پی ٹی ایم عوامی جرگہ کی سفارشات
پختون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) نے اپنا حالیہ تین روزہ عوامی جرگہ ایسی حالت میں منعقد کیا جب مرکزی حکومت نے اس اجتماع سے محض چند دن قبل دہشت گردی مخالف قوانین کے تحت پی ٹی ایم پر پابندی کا نوٹیفیکیشن جاری کر دیا تھا جس کی وجہ سے خیبرپختونخوا پولیس نے یہ اجتماع روکنے کے لیے نہتے شرکاء پر فائرنگ کی جس کے نتیجے میں چار افراد ہلاک اور 15 زخمی ہوئے۔ تاہم بعد میں مرکزی حکومت کی مداخلت اور صوبائی حکومت کے تعاون سے نہ صرف حالات قابو میں آئے بلکہ اس جرگے کی ریاست اور ریاستی اداروں مخالف نعرے نہ لگانے اور غیر ملکی پرچم نہ لہرانے کی شرط پر انعقاد کی اجازت بھی دی گئی اور صوبائی حکومت کی جانب سے اگر ایک جانب ضروری سہولیات بہم پہنچائی گئیں تو دوسری جانب اس جرگے میں خود وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور اور گورنر خیبر پختونخوا فیصل کریم کنڈی نے بھی شرکت کی۔
اس اجتماع میں زیادہ تر تقاریر روایتی جذباتی انداز میں کی گئیں اور آخر میں جاری ہونے والے مشترکہ اعلامیہ میں بھی زیادہ تر پرانی باتوں کو دہرایا گیا البتہ اس میں بعض باتیں نہ صرف نئی تھیں بلکہ بعض مطالبات کو مبصرین انتہائی سخت اور غیر لچکدار بھی قرار دے رہے ہیں۔ یہ اعلامیہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے مختلف اضلاع اور مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے 80 نمائندوں کی طرف سے جاری کیا گیا جسے پی ٹی ایم کے سربراہ منظور پشتین نے اجتماع کے آخری سیشن میں 22 نکاتی قرارداد کی شکل میں پیش کیا۔
اس اعلامیئے میں پی ٹی ایم پر پابندی ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ اعلامیے نے عسکریت پسند گروپوں اور افواج پاکستان کو صوبے سے نکلنے کے لیے دو ماہ کی مہلت دیتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ اگر ایسا نہ ہوا تو جرگہ یہ فیصلہ کرے گا کہ ان عناصر کو یہاں سے کیسے نکالنا ہے۔ قرارداد میں خیبر پختونخوا کو سستی اور مسلسل بجلی کی فراہمی کا بھی مطالبہ کیا گیا۔ قرارداد میں کہا گیا کہ بجلی خیبر پختونخوا کی پیداوار ہے اور اسے لوڈشیڈنگ کے بغیر فراہم کیا جائے۔ قرارداد میں یہ بھی کہا گیا کہ خیبرپختونخوا میں بجلی کی قیمت 5 روپے فی یونٹ جبکہ قبائلی علاقوں کو مفت بجلی دی جائے۔ جرگے نے خبردار کیا کہ اگر خیبرپختونخوا میں لوڈشیڈنگ جاری رہی تو تمام صوبوں کی بجلی منقطع کر دیں گے۔
اعلامیئے میں مزید کہا گیا کہ پختون زمین کے وسائل پر ڈیٹا اکٹھا کیا جائے گا اور شہداء اور لاپتہ افراد کی زمینوں پر قابض مبینہ قبضہ گیروں کے خلاف کارروائی کے لیے و کلاء کی ٹیم تشکیل دی جائے گی۔ اس کے علاوہ جرگے نے مطالبہ کیا کہ پاک افغان سرحد کو دونوں ممالک کے درمیان بغیر ویزا تجارت کے لیے کھولا جائے۔ جرگے نے خبردار کیا کہ اگر اس پر عمل نہیں کیا گیا تو ڈیورنڈ لائن پر چیک پوسٹیں بند کر دی جائیں گی۔ اس جرگے کی ایک مثبت بات یہ تھی کہ ماضی کے برعکس اس اجتماع میں افغانستان کے جھنڈے لہرانے کی اجازت نہیں دی گئی۔ مزید برآں ماضی کے برعکس اس اجتماع میں فوج مخالف نعرے بازی بھی نہ ہونے کے برابر تھی جس سے ایک زیادہ مصالحانہ رویے کا اظہار ہوا۔
حیران کن طور پر اعلامیے میں فوج کے انخلاء کا ذکر تو کیا گیا ہے لیکن طالبان اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کا نام نہیں لیا گیا۔ اسی طرح اگر بالفرض فوج یہاں سے نکلنے کا فیصلہ کر بھی لے تو سوال یہ ہے کہ پھر یہاں امن و امان کی ذمہ داری کون سنبھالے گا۔ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ اگر فوج خود نہیں نکلی تو لوگ اسے یہاں سے نکلنے پر مجبور کریں گے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ کوئی غیر ملکی فوج ہے جسے بزور قوت یہاں سے نکالا جائے گا کیا فوج ایسی صورتحال میں خاموش تماشائی کا کردار ادا کرے گی، لازمی بات ہے اس صورتحال کا نتیجہ تصادم کی صورت میں نکلے گا جو عرصہ دراز سے وطن دشمن قوتوں کی خواہش اور ایجنڈا ہے۔
پختونخوا میں پانچ روپے فی یونٹ اور قبائلی علاقوں میں مفت بجلی کی فراہمی سے متعلق جو مطالبہ کیا گیا ہے اس کو بھی ایک غیر سنجیدہ مطالبے کے طور پر لیا جا رہا ہے کیونکہ دنیا میں کوئی بھی چیز مفت نہیں ملتی کجا کہ بجلی جیسی بنیادی اور اہم ضرورت کا مفت مطالبہ کیا جائے۔ سوال یہ ہے کہ ایک ہی ملک میں حکومت کسی کو مفت، کسی کو پانچ روپے اور کسی کو ساٹھ روپے فی یونٹ بجلی کیوں کر فراہم کرسکے گی؟ اسی طرح یہ اعلان کہ پاک افغان بارڈر پر پشتونوں کی آمدورفت اور کاروبار بغیر کسی رکاوٹ، پاسپورٹ اور ویزے کے جاری رکھی جائے۔ ایسا نہ تو ممکن ہے اور نہ ہی خاص طور پر موجودہ حالات میں کوئی ایسا کرنے دے گا۔ ایسے میں دہشت گردوں کو پاکستان میں داخلے کی کھلی چھوٹ مل جائے گی اور اس کے علاوہ منشیات سمیت دیگر اسمگلروں کے بھی وارے نیارے ہو جائیں گے۔
آئی ڈی پیز کو جلد از جلد ان کے گھروں تک پہنچایا جائے۔ یہ ایک بالکل جائز مطالبہ ہے، حکومت کا یہ فرض ہے کہ تمام آئی ڈی پیز کو فوراً عزت و احترام کے ساتھ ان کے علاقوں اور گھروں میں آباد کرے اور ان کے تمام نقصانات کا مکمل ازالہ بھی کرنا چاہیے۔ جرگے میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جو پشتون وطن میں دشمنی اور بدامنی کا خاتمہ کرے گی۔ یہ کمیٹی سب سے پہلے کرم ایجنسی جائے گی اور وہاں مسائل حل کرے گی۔ کاش ایسا ہو سکے تو یہ اس قوم کی بہت بڑی خدمت ہوگی جو آئے دن کبھی مسلک پر ، کبھی زمینوں پر ، یا پھر چھوٹی چھوٹی باتوں پر ایک دوسرے کے پورے پورے خاندانوں کو قتل کرتے ہیں۔
پی ٹی ایم کے زیرِ اہتمام منعقد ہونے والے اس جرگے میں لوگوں کی شرکت کا ایک دلچسپ پہلو ان سب کا خود رضاکارانہ طور پر اپنی مدد آپ کے تحت جلسہ گاہ پہنچنا تھا۔ اجتماع کے شرکاء کو نہ تو آنے جانے کے اخراجات دیے گئے اور نہ ہی ان کی منتظمین کی جانب سے قیمے کے نانوں اور بریانی وغیرہ سے تواضع کی گئی۔ اجتماع کی ایک اور اہم بات اس میں پختون نوجوانوں کی بڑی تعداد کے ساتھ ساتھ پختون اور قبائلی روایات کے برعکس خواتین کی شرکت تھی جس پر تادم تحریر ملا جلا ردعمل سامنے آ رہا ہے۔ اس جرگے کی ایک اور منفرد اور قابل ذکر بات مقامی کوکی خیل قبائل کی جانب سے شرکاء کی مسلسل تین روز تک بلا استثناء خدمت اور مہمانداری کا روایتی فریضہ ادا کرنا تھا جس کی مثال موجودہ دور میں نہ تو کوئی سیاسی جماعت اور نہ ہی کوئی قوم اور دوسرا قبیلہ پیش کر سکتا ہے جس پر مقامی قبائل خصوصی مبارک باد کے مستحق ہیں۔
- سٹریس منیجمنٹ کا اسلامی تصور - 02/11/2024
- ایس سی او کانفرنس کی اہمیت - 26/10/2024
- پی ٹی ایم عوامی جرگہ کی سفارشات - 19/10/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).