جانیں۔ اسی سلسلے میں ایک تقریب ہوئی جس میں پاکستانی صحافیوں کا افغان صحافیوں سے مکالمہ ہوا۔ رحیم اللہ یوسفزئی، ضیا الدین صاحب، حامد میر، طاہر خان سمیت بہت سے پاکستانی صحافی ملکی غیر ملکی سفارتکار تقریب میں شریک ہوئے۔

اٖفغان صحافیوں نے بتایا کہ گزشتہ دس سال میں وہاں صحافیوں کی تعداد پندرہ سو سے بڑھ کر بارہ ہزار ہو چکی ہے۔ سو سے زائد ٹی وی چینل کام کر رہے ہیں۔ بے شمار ریڈیو ہیں اخبارات ہیں۔ میڈیا کافی حد تک آزاد ہے بلکہ ان کے بقول پاکستان سے زیادہ آزاد ہے۔ میڈیا فیشن ٹرینڈ کو کنٹرول کر رہا ہے۔ افغان اپنے میڈیا پروگراموں سے کافی حد تک متاثر ہوتے ہیں۔

افغان صحافیوں نے کھلے دل سے اعتراف کیا کہ طاقتور افغان میڈیا پاک افغان تعلقات میں بہتری لانے میں ناکام رہا ہے۔ پاکستان کے خلاف افغان عوام میں شدید مخالفاناجذبات موجود ہیں۔ جو وقت کے ساتھ بڑھ رہے ہیں۔ اس موقع پر افغان صحافیوں نے بہت سے سوال اٹھائے۔

ان کا پوچھنا تھا کہ حامد کرزئی نے پاکستان کے بیس سے زائد دورے کیے۔ تعلقات کیوں بہتر نہ ہو سکے۔ اشرف غنی بھارت سے دعوت کے باوجود پہلے دورے کے لیے پاکستان آئے۔ وہ بہت امیدیں لے کر پاکستان آئے تھے۔ توقعات پوری نہیں ہوئیں۔ تعلقات مزید خراب ہو گئے۔

یہ بھی پوچھا گیا کہ کیا پاکستانیوں نے کبھی سوچا کہ روس کے خلاف افغان جہاد کے لیے پاکستان میں اٖفغان جہادی تنظیموں نے سات جماعتی اتحاد قائم کیا تھا۔ کیا کسی کو معلوم ہے کہ یہ تمام سات جماعتیں اور ان کے زیادہ تر ارکان اب پاکستان مخالف ہیں۔ کیا پاکستان میں لوگ جانتے ہیں کہ افغان طالبان میں کافی مضبوط دھڑے ہیں جو پاکستان مخالف ہیں۔ یہ سب وہ لوگ ہیں جن کی پاکستان اخلاقی سیاسی اور فوجی حمایت کرتا رہا ہے۔ یہ سب کیوں مخالف ہو گئے۔

ایک افغان صحافی نے کہا کہ ہم جاننا چاہتے ہیں کہ پاکستانی میڈیا شدت پسندوں کے حوالے سے مارے جانے والے افغان سیکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کو ہلاک کیوں لکھتا ہے۔ یہ ایسا کیوں کرتے ہیں جبکہ پاکستان میں شدت پسندوں کے ہاتھوں مارے جانے والوں کو شہید کہا جاتا ہے۔

پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے ماروی سرمد، کابل میں سابق پاکستانی سفیر ہمایوں قاضی، خالد عزیز اور ضیاالدین صاحب نے تعلقات بہتری کے لیے مختلف تجاویز دیں۔ پاک افغان سرحد کو کھولنے کا مطالبہ بھی کیا۔ یہ بھی کہا کہ یہ بندش عارضی ہے۔ مریضوں طالب علموں تاجروں کی مشکلات کا بھی ذکر ہوا۔ یہ بھی کہا گیا کہ اگر سی پیک میں افغانستان کو شامل کیا جائے۔ اسی آئیڈیے کو استعمال کرتے ہوئے بھارت کو بھی افغانستان کے لیے ٹرانزٹ کی سہولت دی جائے۔ افغانستان کو تجارتی سہولیات فراہم کی جائیں۔

حامد میر نے پاکستان افغانستان میں موجود صوفی کنکشن پر بات کی۔ یہ کہا کہ پاکستانیوں کے لیے یہ بہت تکلیف دہ بات تھی کہ لال شہباز قلندر کے مزار پر حملہ کرنے والا خود کش افغانستان سے آیا تھا۔ انہوں نے کہا لال شہباز قلندر کا اپنا تعلق بھی افغانستان سے ہی تھا۔ داتا صاحب سید علی ہجویری کا تعلق بھی افغانستان سے ہے۔ ان کے والد عثمان علی ہجویری کا مزار بھی افغانستان میں ہے۔ حکیم سنائی علامہ اقبال کو بہت پسند تھے ان کا تعلق بھی افغانستان سے ہے۔

انہوں نے کہا صوفیا کہ یہ مزار ہمارے روابط کو نئے خطوط پر استوار کر سکتے ہیں۔ افغان ہیرو غوری کا مزار پاکستان میں ہے۔ ان مزاروں نے ہمیں مخلتف حوالوں سے جوڑ رکھا ہے۔ ان مزارات کے دورے دونوں قوموں کو نزدیک لا سکتے ہیں۔

حامد میر کو بات کرنے کا ہنر آتا ہے۔ وہ بہت کچھ نہ کہتے ہوئے بھی سب کچھ کہہ گئے۔ انہوں نے کہا کاکول پاکستان آرمی کے افسران کا تربیتی ادارہ ہے۔ وہاں کیڈٹس کی چار کمپنیوں میں تشکیل ہوتی ہے۔ ان کمپنیوں کے نام حیدر ابدالی غزنوی اور غوری ہیں۔ ایک کے علاوہ تین کمپنیوں کے نام اٖفغان ہیرو کے ناموں پر ہیں۔

حامد میر نے تو کچھ مزید نہیں کہا لیکن سب سمجھ گئے کہ افغانستان پاکستان کا مستقل پالیسی فوکس ہی رہا ہے رہے گا۔ شاید وجہ بھی سمجھ آ گئی سب کو۔

افغان صحافی جب اپنے سوالات اٹھا رہے تھے۔ تو ان کا جواب کون دے گا کیا ہو گا یہ ہماری واحد دلچسپی تھی۔ افغان صحافیوں نے افغان جہاد میں پاکستان کی حمایت یافتہ جہادی تنظیموں لیڈروں کا ذکر کیا جو سب آج پاکستان مخالف ہیں۔ ان کا دعوی تھا کہ افغان طالبان بھی پاکستان مخالف بھاری تعداد میں ہیں۔ افغانوں میں پاکستان مخالف جذبات شدید ہوتے جا رہے ہیں۔

ان تمام سوالات کا جواب رحیم اللہ یوسفزئی نے دیا۔ انہوں نے کہا آپ دوستوں نے اتنے سوال اٹھائے میں بھی ایک سوال ہی کرتا ہوں۔ انہوں نے کہا یہ سوال بھی میرا نہیں ہے یہ سرتاج عزیز پہلے ہی کہہ چکے ہیں۔ آپ کے اتنے سوالات اعتراضات پر میں بس اتنا پوچھنا چاہتا ہوں کہ روس تو گرم پانیوں تک نہیں آنا چاہتا تھا کیا پاکستان کو افغان جہاد کی حمایت کرنی چاہیے تھی۔

اس سوال کا کوئی جواب نہیں آیا۔ افغانوں کو تو یہ سوال سوچ میں ڈال گیا۔ ہمارے لیے بھی اہم ہے کہ سوال اٹھانے کا وقت ہی فیصلہ کن ہوتا ہے۔

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 406 posts and counting.See all posts by wisi