رواقیت ( Stoicism ): تعارف اور پس منظر


فلسفہ جہاں آدمی کو غور و فکر کرنے کی دعوت دیتا اس کے پہلو بہ پہلو عہدِ قدیم سے یہ رائج رہا ہے کہ جتنے بھی عظیم مفکرین تھے وہ کسی نہ کسی طریقے سے موجودہ انسانی زندگی میں قدرے بہتری لانے میں کوشاں تھے، وہ زندگی کو کسی خاص مقصد اور نقطہ نظر کے تحت گزارنے اور حیات و ممات کی حقیقتوں سے پردہ اٹھا کر اس میں موجود کمی کوتاہیوں کو دور کر کے اسے نسلِ نوعِ انسان کے لیے حقیقی معنوں میں لائق تقلید بنانے میں کوشاں تھے، فلسفے کے ابتدائی دور میں مختلف نظریات کے حامل فلسفی مادی کائنات کی ہیت و ماہیت پر غور و فکر کر رہے تھے یعنی فلسفے کا تعلق صرف مادی اشیاء تک محدود تھا لیکن سقراط وہ پہلا فلسفی ہے جس نے فلسفے کا رخ تبدیل کر کے اسے انسانی زندگی کے ساتھ جوڑ دیا۔ سقراط مادی اشیاء سے ہٹ کر سوچ رہے تھے وہ انسانی زندگی میں اصلاحات لانے کی کوشش کر رہے تھے۔ مثلاً زندگی کیسے گزارنی چاہیے! زندگی گزارنے کے لیے کیا کیا لوازمات درکار ہیں! کیا انسان خوش رہ سکتے ہیں! حق کیا ہے! حقیقت کیا ہے! وغیرہ وغیرہ پر مبنی تھا، رواقیت بھی سقراط اور دیگر مفکرین کے نظریات سے اخذ شدہ ایک مکتبِ فکر کا نام ہے اس پر ہم مزید بحث کریں گے

رواقیت اور زینو (zeno of citium 334۔ 262 BC) :

فلسفیانہ فکر خلا میں پروان نہیں چڑھتا بلکہ کسی سماج کے فکری و ذہنی ماحول اور اس کی ثقافتی و تہذیبی فضا میں آگے بڑھتا ہے۔ زینو کا تعلق جس زمانے سے تھا وہ تیسری صدی قبل مسیح کا تھا۔ اس زمانے میں ایتھنز میں سقراطی فلسفہ اور کلبی مکتبِ خیال و دیگر مکتبِ فکر کا دور دورہ تھا۔ رواقیت بھی ایک مکتبِ خیال ( School of thought) ہے جس کا بانی زینو ہے۔ زینو کا تعلق ایتھنز سے نہیں تھا بلکہ وہ قبرص کے شہر سٹئیم (Citium) میں پیدا ہوا تھا وہ تجارت سے وابستہ تھا۔ اکثر محققین کا کہنا ہے کہ وہ تجارتی غرض سے سمندری سفر پر کہیں جا رہا تھا اور جہاز سمندر میں ڈوب گیا اور خود ایتھنز پہنچنے میں کامیاب ہوا، ایتھنز میں وہ کسی کتب خانے میں گیا وہاں اس نے فلسفے کا مطالعہ شروع کیا اور وہ سقراط اور اس نظریات اور اس کی طرز زندگی اور ہرقلیطیس (Heraclities) کے کائنات کے تصورات سے بہت متاثر ہوا۔

زینو نے ارسطو کے بعض نظریات کو بھی اپنے فلسفے میں سمونے کی کوشش کی ہے۔ سقراط کے نظریات اور طرز بود و باش سے وہ حد درجہ متاثر تھا مثلاً سقراط کا حق کے لیے جیل سے فرار ہونے سے انکار کرنا، موت کو دلیری کے ساتھ گلے لگانا، لباس اور خوراک میں اس کی سادگی اور گرم و سرد موسموں سے بے فکر ہونا وغیرہ وغیرہ۔ مزید برآں سقراط ہی وہ پہلا فلسفی تھا جس نے فلسفے کا رخ موڑ کر انسان اور انسانی زندگی سے جوڑا تھا۔ چنانچہ زینو سقراط اور دیگر فلسفیوں کے نظریات کے زیرِ سایہ یا زیرِ اثر اپنا فلسفہ یا نظریہ تشکیل دینے میں کامیاب ہوا۔ جسے رواقیت (Stoicism) کہتے ہیں۔ زینو ایتھنز میں جس جگہ بیٹھ کر اپنے شاگردوں کو تعلیم دیا کرتے تھے اسے اگورا کے برآمدے (painted poarch) یعنی رنگین برآمدے کہتے تھے اس باعث انہیں رواقی ( Stoic) کہا جاتا ہے

رواقین کے بنیادی نظریات کے حوالے سے برٹرینڈ رسل فلسفہ مغرب کی تاریخ میں لکھتے ہیں کہ "اگرچہ رواقین کی بنیادی اہمیت اخلاقانہ تھی۔ لیکن دو پہلو ایسے تھے جن سے ان کی تعلیم دوسرے تعلیمی میدانوں میں ثمر آور ثابت ہوئی۔ ان میں سے ایک نظریہ علم ہے اور دوسرا فطری قانون اور فطری حقوق کا نظریہ ہے“

اس لحاظ سے رواقیوں کے نظریات کو تین حصوں میں تقسیم کر کے دیکھا اور پرکھا جا سکتا ہے یا یوں کہیئے کہ یہ تین نظریئے جس پر رواقیت کی پوری عمارت کھڑی ہے یعنی (pillers of stoicism ) یہی تینوں بنیادی ستون ہیں۔

1) منطق (Logic) علم
2) طبعیات (Physics) فطری قانون
3) اخلاقیات (Ethics)

سٹویک والوں کا علم کے حوالے سے ان کا نظریہ ادراک اور دلائل پر مبنی تھا جب انسان پیدا ہوتا ہے تو اس کا ذہن بالکل خالی ہوتا ہے اور اس کے دماغ میں حس ( Sense) سے کچھ بھی ڈال سکتے ہیں۔ اس کے ذریعے ذہن میں ایک دلیل پیدا ہوتی ہے۔ یعنی علم کی بنیاد حسی ادراک ( sense perception) اور دلائل پر مبنی ہے۔

دوسری بات یہ تھی کہ وہ فطری قوانین اور قدرت کی عبادت کرتا تھا، یہ فطری قوانین تین اصولوں پر مبنی ہے یعنی خدا، کائنات اور ذہن۔ ان تینوں میں ایک دوسرے کا عکس ہے کوئی چیز ایک دوسرے سے الگ نہیں ہے۔ ان تینوں کے درمیان ہم آہنگی ہے یعنی کائنات میں بھی خدا اور ذہن کا عنصر موجود ہے، اور ذہن میں بھی کائنات اور خدا کا عکس ہے اور کائنات میں بھی خدا اور ذہن کا عکس ہے وہ سمجھتے تھے روح اور مادے کے درمیان کوئی تضادات نہیں رکھتے۔

اخلاقیات کے حوالے سے ان کا نظریہ سب سے اہم ہے یعنی ایسا کہیں تو بے جا نہ ہو گا یہ ایک (Symbol of stability) ہے۔

سٹویک جذبات پر عقل کو فوقیت دیتے تھے اور نیکی کو زندگی کے اعلیٰ ترین قدر تصور کرتے تھے وہ لوگ ایک طے شدہ زندگی میں عقل کے ذریعے غم اور خوشی سے بے حس ہو کر زندگی گزارنے کی کوشش کرتے تھے۔ فطرت کے قریب رہ کر قدرتی و فطری قوانین سے مطابقت رکھ کر زندگی بسر کرتے تھے، خوشی حاصل کرنے کے لیے وہ اپنی ذات تک محدود رہتے تھے، ابتدائی سٹویک کا مزید ماننا تھا کہ تمام انسانوں میں اندرونی صلاحیت موجود ہے، مثلاً فضیلت کو پہچاننا، صحیح اور غلط میں تمیز کرنا اور فطرت کے ساتھ ہم آہنگی وغیرہ یہ وہ بنیادی ماخذ تھا جس پر بعد کے سٹویک مکتبِ خیال سے تعلق رکھنے والوں نے سنگِ بنیاد رکھا۔

رواقی زندگی گزارنے کے بنیادی اصول:

اپنی ذات کو جانچنا اور پرکھنا
اپنا ایک آئیڈیل تلاش کرنا
اپنی خوبی اور اپنے دم سے زندہ رہنا
بدترین حالات کی توقع رکھنا
جنگجو کی ذہنیت رکھنا
پڑھنا اور اس پر عملدرآمد کرنا
آپ کے پاس جو ہے اس کے لئے شکر گزار ہونا اور اپنی تقدیر پر یقین کرنا
محنت اور قربانی کے لئے تیار رہنا
وقت کی اہمیت کو سمجھنا
مصیبتوں کا خیرمقدم کرنا اور یہاں تک کہ مشکل چیلنجوں کی بھی تلاش کرنا اور بدترین صورتحال کا اندازہ لگانا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments