کیا فیس بک بند کرنے سے مسئلہ حل ہو جائے گا؟


تقریباً یہ سوال ہر ذی شعور خود سے یا کسی دوسرے سے ضرور کر رہا ہوگا، پہلے تو اس سوال کو تھوڑا کھول کر بیان کرتے ہیں ،کیا فیس بک بند کرنے سے توہین مذہب رک جائے گی تو خاکسار کی نظر میں اس کا جواب نفی میں ہے ، اس سوال کاایک اور پہلو یہ ہے کہ کیا ہمارے ملک میں فیس بک کا استعمال بند ہو جائے گا ؟تو اسکا جواب بھی نفی ہی میں ہے،ہمیں یاد ہے زیادہ پرانی بات نہیں جب یو ٹیوب کو گستاخانہ مواد کی موجودگی کی وجہ سے بند کیا گیا تھا اور یہ پابندی تقریباً 3، 4 سال تک رہی ، یو ٹیوب پرواکسی سافٹ وئیر کی مدد سے ملک کے طول و عرض میں چل رہی تھی، یوں کہہ لیں کہ سرکاری سطح پر بند تھی اور غیر سرکاری سطح پر بندش معطل تھی جیسے کہ دیگر پابندی کا شکار چیزیوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ اس میں ایک بات جو زیادہ قابل غور تھی وہ یہ کہ اس گستاخانہ مواد کو سب سے زیادہ مسلمان ہی سرچ کر رہے تھے ۔ اب جاتے ہیں پہلے سوال کے جواب کی تفصیل میں فیس بک بند کرنے سے توہین بند ہو جائے گی نہیں، توہین نظر آنا بند ہو جائے گی۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے آپ آنکھیں اور کان بند کر کے یہ سمجھ لیں کہ سامنے موجود شخص نے آپ کو گالیاں نکالنی بند کر دی ہیں یا اپنے اس عمل سے آپ نے اسکی زبان ہی کاٹ دی ہے۔ فیس بک ایک سماجی رابطے کی ویب سائٹ ہے جس پر دُنیا کے کسی بھی حصے سے رسائی حاصل کی جاسکتی ہے ، جن پیجز پر توہین ہو رہی ہے ممکن ہے وہ پاکستان یا اسکے باہر کہیں سے آپریٹ ہو رہے ہوں اور یہ بھی ممکن ہے ایسا کرنے والے یقیناً مسلمان بھی نہ ہوں، تو ایسے میں ہم ان تک پہنچنے اور قانونی کارروائی کی بجائے اس سائٹ کو ہی بند کر دیں تو یہ مسئلہ کیا حل ہوگا، جو یہ سمجھتے ہیں کہ مسئلہ حل ہو جائے گا ان کے لیےایک لطیفہ پیش ہے ایک لڑکی کی شادی مچھیروں کے گھر ہو گئی پہلے ہی روز دلہن نے اعلان کر دیا جب تک گھر سے مچھلی کی بو ختم نہ کر لوں گی چین سے نہیں بیٹھوں گی ، چند دن بو میں رہنے کے بعد اس نےسب گھر والوں کو اکٹھا کر کے دعویٰ کیا لیجیے میں نے بو ختم ہی کر دی ، اس پر تمام گھر والے فرط ِ حیرت سے ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے

 مذہب کی آڑ میں اپنے ہی مذہب کو جتنا نقصان ہم پہنچا بیٹھے ہیں وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ۔ہمارا دین تو ہمیں امن و پیار کا درس دیتاہے اس پیام کو بھلانا بلکہ اس کے خلاف کام کرنا توہین نہیں تو کیا ہے، ہمارا مذہب تو خواتین کی عزت،بچوں پر شفقت سے پیش آنے کا سبق دیتا ہے، ایسا نہ کرنا توہین نہیں، کم ہی ایسے مولانا حضرات ملیں گے جو آپ کو اللہ کے رحمتیں بتا رہے ہوں گے زیادہ تر کیا سننے کو ملتا ہے ‘اللہ نے اس فعل کے جواب میں عذاب تیار کر رکھا ہے ‘ ‘تم لوگ توبہ نہیں کرتے اس لیے تم پر عذاب آرہے ہیں’، اللہ کی طرف سے آنے والی آزمائیشوں کو بھی عذاب کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں ، اپنی بات آئے تو اللہ غفور الرحیم دوسرے کی بات ہو تو اللہ عذاب و سزا دینے والا،ارے بھائی کچھ تو خدا کا خوف کرو ، یہ وہی لوگ ہیں جو دین سے دور لوگوں کو دین کی طرف لانے کی بجائے جہنم کے عذاب گنوا گنوا کر اور دور بھگا دیتے ہیں۔ پھر کچھ وہ حضرات بھی ہیں جو دین کے نام پر بچوں کے دماغوں سے کھیلتے ہیں، انہیں جن اور حوروں کا لالچ دے کر خود کش دھماکوں کی ترغیب دیتے ہیں ، دونوں بیان کی گئیں اقسام انتہا پسند ہیں ، دین اسلام تو دین ہی میانہ روی کا ہے ، نا زیادہ بڑھا ہوا نہ کم ۔ ہمیں اس سوچ کا ادرک کرنا ہے،توہین رسالت ؐو مذہب کسی صورت قابل قبول نہیں مگر جب تک کافر کافر کی تکرار بند نہیں ہو گی توہین مذہب نہیں رُکے گی، جب تک ہم ایک دوسرے سے دست و گریباں رہیں گے دین کے دشمن فائدہ اُٹھائیں گے اور انہیں توہین کرنے کی جرات رہے گی، ہمیں یہ بھی سمجھنا ہوگا اگر ہم کسی کے مذ ہب کو برا بھلا کہیں گے تو وہ ہمارے مذہب و افکار کو بھی برا کہیں گے

پروردگار عالم قران کریم میں ارشاد فرماتا ہے

“اور جن کی یہ اللہ کے سوا پرستش کرتے ہیں انہیں برا نہ کہو ورنہ وہ بے سمجھی میں زیادتی کر کے اللہ کو برا کہیں گے، اس طرح ہر ایک جماعت کی نظر میں ان کے اعمال کو ہم نے آراستہ کر دیا ہے، پھر ان سب کو اپنے رب کی طرف لوٹ کر آنا ہے تب وہ انہیں بتلائے گا جو کچھ وہ کیا کرتے تھے۔”(سورۃ انعام )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).