سہیل پرواز کی سرگزشت: اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے
سہیل پرواز جنھیں ان کے چاہنے والے آغا جی کے نام سے پکارتے ہیں، کثیر جہت تخلیقی شخصیت کے مالک ہیں۔ وہ بیک وقت شاعر، کالم نگار، ناول نگار، ادیب، ریڈیو، ٹی وی ڈراما نگار اور ٹی وی اداکار کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ وہ کچھ عرصے تک عسکری شعبے سے بھی منسلک رہے، اس دوران انہوں نے کشمیر پر ایک ڈاکیومنٹری سکرپٹ بھی لکھا۔ جسے پاکستانی عوام نے بہت پسند کیا۔
سہیل پرواز کے ناول ’ڈھاکہ میں آؤں گا‘ پر تحقیقی و تنقیدی کام کرنے کے دوران مجھے ان کی دیگر کتب پڑھنے کا موقع ملا۔ جن میں ان کی خودنوشت اور ناول شامل ہیں۔ آج ان کی ایک اہم شگفتہ تخلیق ’ادھر ڈوبے ادھر نکلے‘ کا کچھ تعارف کراتی چلوں، لطیف طنز اور پرلطف مزاح پر مبنی سہیل پرواز صاحب کی یہ چوتھی تصنیف ہے۔ یہ کتاب 2023 ء کے آغاز میں بک کارنر جہلم نے شائع کی۔ اس کتاب میں سہیل پرواز نے اپنی عسکری زندگی کے شب روز بیان کیے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ انھوں نے اپنے ساتھیوں اور ماتحتوں کے ساتھ پیش آنے والے شگفتہ و خوش گوار واقعات کا بھی ذکر بھی کیا ہے۔ مزاح پر مبنی ان خوبصورت یادداشتوں کا عنوان اقبال کے درج ذیل شعر سے مستعار لیا گیا ہے :
جہاں میں اہل ایماں صورت خورشید جیتے ہیں
اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے، اُدھر ڈوبے اِدھر نکلے
کتاب کے عنوان سے پتہ چلتا ہے کہ سول زندگی سے عسکری ماحول میں جانا اور پھر کچھ عرصے بعد واپس اسی زندگی میں آجانا آسان نہیں ہوتا۔ سہیل پرواز نے اس کتاب میں عسکری ماحول کی بہت خوبصورت انداز میں عکس کشی کی ہے۔ پاکستان ملٹری اکیڈمی کے دلچسپ شب و روز بیان کیے ہیں۔ ایسے نوجوان جو پاکستان کی عسکری تربیت گاہ جانے کا خواب دیکھتے ہیں ان کے لیے یہ بہت مفید خودنوشت ہے۔ پاکستانی عسکری تربیت گاہ کی سختیاں، گرمیاں، نیز سینئرز کو جھیلنا آسان نہیں ہے۔
اس کتاب کو 17 ذیلی ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ہر باب میں ایک الگ واقعہ بیان کیا گیا ہے۔ ان سبھی ذیلی ابواب کے درج ذیل عنوان ہیں : ’آرام باش‘ ، ’ہوشیار‘ ، ’سامنے دیکھ‘ ، ’جلدی چل‘ ، ’میدان حشر‘ ، ’فسانے ترے‘ ، ’شاؤٹ یور نمبر صاب‘ ، ’بہت یاد آئیں گے یہ دن‘ ، ’بے بی آف دی بٹالین‘ ، ’لہور لہور اے‘ ، ’درسگاہیں اور واہگہ بارڈر‘ ، ’دوڑے چل‘ ، ’طارق احتشام میں اور کوئٹہ کے گرمے‘ ، ’محمد خان سے سامنا‘ ، ’جس رزق سے پرواز میں آتی ہو کوتاہی‘ ، ’اباؤٹ ٹرن‘ ، ’جیسے تھے‘ ۔
کتاب کے آغاز میں اے سی آر کے نام سے معروف ناول نگار مستنصر حسین تارڑ صاحب نے اپنے دلپذیر الفاظ میں مصنف کے تخلیقی فن کو سراہا ہے۔
ابتدائیہ جو اباؤٹ ٹرن یا پیچھے پھر کے عنوان سے ہے جس میں مصنف نے فوجی اصطلاح پیچھے پھر یا الٹا پھر جو عسکری مارچ کے دوران کمانڈ دینے کے لیے بولی جاتی ہے، اس کے بارے میں قاری کو تفصیلی معلومات فراہم کی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اپنے بارے میں بتایا ہے کہ کس سے متاثر ہو کر انہوں نے اپنی زندگی کی یہ خوشگوار یادیں اکٹھی کیں۔ ان سے پہلے فوج سے تعلق رکھنے والی جن شخصیات نے قلم اٹھایا ہے انہوں نے کیسا لکھا؟ سہیل پرواز نے اپنے تجربات و مشاہدات کو ایک کتاب کی شکل دی ہے۔
’آرام باش‘ میں فوج میں جانے کے اسباب بیان کیے گئے ہیں کہ کیسے انھیں پہلے تین چار ڈراموں میں کام مل گیا تھا انہوں نے اداکاری کی۔ وہ مزید فلم انڈسٹری جوائن کرنے کے خواہش مند تھے مگر قسمت کو کچھ اور منظور تھا اس لیے اپنا بچپن کا شوق پورا نہ کر سکے۔ فوج کا خیال آیا تو فوج میں کمیشن حاصل کرنے کے لیے درخواست دے دی جو کہ قبول کر لی گئی۔ بعد ازاں انہیں انٹرویو اور میڈیکل ٹیسٹ میں بھی کامیاب قرار دیا گیا۔ آئی ایس ایس بی ٹیسٹ کے لیے کوہاٹ روانہ ہوئے۔ ماں نے بہت سی دعاؤں اور پیار سے رخصت کیا۔
’میدان حشر‘ میں عسکری تربیت گاہ میں کیڈٹ کے ساتھ ہونے والے سلوک کو بیان کیا ہے جو کہ اکادمی کی تربیت میں شامل ہے۔ نئے آنے والے کیڈٹ کے ساتھ سینئر کا سلوک، ایک ہفتے تک سینئر سے بچنے کے لیے گلاب جامن اور ملک شیک سے گزارا کرنا، سینئرز کے ہتھے چڑھنا، اور ان کے کہنے کے مطابق ویسا کر کے دکھانا، میس کے لیے راہ ہموار کرنا وغیرہ شامل ہیں۔ وہاں سینئر جو سلوک کرتے ہیں وہ عسکری روایت کا حصہ ہے۔ ایک ہفتے تک کیڈٹ سینئر سے بچتے ہیں پھر ان کو اس ماحول کی عادت ہو جاتی ہے سینئر کے ہتھے چڑھ کر قربانی دیتے ہیں اور میس کا حصہ بن جاتے ہیں۔ کیڈٹ کی پی ٹی، ڈرل سٹاف کے سارے منظر کی تصویر کشی کی گئی ہے۔ اس دوران اگر کیڈٹس کچھ بولتے تو ان کو الگ سزا ہوتی۔ ملٹری اکیڈمی کا نام سننا آسان ہے۔ جنہوں نے کمیشن لیا ہے وہی جانتے ہیں کتنی محنت و مشقت کے بعد ان کو منزل ملتی ہے۔
اس باب میں کیڈٹس کے ساتھ سٹاف کا روا رکھا جانے والا سخت سلوک بیان کیا گیا ہے، جو اکادمی کے اصولوں کے عین مطابق ہے۔
’بہت یاد آئیں گے یہ دن‘ اس میں عسکری تربیت گاہ جو ایک بہترین افسر تیار کر کے بھیجنے والا ادارہ ہے، اس ادارے میں کیڈٹس کو آغاز میں مشکلات کا سامنا ہوتا ہے۔ اس کی وجہ ماحول کا مختلف ہونا ہے۔ وہ آہستہ آہستہ اس ماحول کے عادی ہو جاتے ہیں اور پھر اس زندگی کو حسین سمجھنے لگتے ہیں۔ کیڈٹ ڈرل سے بھی لطف اندوز ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ دیگر تفریحی مقامات جن میں کیفے شاپ، فروٹ شاپ، فوٹوگرافر شاپ، ویک اینڈ پر ایبٹ آباد جانا وغیرہ کیڈٹس کے لیے خوبصورت لمحات ہیں۔ سینئرز کے ساتھ بیٹھ کر فلم دیکھنا کوئی آسان کام نہیں ہوتا۔ ڈرل سٹاف اچھی کارکردگی نہ دکھانے پر خوب سناتے ہیں یہ اکادمی کے قوانین ہی ہیں جو سارے کیڈٹس کو سنبھال لیتے ہیں اور ان کو زندگی کی ساری حقیقتوں سے آگاہ کرتے ہیں۔
’لہور، لہور اے‘ اس باب میں بہت سے چھوٹے چھوٹے واقعات کو بہت ہی لطیف پیرائے میں بیان کیا ہے چند واقعات کو پڑھ کر قاری کا زوردار قہقہہ بلند ہوتا ہے یہ مصنف کا فن ہے ایسا لگتا ہے قاری خود وہاں موجود ہے سب دیکھ رہا ہے۔ اس میں ایک واقعہ ڈیوٹی افسر کا ہے جو کال سنتا ہے اور پھر اس کو لاگ بک میں درج کرتا ہے وہ کال اٹینڈ کرنے کے بجائے سوتا رہتا ہے اور لاگ بک ہمیشہ خالی ہوتی رہتی ہے۔ ایک دن خفیہ چھاپہ پڑنے پر اس کی حالت غیر ہو جاتی ہے کیوں کہ وہ سو جاتا ہے۔
ایک اور واقعہ جس میں ایک صاحب نے بتایا ان کا ایڈجوٹنٹ ان کو ڈیوٹی آفس چھوڑ کر کسی کام سے گیا اور کسی کی کال آ گئی کال کرنے والے نے پوچھا تمہارا سی او دفتر میں موجود ہے۔ جواب دیا نہیں وہ باہر کسی کام سے گئے ہیں۔ دوبارہ کال کرنے پر جواب دیا نہیں آیا۔ میجر صاحب نے کہا اس کو ڈھونڈو اور کہو کال کرے اور نقوی سے بات کرے۔ ڈیوٹی افسر کا رویہ دیکھ کر میجر نقوی پوچھتے ہیں :
”Do you know who I am?
No, you tell me.
I am your GOC maj Gen Naqvi.
اس واقعے کے بعد سی او نے میجر صاحب سے معذرت کرلی۔ اس باب میں اسیرانِ جنگ کی واپسی، ان کے استقبال کے لیے کیے گئے اقدامات کا ذکر اور واہگہ بارڈر کا ذکر کیا گیا ہے۔ کیپٹن ظہیر کے ساتھ گزارے ہوئے خوبصورت لمحات کا احوال، صوبیدار صاحب کا واقعہ، کیڈٹ فیاض کا پر لطف واقعہ۔ اس باب میں بہت سے یادگار واقعات ہیں، قاری ان واقعات کو پڑھ کر مسکرائے بغیر آگے نہیں جا سکتا۔
’درسگاہیں اور واہگہ بارڈر‘ اس باب میں 71 ءکی جنگ بندی کے بعد واہگہ بارڈر پر آنے والے طلبہ و طالبات کا واہگہ بارڈر دیکھنا اور جنگ کے دوران دونوں طرف سے کیے جانے والے حملوں کے متعلق معلومات لینا، کیپٹن کا لفٹین سے مذاق، کیپٹن میرباز کا لطیف سانحہ، اسلامی سربراہی کانفرنس کا احوال، جنرل افسر کمانڈنگ کا دورہ، یونٹ کی لاہور سے چھمب جوڑیاں منتقلی وغیرہ جیسے لطیف اور خوشگوار واقعات شامل ہیں۔
سینیئر لفٹین صاحب کے بارے میں کافی لڑکیوں سے دوستی کا انکشاف ہوا۔ کیپٹن صاحب نے ان کے ساتھ چھوٹا سا مذاق کرنے کا سوچا اور ان کی کزن سعدیہ بن کر ڈیٹ فکس کی۔ وقت اور جگہ کا تعین کرتے ہوئے گاڑی پر آنے کا کہا۔ جب گاڑی نہ ملی تو لفٹین صاحب سعدیہ کو نہ مل پائے اور بعد میں لفٹین صاحب کو معلوم ہوا کہ ان کے ساتھ ہاتھ ہوا ہے۔
ایک اور دلچسپ واقعہ کیپٹن میر باز کا ہے۔ کیپٹن میر باز کی معصومیت کی خوبصورت لفظوں میں تصویر کشی کی گئی ہے۔ کیپٹن میر باز نے میجر اعجاز شاہ سے ملاقات کرنی تھی مگر میر باز مقررہ وقت سے لیٹ تھے۔ میجر صاحب کو کال کر کے سارا احوال بتایا جس پر میجر صاحب خوب ہنسے کیپٹن میر باز کی کار کا ایکسیڈنٹ ہوا اور وہ بھی کرنل صاحب کی گاڑی کے ساتھ اور وہیں پھنسنے کی وجہ میجر صاحب کو بتائی۔ یہاں کیپٹن میر باز کی معصومیت کو بہت ہی عمدہ اور لطیف پیرائے میں بیان کیا گیا ہے۔ اس باب میں اسلامی سربراہی کانفرنس کا احوال، اس کانفرنس میں آنے والے سربراہان کو عسکری محافظوں نے سلامی دی۔ اس کانفرنس میں شہید یاسر عرفات، جنرل معمر قذافی اور عبد الرحمن بن یحییٰ اور دیگر اسلامی سربراہان شامل تھے۔ سہیل پرواز کو بھی ان سے مصافحہ کرنے کا شرف حاصل ہوا۔
’محمد خان سے سامنا‘ اس ذیلی باب میں ضیاء الرحمن کے مارشل لاء کے دنوں کا ذکر ہے۔ مارشل لاء کے دوران ملٹری پولیس نے پنجاب پولیس کی جگہ فرائض سر انجام دیے۔ مارشل لاء کے دنوں میں عام سول قوانین معطل کر دیے جاتے ہیں اور تمام اداروں میں آرمی ہی کام کرتی ہے۔ ملٹری پولیس میں نظم و ضبط کا عنصر ہوتا ہے۔ مصنف اس اسٹیشن پر کام کر چکے ہیں۔ انہوں نے یہاں آ کر سب سے پہلے ملٹری پولیس کو نئے سرے سے منظم کیا۔ زیادہ تعداد میں ملتان میں آنے والے جوانوں کو واپس بھیج دیا۔ اس باب میں رانگڑ افسروں کی میٹھی سی زبان کے جملے بھی درج ہیں۔ رانگڑ افسروں کی زبان نہ سمجھنے والوں کو وہ بے ادب لگتے ہیں لیکن جو ان کی زبان اور ان کے لہجے سے واقف ہیں ان کو بخوبی اندازہ ہوتا ہے وہ بے ادب نہیں ہیں۔ ایک رانگڑ افسر کا مکالمہ ملاحظہ کریں :
”صاب تنے تین پھول لگائے ہیں نا ہلکی سی جبان ہلا کر نجر علی کو پھٹیک لگا دیوے ہو یو کبھی نہیں پوچھیا کہ نجر علی تن رسالدار صاب نے تو کوئی نہ ڈٹیل کیا۔“
یہاں انہوں نے جنرل ضیاء الرحمن کے دورہ ملتان کا ذکر کرتے ہوئے ان کے ساتھ پیش آنے والے ایک واقعے کو بیان کیا جو جنرل صاحب نے خود سنایا۔
کہ ایک بار جنرل صاحب ڈویژن ہیڈ کوارٹر سے ائرپورٹ کی طرف نکلے تو راستے میں ایک رانگڑ نوجوان سے کہا کہ آپ نے مجھے سلام نہیں کیا اس نے اپنے مخصوص لہجے میں کہا کہ آپ کو سلیوٹ کیا ہے۔ اور وہ آپ کی گاڑی پر لگے اس پرچم کو دیکھ کر کیا تھا۔
مارشل لاء کے دوران عسکری جوان ملک کے سول اداروں میں جا کر وہاں کرپشن اور خرابیاں نوٹ کرتے ہیں۔ کہیں چھاپے مارتے ہیں۔ سہیل پرواز نے پریزیڈنٹ ملٹری کوٹ کی ذمہ داریاں اٹھائیں۔ اس عرصے میں کسی قاتل کو پھانسی کی سزا دی گئی، ریپ کے مجرمان کی سزا، جرم و سزا کا ذکر، موت کو قریب سے دیکھ کر پھانسی گھاٹ جانے والوں کی دلی کیفیات، ان کے بعد گھر والوں پر گزرنے والے اذیت کے لمحات، معصوم اور غریب ایسے مجرم بھی جن کو نامزد کیا جاتا اور ان کو پھانسی گھاٹ اتارا جاتا۔
ان سب کربناک واقعات کو پڑھ کر نظام عدل پر ماتم کرنے کو دل کرتا ہے۔ اس باب میں ملک محمد خان آف دھرنال سے ملاقات کا واقعہ بیان کیا گیا ہے۔ ملتان سینٹرل جیل میں ملٹری پولیس کے چھاپے کے دوران سہیل پرواز کی نظر ایک جانی پہچانی شخصیت پر پڑی۔ تحقیق کرنے سے معلوم ہوا کہ ملک محمد خان ہیں۔ ملک محمد خان ملتان جیل میں عمر قید کاٹ رہے تھے۔ ملک محمد خان سے سہیل پرواز کی ملاقات اور ان کے درمیان ہونے والے مکالمے سے قاری کو معلوم ہوتا ہے کہ ملک صاحب کس جرم کی سزا کاٹ رہے ہیں۔ ان کی شخصیت کو دیکھ کر ان کو مجرم ماننا بہت مشکل ہے۔
ملک محمد خان ہمارے معاشرے کا وہ کردار ہے جن کی اچھائی ہی ان کی دشمن بن جاتی ہے اور نا کردہ گناہوں کی سزا کاٹنی پڑتی ہے۔ جب معاشرے میں ظلم بڑھتا ہے تو ان مظلوموں کی امید اور ظالموں کے لیے قہر بن کر آنے والا مظلوموں کا مسیحا باغی ہوجاتا ہے۔ ہمارے نام نہاد قانون میں ظالموں پر قہر بن کر ٹوٹنے والا باغی اور غدار کہلاتا ہے۔ ملک محمد خان کو وادی سکیسر (وادی سکیسر ”جسے وادی سون سکیسر بھی کہا جاتا ہے۔ یہ پاکستان کی بہت قدیم اور بے حد خوبصورت وادی ہے۔ یہ ضلع خوشاب کی تحصیل ہے جو کہ سکیسر پہاڑ کی چوٹی پر واقع ہے۔ ) کا سلطان مانا جاتا تھا۔ ملک صاحب پر جھوٹے مقدمے چلا کر ان کو سزا سنائی جاتی۔ انہوں نے اس بے جا دشمنی سے تنگ آ کر غریب لوگوں کی مفلسی اور بے بسی کو دیکھتے ہوئے ہتھیار اٹھا لیے تب ان کو اس جرم کی پاداش میں عمر قید کی سزا سنا دی گئی۔
سہیل پرواز کے الفاظ میں ذرا ملک محمد خان کی شخصیت ملاحظہ کیجیے :
”ملک محمد خان کی دلکش اور مشفق شخصیت دیکھ کر انہیں کبھی بھی محمد خان ڈاکو کہنے کو دل نہیں کرتا۔“
افسوس تو اس بات کا ہے کہ حکومتِ وقت اور ذرائع ابلاغ نے ان کو بہت ہی بھیانک کردار بنا کر پیش کیا۔ عوام کے سامنے انہیں بہت بڑا معاشرتی ناسور بنا کر دکھایا اور جب وہ منظر سے غائب ہوئے اور لوگوں تک رسائی ناممکن ہوئی تو بیوروکریسی اور پولیس انہی کے بنائے ہوئے اصولوں کو اپنے نام سے پیش کرنے لگے۔ ملک محمد خان کے کردار میں ان کرداروں کی جھلک نمایاں ہے جو پاکستان کی خاطر اپنی ذات کو پس پشت ڈال کر خدمات سر انجام دینے والے ایسے لوگ ہیں جو کہ عوامی ہیرو کہلائے اور پولیس، عدالتوں اور بیوروکریسی کی نظر میں ناقابل رحم شخصیت قرار پائے۔
وادی سکیسر اور اس کے گرد و نواح کے لوگ ملک محمد خان کی وجہ سے بہت سکون سے زندگی بسر کرنے لگے تھے۔ ان لوگوں کے لیے تو کوئی فرشتہ آسمان سے اتر آیا تھا۔ جب تک اس وادی کی حاکمیت ملک محمد خان کے ہاتھوں میں تھی وہاں بے جا قتل و غارت، ریپ، زنا اور عورتوں کے اغوا میں کمی یا یوں کہیں کہ سب جرائم جڑ سے ہی ختم ہو گئے تھے، مگر چنگیزی روپ رکھنے والوں کو یہ کہاں منظور تھا۔ انہوں نے ملک صاحب کو ہی قید تنہائی میں رہنے پر مجبور کر دیا۔ ملک صاحب نے پھر بھی اپنی روایات کی پاسداری کرتے ہوئے جیل حکام کے ساتھ ہر ممکن تعاون کیا اور ان کو تنگ کرنے کی بجائے جیل کے اصول و ضوابط پر عمل کیا۔
ملک صاحب ملٹری پولیس کے سربراہ سہیل پرواز سے ملاقات کے دوران بھی جیل سپریٹنڈنٹ کی اجازت کے بغیر کرسی پر نہ بیٹھے۔ ملک محمد خان کے بارے میں سب جاننے کے بعد قاری کے ذہن میں ایک سوال آتا ہے اگر ملک صاحب مجرم تھے تو وہ اصول و قوانین کو کیوں مانتے تھے؟ جیل حکام کے ساتھ اچھا رویہ کیوں اختیار کرتے تھے؟ اور سب سے بڑا سوال اگر ملک محمد خان قاتل اور دوسرے جرائم میں ملوث تھے تو عدالت نے ان کو پھانسی کی سزا کیوں نہ دی؟ ملک محمد خان لوگوں کے لیے خطرناک تھے تو بیوروکریسی ان کے خیالات و قوانین پر عمل کیوں کرتی رہی؟
ملک صاحب اپنی زندگی کے ایام صبر و شکر کے ساتھ گزار کر بالآخر 1995 ء میں دار فانی سے کوچ کر گئے۔ اس باب میں کوئٹہ میں جنرل اسلم بیگ کا دورہ، اکبر بگٹی کے ساتھ افطار پارٹی میں کوئٹہ میں ملاقات، کوئٹہ میں اپنی گھریلو زندگی کے خوبصورت اور خوشگوار دن، سٹاف کالج کے دلچسپ اور پر لطف قصے، چمن کی خوبصورتی کا ذکر عمدہ الفاظ میں کیا ہے۔
’جس رزق سے پرواز میں آتی ہو کوتاہی‘ یہ کتاب کا پندرہواں ذیلی باب ہے۔ اس میں مصنف نے کشمیر میں گزرے دنوں کا ذکر کیا ہے۔ جب انہوں نے آئی ایس پی آر میں ملازمت کے دوران کشمیر پر کام کیا تھا۔ کس طرح کشمیر میں رہ کر انہوں نے جن موضوعات پر کام کیا ان کا ذکر ہے۔ برطانوی شہزادی لیڈی ڈیانا نے پاکستان کا دورہ کیا جس کی کوریج مصنف اور ان کے ساتھیوں نے کی۔ اس دورے کا مختصر احوال بیان کیا ہے۔
سہیل پرواز نے اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہونے کے لیے ریٹائرمنٹ کی درخواست دی جو کافی عرصے بعد قبول کر لی گئی۔ اس کتاب کے آخری دو ابواب میں عسکری زندگی کو خیرآباد کہنے سے متعلق ہے۔
اس سرگزشت کا اسلوب بہت عمدہ سادہ اور رواں ہے۔ اس میں پنجابی، پشتو، روہتکی اور انگریزی زبان کے الفاظ بھی استعمال کیے گئے ہیں۔ سرگزشت کا پلاٹ بھی عمدہ ہے اگرچہ واقعات ایک دوسرے سے الگ ہیں ہر باب میں الگ الگ تین چار واقعات ہیں مگر ان کو بہت مہارت کے ساتھ آپس میں ملایا گیا ہے۔ سہیل پرواز عمدہ کہانی کار ہیں۔ ان کی یہ سرگزشت جو خود تخلیقی اسلوب پر مبنی ہے، زندگی کے یادگار، خوبصورت اور دلچسپ واقعات پر مبنی ہے، جو کسی بھی شخص کی زندگی کا انمول خزانہ ہوتی ہیں۔
- نادار لوگ: معاشرتی استحصال کا نوحہ - 04/02/2025
- اسد محمد خان کے افسانوں میں نو آبادیاتی جبر اور اس کے خلاف ثقافتی ردعمل - 02/02/2025
- سہیل پرواز کی سرگزشت: اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے - 25/10/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).