چھبیسویں آئینی ترمیم اور جمہور
گزشتہ چند ہفتوں سے ملک میں چھبیسویں آئینی ترمیم پر بحث ہو رہی ہے۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں طرف سے حق اور مخالفت میں لفظی گولہ باری جاری ہے لیکن عوام کو نہ اس مسودے کا پتہ ہے اور نہ عوام کو اعتماد میں لیا گیا ہے۔ موجودہ ڈیجیٹل دور میں حکومتیں مجوزہ ترامیم کو انٹرنیٹ کے ذریعے جمہور کے ساتھ شیئر کرتی ہیں۔ تاکہ عوام اپنی آراء دیں۔ کیونکہ جمہوریت میں پارلیمنٹ کا کام عوام کی فلاح و بہبود کے لیے قانون سازی کرنا ہے۔ لیکن پاکستانی جمہور کو کجا، خود ممبران پارلیمنٹ کو بھی پتہ نہیں کہ کیا ترامیم ہونے جا رہی ہے۔
آئین پاکستان کے آرٹیکل 19 اے کے مطابق جمہور کا حق ہے کہ وہ باخبر ہوں آئینی ترمیم کے مسودے کو جمہور کے ساتھ شیئر کیجئے جس طرح اٹھارہویں ترمیم کو عوام کے سامنے پیش کیا گیا تھا اور ایک مہینے کا وقت دیا تھا کہ وہ اپنے تجاویز بھیجیں۔ اسی طرح 26 ویں آئینی ترمیم کے مسودے کو بھی عوام کے سامنے لایا جائے تاکہ جمہور بھی اپنی آراء شامل کریں۔ ایم این ایز کا چاہے جس پارٹی سے بھی تعلق ہو حکومت یا اپوزیشن سے کیا وہ پڑھے سمجھے بغیر اس آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ دیں گے؟ کیا وہ اس آئینی ترمیم کے مسودے پر بحث نہیں کریں گے؟ کیا وہ ان ترامیم میں مزید گنجائش پر بات نہیں کریں گے؟ کیا وہ عوام کے بہتر مفاد میں آئین میں تبدیلی/ ترمیم کا حق نہیں رکھتے؟ آنکھیں بند کر کے آئین میں ترمیم نہیں کی جا سکتی ہے۔ یہ جمہوری ملک ہے۔ پارلیمنٹ کا کام عوام کے بہتر مفاد میں آئین سازی کرنا ہے۔ لیکن کسی طاقت کے اشارے پر آنکھیں بند کر کے ترمیم نہیں کی جا سکتی ہے۔ یہ نہ پاکستان اور نہ ہی جمہوریت کے لئے نیک شگون ہو گا۔
اس مجوزہ ترمیم میں سپریم کورٹ کے اختیارات کو محدود کر کے فیڈرل کورٹ قائم کرنے کی تجویز زیر غور ہے۔ شاید آپ کو یاد ہو گا جب پرویز مشرف جیسے طاقتور حکمران نے ایمرجنسی کے دوران چیف جسٹس ڈوگر کے ساتھ مل کر سپریم کورٹ کے اختیارات محدود کرنے کی کوشش کی تو ساری سیاسی جماعتوں، وکلاء اور جمہوریت پسند عوام نے ان کی کوششوں کو ناکام بنا دیا تھا۔ ایک دفعہ پھر طاقتور اسٹیبلشمنٹ کی خواہش ہے کہ وہ عدلیہ کو مکمل کنٹرول کریں کیونکہ باقی ادارے تو کنٹرول میں ہیں اس فسطائیت کے دور میں عدلیہ کا کردار آزادانہ رہا۔ اس لیے 26 ویں آئینی ترمیم میں آزاد عدلیہ کو ٹارگٹ کیا جا رہا ہے۔ آرٹیکل 186 اے میں ترمیم سے مقدمات کی منتقلی سے صوبائی ہائی کورٹس کی آزادی مجروح ہوگی۔ یہ آزاد عدلیہ کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہوگی۔ جو یقیناً جمہور کو پسند نہیں۔
ان مجوزہ ترامیم سے آئین پاکستان کا بنیادی ڈھانچہ متاثر ہو گا۔ سپریم کورٹ نے کئی موقعوں پر اکثریتی بنیاد پر فیصلہ سنایا ہے کہ پارلیمنٹ کو قانون سازی کی آزادی ہے لیکن آئین کے بنیادی خد و خال کی خلاف ورزی میں کوئی قانون سازی نہیں ہو سکتی۔ آئین پاکستان کے بنیادی خد و خال سے متصادم کوئی ترمیم نہیں لائی جا سکتی ہے۔ جس سے آئین پاکستان کی شکل بدل جائے۔ یہ سوال بار بار جمہور کی طرف سے اٹھایا جا چکا ہے۔ لیکن طاقتور اسٹیبلشمنٹ آئینی ترمیم پر بضد ہے۔ کیا 26 ویں آئینی ترمیم سے عوام کے مسائل حل ہوں گے؟ کیا ان مجوزہ ترامیم میں عوام کی فلاح و بہبود کے حوالے سے کوئی ترمیم شامل ہیں؟ کیا آئینی ترمیم سے عوام کو انصاف کی فراہمی میں مدد مل جائے گی؟ کیا آئینی ترمیم سے نوجوانوں کو روزگار مل جائے گا؟ کیا مجوزہ ترمیم سے عوام کو ان کی دہلیز پر انصاف ملے گا؟ کیا مجوزہ ترمیم سے لاکھوں بچوں کو تعلیم کی سہولت مل جائے گی؟ اگر ان سوالات کا جواب نفی میں ہے تو یہ ترمیم ذاتی مفادات کے حصول اور اقتدار پر قبضہ کی کوشش ہے۔
یہ صرف سیاسی مقاصد کے لیے آئین میں تبدیلی کا پروگرام ہے۔ اگر یہ مقصد نہیں تو پھر کیوں پارلیمنٹ میں آج تک 26 ویں آئینی ترمیم پیش نہ کرسکے۔ جہاں اس پر کم از کم دو ماہ تک بحث و مباحثہ ہو جائے تو سارے عوامل کھل کر سامنے آ جائیں گے۔ پھر چور دروازے سے ترمیم کرنے کا تاثر بھی ختم ہو جائے گا۔
- چھبیسویں آئینی ترمیم اور جمہور - 18/10/2024
- غلام محمد، جسٹس منیر اور جنرل ایوب گٹھ جوڑ - 23/08/2024
- پاکستان فلاحی جمہوری ریاست یا سیکورٹی ریاست؟ - 28/06/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).