واشنگٹن کے راستے اسلام آباد پہنچنے کی خواہش


پاکستان پیپلز پارٹی کے معاون چیئرمین اور ملک کے سابق صدر آصف علی زرداری نے امریکہ کے ساتھ تعاون جاری رکھنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے امید ظاہر کی ہے کہ امریکہ پاکستانی معیشت کی ترقی میں کردار ادا کرتا رہے گا۔ انہوں نے ان خیالات کا اظہار فوربس میگزین میں لکھے گئے ایک مضمون میں کیا ہے جس میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیوں اور نقصان کا ذکر بھی ہے۔ انہوں نے جتایا ہے کہ پاکستان اور امریکہ نے مل کر اس خطے میں القاعدہ کا نیٹ ورک تباہ کیا ہے اور دہشت گردی کے خلاف قابل ذکر کامیابی حاصل کی ہے تاہم ان کا خیال ہے کہ امریکی کانگریس کی طرف سے کولیشن سپورٹ فنڈ سے ہونے والی ادائیگیوں میں رکاوٹ ڈالنے اور پاکستان کو ایف 16 طیارے فروخت کرنے کے معاہدہ کو پورا نہ کرکے اس خطے میں انتہا پسند عناصر کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے۔ سابق صدر نے لکھا ہے کہ پاکستانی عوام نے طویل عرصہ تک اس جنگ کا مقابلہ کیا ہے لیکن امریکی رویہ سے انہیں احساس ہوتا ہے کہ ان کی قربانیوں کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ زرداری کے مطابق یہ ایک خطرناک صورتحال ہے۔ کیونکہ نان اسٹریٹ ایکٹرز کے خلاف جنگ میں عوام کا تعاون اور شرکت بے حد ضروری ہے۔ اس مضمون میں آصف زرداری نے نواز شریف کے دور حکومت میں شفافیت اور جمہوری اقدار کے کمزور ہونے کا ذکر کرتے ہوئے بتایا ہے کہ صرف پیپلز پارٹی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مناسب سول قیادت فراہم کر سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ نظریوں کی جنگ ہے اور اس میں سول اور فوجی قیادت کو ایک حکمت عملی کے تحت کام کرنے کی ضرورت ہے۔

سابق صدر نے ان خیالات کا اظہار ایک امریکی جریدہ کے مضمون میں کیا ہے اور اس مقصد کےلئے کسی انٹرویو یا بیان کا سہارا نہیں لیا ۔ اس لئے سمجھا جا سکتا ہے کہ وہ ان الفاظ کے ذریعے براہ راست امریکہ میں برسر اقتدار آنے والے ڈونلڈ ٹرمپ سے مخاطب ہیں۔ وہ اس خواہش کا اظہار کر رہے ہیں کہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں زیرو بم سے قطع نظر نئی امریکی حکومت کو پاکستان کے ساتھ تعاون میں کمی نہیں کرنی چاہئے۔ یہ بات بھی دلچسپی سے نوٹ کی جائے گی کہ آصف زرداری کا یہ مضمون حسین حقانی کے واشنگٹن پوسٹ میں مضمون کی اشاعت کے چند روز بعد سامنے آیا ہے۔ اگرچہ امریکہ میں حسین حقانی کے مضمون کو خاص اہمیت حاصل نہیں ہوئی لیکن پاکستان میں اس پر مباحث کا سلسلہ جاری ہے۔ وزیر دفاع خواجہ آصف حسین حقانی کے ’’انکشافات‘‘ کی تحقیقات کےلئے پارلیمانی کمیشن بنانے کا مطالبہ کر چکے ہیں اور سینیٹ آئندہ ہفتے کے دوران اس معاملہ پر بحث کرے گی۔ اس مضمون میں دیگر باتوں کے علاوہ حسین حقانی نے یہ واضح کیا تھا کہ پیپلز پارٹی کی حکومت نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سرکاری پالیسی تبدیل کی تھی اور امریکی ضرورتیں پوری کرنے کےلئے فراخدلی سے امریکی اہلکاروں کو ویزے جاری کئے تھے۔ یہ ویزے حاصل کرنے والوں میں امریکی انٹیلی جنس کے اہلکار بھی شامل تھے جن کے بارے میں حسین حقانی کہتے ہیں کہ ان کی سرگرمیوں کی وجہ سے ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کا سراغ لگا کر اسے ہلاک کیا گیا تھا۔ یہ امریکی کارروائی پاکستانی انٹیلی جنس کو اطلاعات فراہم کئے بغیر کی گئی تھی۔ اس لئے اسے شدید تنقید کا سامنا بھی ہے۔ البتہ حسین حقانی کا کہنا ہے کہ امریکی اہلکاروں کی سرگرمیوں اور مقاصد کے بارے میں انہیں بھی بے خبر رکھا گیا تھا۔ اس حساس مضمون کی اشاعت کے بعد اب آصف علی زرداری کا مضمون پاک امریکہ اور امریکہ پیپلز پارٹی تعاون کی امید اور خواہش کا اظہار ہے۔

پاکستان میں یہ تاثر کسی ثبوت کے بغیر راسخ کیا گیا ہے کہ پاکستان کے سیاسی معاملات اور حکومتوں کی اکھاڑ پچھاڑ میں امریکی حکام اور اداروں کو عمل دخل رہتا ہے۔ اس لئے ملک کے سیاستدان کسی نہ کسی سطح پر امریکی حکومتوں کے ساتھ تعلقات استوار کرنا چاہتے ہیں تاکہ انہیں اقتدار تک پہنچنے میں مدد فراہم ہو سکے۔ حسین حقانی کے متنازعہ مضمون کے بعد پیپلز پارٹی کے معاون چیئرمین کا ایسا مضمون جس میں پارٹی خدمات اور امریکہ کے ساتھ مشترکہ مقاصد پر زور دیتے ہوئے یقین دلایا گیا ہے کہ ان کی پارٹی پاکستان میں انتہا پسندی کے خاتمہ کےلئے بہترین اور قابل اعتبار قیادت فراہم کر سکتی ہے، زرداری کی ایک بار پھر برسر اقتدار آنے کی حکمت عملی کا حصہ سمجھی جا سکتی ہے۔ لیکن اس پیشکش سے اس تاثر کو تقویت بھی ملے گی کہ پیپلز پارٹی امریکی مدد سے ملک میں برسر اقتدار آنے کی کوشش کر رہی ہے۔ ماضی میں بھی پارٹی کو اس حوالے سے الزامات کا سامنا رہا ہے۔ حسین حقانی نے بطور سفیر جو خدمات سرانجام دی ہیں، ان میں ایک یہ بھی ہے کہ انہوں نے امریکہ کو یقین دلایا تھا کہ پیپلز پارٹی فوج کے مقابلے میں زیادہ قابل اعتبار ہے۔ میمو کمیشن کا تنازعہ بھی اسی الزام کے گرد گھومتا تھا کہ آصف زرداری نے حسین حقانی کے ذریعے سیاسی معاملات میں فوج کی مداخلت کے خلاف امریکی امداد حاصل کرنے کی کوشش کی تھی۔

اس پس منظر اور علاقائی سیاسی معاملات میں امریکی اثر و رسوخ کے قصوں سے قطع نظر حالیہ برسوں میں صورتحال تیزی سے تبدیل ہوئی ہے۔ امریکہ بدستور افغانستان کی جنگ میں پھنسا ہوا ہے لیکن ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت نے ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کیا کہ وہ فیصلہ کن جنگ کےلئے مزید فوجی دستے افغانستان بھیجیں گے یا وہاں سے اپنی فوجوں کو واپس بلانے میں عافیت سمجھیں گے۔ ٹرمپ حکومت میں ایسے اعلیٰ عہدیدار موجود ہیں جو افغانستان میں فوجوں کے اضافہ کی بات کر رہے ہیں لیکن ابھی تک ٹرمپ نے اس حوالہ سے کوئی اشارہ نہیں دیا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے شمالی کوریا کے خلاف محاذ آرائی کا آغاز کیا ہے اور نئے امریکی وزیر خارجہ نے اشارہ دیا ہے کہ اس مقصد کےلئے فوجی قوت کا استعمال بھی کیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ چین کا تعاون حاصل کرنے کی کوشش بھی کی جا رہی ہے۔ دوسری طرف مشرق وسطیٰ میں داعش کے خلاف فیصلہ کن جنگ کےلئے امریکہ کو مزید وسائل صرف کرنا پڑیں گے۔ اگرچہ یہ بات غیر واضح ہے کہ امریکہ کس حد تک وہاں زمینی فوج روانہ کرے گا۔ البتہ عراق میں امریکی فوجی موجودگی میں اضافہ ہوگا۔ اس کی دوسری بڑی وجہ ایران کا اثر و رسوخ بھی ہے۔ سعودی عرب عراق اور شام میں ایرانی اثر کو ختم کروانے کےلئے امریکی تعاون کا خواہشمند ہے۔ نائب ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے حال ہی میں صدر ٹرمپ سے ملاقات میں اس خواہش کا اظہار بھی کیا ہے۔ البتہ امریکہ کےلئے ایران دشمنی میں ایک بار پھر عراق میں فوجی لحاظ سے ملوث ہونا آسان فیصلہ نہیں ہوگا۔ دوسری طرف اگر داعش کو عراق اور شام میں مکمل شکست ہوتی ہے اور اس کے رضا کار جہادی افغانستان کا رخ کرتے ہیں تو صورتحال یکسر تبدیل ہو سکتی ہے۔ صدر ٹرمپ بہرصورت داعش کا مکمل خاتمہ کرنے کا عہد کر چکے ہیں۔ اس لئے امریکہ ان کا پیچھا کرنے کےلئے افغانستان تک جائے گا۔ اس صورت میں افغانستان کی صورتحال یکسر تبدیل ہو سکتی ہے۔ امریکہ وہاں اپنی فوجی قوت میں بھی اضافہ کرے گا، پاکستان پر بھی دباؤ بڑھے گا اور یہ خطہ ایک نئی عسکری کشمکش کا مرکز بن سکتا ہے۔ ایسی صورت میں پاکستان ایک بار پھر امریکہ کےلئے اہمیت اختیار کر سکتا ہے۔

اس متوقع انتہائی صورتحال سے قطع نظر برصغیر میں امریکہ کی اسٹریٹجک توجہ کا مرکز بھارت ہے۔ پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف جنگ کی وجہ سے اگرچہ امریکہ کے قریبی حلیف کی حیثیت حاصل ہے لیکن دونوں ملکوں کا تعلق طویل عرصہ سے بداعتمادی اور کشیدگی کا شکار رہا ہے۔ اس صورتحال میں فوجی تبدیلی کا امکان نہیں ہے۔ بھارت بھی بہرصورت ایک طرف افغانستان میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے اور قائم رکھنے کی جہدوجہد کرے گا تو دوسری طرف امریکہ کو پاکستان سے دور کرنے اور ان کے درمیان بداعتمادی میں اضافہ کرنے کی کوشش بھی کرے گا۔ امریکی کانگریس میں حال ہی میں پاکستان کو دہشت گردی کا سرپرست قرار دینے کی قرارداد پیش کی گئی ہے۔ اگرچہ فی الوقت ایسی کوششیں بار آور نہیں ہو سکیں گی لیکن بھارت کے دوست اور پاکستان کے دشمن عناصر واشنگٹن میں پاکستانی مفادات کو زک پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیں گے۔ کیا اس صورت میں پاکستان میں پیپلز پارٹی کی حکومت امریکہ اور پاکستان کے تعلقات کے حوالے سے ایک مثبت پیش رفت ہوگی۔ اس سوال کا مثبت جواب دینا آسان نہیں ہے۔ اگرچہ آصف زرداری کے مضمون میں یہی تاثر قائم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

پاکستان میں اگرچہ اگلے برس انتخابات ہونے والے ہیں اور پاناما کیس کی وجہ سے ملک کے مستقبل کی سیاسی صورتحال بدستور غیر واضح ہے لیکن اس بات کا امکان بہرحال نہیں ہے کہ پیپلز پارٹی مرکز میں حکومت بنانے کےلئے قابل ذکر نمائندگی حاصل کر سکتی ہے۔ تاہم آصف زرداری بھی اس مشکل سے آگاہ ہیں۔ اسی لئے انہوں نے بلاول بھٹو زرداری کی رابطہ مہم اور پیپلز پارٹی کے تنظیمی احیا کی کوششوں کو معطل کرواتے ہوئے سیاسی رابطوں اور گٹھ جوڑ کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ ان کی خواہش ہے کہ پیپلز پارٹی سندھ میں غیر متنازعہ نمائندہ پارٹی بن سکے۔ کراچی میں ایم کیو ایم کی توڑ پھوڑ کے بعد جو سیاسی خلا پیدا ہو رہا ہے، آصف زرداری اس میں پارٹی کےلئے جگہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ پنجاب اور دیگر صوبوں میں بھی وہ طاقتور سیاسی گروہوں اور برادریوں کے ساتھ رابطے بحال کرکے پیپلز پارٹی کی قوت میں اضافہ کی امید رکھتے ہیں۔ ان کوششوں کے نتیجہ میں اگر پارٹی قومی اسمبلی کی ایک سو کے لگ بھگ نششتیں حاصل کر لیتی ہے تو وہ آسانی سے دیگر پارٹیوں کو ساتھ ملا کر مخلوط حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہوں گے۔ ایسی صورت میں امریکہ سے دوستی پیپلز پارٹی کے حق میں استعمال کی جا سکے گی۔ اس طرح فوج کی حمایت حاصل کرنا بھی آسان ہو جائے گا۔ تاہم فی الوقت یہ سیاسی صورتحال ایک خواب کی حیثیت رکھتی ہے۔ پاناما کیس میں اگر نواز شریف معزول نہ ہوئے تو وہ 2018 کے انتخابات میں اپنی پارٹی کی کامیابی کےلئے ہر ممکن کوشش کریں گے۔ سیاسی مبصرین 2018 میں ایک بار پھر مسلم لیگ (ن) کی کامیابی کے امکان کو مسترد نہیں کرتے۔

اس کے علاوہ سی پیک میں پیشرفت ، چین کے ساتھ پاکستانی حکومت اور فوج کے بڑھتے ہوئے تعلقات اور پاکستان کی دفاعی ضروریات پوری کرنے میں چین کے کردار کی وجہ سے بھی اب پاکستان کی حد تک امریکہ کی حیثیت ماضی کے مقابلے میں قطعی مختلف ہوگی۔ عالمی سفارت کاری میں بھی چین اس وقت پاکستان کا سب سے قابل اعتماد دوست ہے اور مشکل معاملات میں کھل کر اس کا ساتھ دیتا ہے۔ دوسری طرف امریکہ اگر بھارت کے ساتھ تعلقات میں اضافہ کرتا ہے اور بحر جنوبی چین اور بحر ہند میں چین کےلئے مشکلات میں اضافہ کی کوششیں کرتا ہے تو پاکستان کےلئے تادیر امریکہ کے ساتھ تعلقات کی دیرینہ نوعیت برقرار رکھنا ممکن نہیں ہوگا۔ خاص طور سے بھارت کی موجودہ حکومت مقبوضہ کشمیر کے بارے میں سخت رویہ رکھتی ہے اور پاکستان کے ساتھ مسلسل مذاکرات سے انکار کر رہی ہے۔ صدر ٹرمپ اگر بھارت کو پاکستان کے ساتھ اپنا رویہ تبدیل کرنے اور ان دو ہمسایہ ملکوں کے درمیان مصالحت کےلئے کوئی کردار ادا کرنے میں ناکام رہتے ہیں تو پاکستان اور امریکہ کے درمیان فاصلہ میں اضافہ ہوگا۔ پاکستان میں یہ رائے موجود ہے کہ امریکہ کی بھارت کے ساتھ دوستی اور پاکستان پر الزام تراشی کے رویہ کی وجہ سے پاکستان کو بھی امریکہ کے حوالے سے اپنی پالیسی پر نظر ثانی کرنی چاہئے اور درپیش چیلنجز کے پیش نظر نئے راستے تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔

ان حالات میں پاکستان میں روشن خیال سیاست کی علمبردار پارٹی اگر امریکہ سے دوستی ہی کو کامیابی کا زینہ سمجھتی ہے اور امریکی قیادت کے تعاون سے ملک میں سیاسی سہولت حاصل کرنا چاہتی ہے تو ایک طرف ملک کے روشن خیال طبقہ کو مایوسی ہوگی تو دوسری طرف یہ حکمت عملی معروضی حالات میں ناقابل عمل اور فرسودہ بھی ثابت ہو سکتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali