پھٹیچر کمنٹ رپورٹ کرنے والی خاتوں صحافی عفت رضوی کا تازہ موقف


چھ مارچ کو بنی گالہ میں ایک پریس کانفرنس کے دوران عمران خان کی طرف سے پی ایس ایل کے غیر ملکی کھلاڑیوں کے بارے میں نازیبا ریمارکس رپورٹ کرنے والی خاتوں صحافی عفت حسن رضوی کا تازہ موقف سامنے آ گیا ہے۔

واضح رہے کہ عمران خان نے نو مارچ کو بنی گالہ میں واقع چیئرمین سیکرٹریٹ میں عفت حسن رضوی سے ملاقات کی تھے۔ ملاقات عمران خان کی خواہش پر کی گئی۔ اس موقع پر عمران خان نے کہا کہ خبر دینا صحافی کا کام ہے۔ کسی صورت بھی آزادی صحافت پر قدغن برادشت نہیں کی جائے گی۔ ملاقات کے دوران نعیم الحق کا کہنا تھا کہ  6مارچ کو صحافیوں سے ہونے والی ملاقات آف دا ریکارڈ نہیں تھی اور نہ ہی عمران خان نے اس کی تردید کی ۔ اس موقع پر عمران خان نے سپریم کورٹ کی رپورٹر اور خاتون بلاگر عفت حسن رضوی کی رپورٹنگ کی تعریف بھی کی۔ چیئرمین تحریک انصاف نے اظہار رائے کے بارے میں عفت حسن رضوی کے خیالات کو سراہا۔ چیئرمین پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف میڈیا کی مکمل آزادی پر یقین رکھتی ہے۔ کسی صحافی کو ہراساں کرنے یا میڈیا پر کلی یا جزوی قدغن کی کسی طور گنجائش نہیں، کسی بھی صحافی کی زباں بندی کی ہر کوشش قابل مذمت ہے، کٹھن اور نامساعد حالات میں حقائق کی کھوج کرنے والے اہل قلم تحسین و تعاون کے مستحق ہیں، ملک بھر میں صحافت کی آزادی اور معیار بہتر بنانے کیلئے میری جماعت ہر ممکن تعاون پیش کرنے کو تیار ہے۔

اس ملاقات کے آٹھ روز بعد عفت حسن رضوی نے ایک بار پھر اپنا موقف پیش کیا ہے۔ وہ اپنی تازہ تحریر میں لکھتی ہیں ۔۔۔ 6 مارچ 2017 کو میں پریس ایسوسی ایشن آف پاکستان کے کچھ دیگر ارکان کے ہمراہ بنی گالہ گئی جہاں پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے ہمیں مدعو کیا تھا ۔ عمران خان نے وہاں ہمارے ساتھ اپنے میڈیا ایڈوائزرز کی موجودگی میں پاناما لیکس الیکشن کمیشن آف پاکستان پی ایس فائنل اور اگلے الیکشن کے حوالے سے بات چیت کی۔

یہ میڈیا گفتگو پی ٹی آئی چئیرمین سیکرٹریٹ میں ہوئی اور موجود میڈیا نمائندوں نے اسے نوٹ کیا، اس کی ریکارڈنگ کی اور میڈیا ذرائع تک پہنچایا۔ پی ٹی آئی چیف اور ان کے میڈیا ایڈوائزرز نے کسی کو ویڈیو بنانے سے نہیں روکا اور نہ ہی کسی کو نوٹس لینے اور ڈائری میں لکھنے سے منع کیا ۔

میں نے کہانی اور ٹکرز ویڈیو کلپ کے ساتھ اپنے نیوز چینل کو بھیج دی ۔ بعد میں میں نے اس ویڈیو کا ایک حصہ اپنے ٹویٹر اکاونٹ پر بھی اپ لوڈ کر دیا جس میں عمران خان نے پی ایس ایل میں آنے والے انٹرنیشنل پلئیرز کو پھٹیچر قرار دیا تھا۔ مجھے یہ ویڈیو اس لیے اہم لگی کہ پی ایس ایل فائنل عوامی توجہ کا مرکز بنا ہوا تھا اور اخباروں اور ٹی وی پر اسی پر بحث و مباحثے ہو رہے تھے۔

اسی شام پی اے ایس کے صدر نے ایک پریس ریلیز جاری کی اور میرے خلاف ایکشن لینے کا اعلان کیا۔ اس حقیقت کے علاوہ کہ پی اے ایس سپریم کورٹ جرنلسٹ کا سہولت کار ہے نہ کہ ریگولیٹر ، مجھے جو چیز پریشان کر رہی ہے وہ یہ کہ کس بنیاد پر میرے خلاف ایکشن لیا جائے گا خاص طور پر جب میں نے کسی پرائیویسی قانون کی خلاف ورزی نہیں کی ۔ نہ تو میں نے کسی صحافتی اخلاقیات کو روندا ہے اور نہ ہی میں نے کسی حقیقت کو بدلنے کی کوشش کی ہے۔

میں اپنی بات کچھ سوالات کے ساتھ ختم کروں گی۔ کیا اصل اور حقائق پر مبنی خبریں نشر کرنے کے لیے بھی سیلف سینسرشپ کی ضرورت ہو گی؟ اگر کوئی عوامی شخصیت میڈیا جرنلسٹ کو میڈیا پر گفتگو کے لیے بلاتی ہے تو کیا ان صحافیوں کو صرف گفتگو کی اچھی باتیں ہی رپورٹ کرنا ہوں گی؟ کیا یہ بد دیانتی نہیں ہو گی کہ مسائل کو نظر انداز کر کے لوگوں کو صرف سہانے خواب دکھائے جائیں تا کہ لیڈر کو خوش رکھا جا سکے؟ اگر کسی لیڈر کے الفاظ اچھے نہیں ہیں تو کیا میڈیا اہلکار یہ بات عوام کے سامنے لانے کے ذمہ دار نہیں ہیں؟ کیا اس پر انہیں تنقید کا نشانہ بنایا جانا چاہیے یا ان کے خلاف ایکشن لیا جانا چاہیے؟ کیا یہ بنیادی اخلاقیات کے خلاف نہیں ہے کہ قاصد کو ہی راستے سے ہٹا دیا جائے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).