لیاقت علی خاں کو کس نے قتل کیا (آخری حصہ)


\"PM1-600x445\"لیاقت علی خاں اور عالمی طاقتیں

لیاقت علی خاں کے قتل پر ملکی یا غیر ملکی تجزیوں یا تبصروں میں کسی ذمہ دار ذریعے نے کبھی الزام نہیں لگایا کہ اس المیے میں سوویت یونین، بھارت یا افغانستان کی حکومتوں کا ہاتھ تھا۔حتٰی کہ ماسکو میں امریکی سفارت خانے نے بھی اس معاملے میں سوویت یونین کے ملوث ہونے کی تردید کی تھی۔

برطانیہ کو لیاقت علی کے قتل میں اس بنیاد پر ملوث کرنے کی کوئی قابل یقین شہادت نہیں ملتی کہ اسے لیاقت علی خاں کے برطانیہ کی بجائے امریکہ کی طرف جھکنے پر کوئی ناراضی تھی۔ لیاقت علی خاں کے منظرِ عام سے ہٹنے پر سامنے آنے والی قیادت تو ممکنہ طور پر برطانیہ کی طرف جھکاو کا لیاقت علی سے بھی کم میلان رکھتی تھی۔

لیاقت علی خاں کے صاحبزادوں کے مطابق شہنشاہ ایران رضا شاہ پہلوی نے بیگم لیاقت علی کو بتایاتھا کہ ان کی ایجنسیوں کے علم میں ہے کہ یہ قتل پاکستان کی اندرونی سیاست کا شاخسانہ ہے۔ لیاقت علی خاں جیسے مقبولِ عام رہنما کی موجودگی میں ان سرکاری اہلکاروں کی دال نہیں گل سکتی تھی جو پاکستان پر بلا شرکتِ غیرے حکومت کرنا چاہتے تھے۔لیاقت علی کے سوا کسی سیاسی رہنما کی قامت ایسی نہیں تھی کہ ان دھانسو سرکاری ملازموں کے آڑے آ سکے۔

غلام محمد نے رش بروک ولیمز کو بتایا تھا کہ پاکستان کو ایسی مضبوط قیادت کی ضرورت ہے جو جماعتی وابستگیوں سے آزاد ہونے کے سبب قومی مفادات کے سوا ہر مصلحت کو نظر اندا ز کر سکے۔ دوسری طرف ”محدود جمہوریت“ کے حامی سکندر مرزا کا خیال تھا کہ پارلیمانی نظام اپنانے سے پاکستان تباہ و برباد ہو جائے گا۔ ادھر ایوب خان کو اعتماد تھا کہ فوج کے سربراہ کی حیثیت سے طاقت کی اصل کنجی ان کے پاس تھی۔ یعنی غلام محمد ، سکندر مرزا اور ایوب خان پاکستان میں اقتدار اعلیٰ حاصل کرنے کے خواب دیکھ رہے تھے۔ سکندر مرزا اس جتھے کا دماغ تھا، غلام محمد افسر شاہی کو قابو میں رکھنے کا وسیلہ تھے۔ سکندر مرزا کو اعتماد تھا کہ ایوب خان ان کا ساتھ دیں گے۔ نئے بندوبست کے خارجی ترجمان کی حیثیت سے انگریز راج کے تجربہ کار خدمت گزار ظفراللہ خان دستیاب تھے۔ سیکرٹری خارجہ اکرام اللہ بھی اپنے لیے بہتر سیاسی امکانات دیکھ رہے تھے۔

1949 کے اوائل میں لیاقت علی نے دورہ روس کی دعوت مسترد کر کے امریکہ کا دورہ کیا تھا۔ مجوزہ دورہ روس کے ممکنہ وفد میں بیگم شاہنواز کا نام شامل تھا۔ ان کے مطابق غلام محمد اور ظفر اللہ خان نے دورہ روس کی شدید مخالفت کی تھی۔تاہم لیاقت علی خاں متعدد مواقع پر اعلان کر چکے تھے کہ پاکستان کو بڑی طاقتوں کا دم چھلہ نہیں بننے دیا جائے گا۔ ان کا بھارت کو مکہ دکھانا بھی بین الاقوامی سطح پر اشتعال انگیزی سمجھا گیا۔

وینکٹ رامانی ”پاکستان میں امریکہ کا کردار“ میں لکھتے ہیں کہ امریکی محکمہ خارجہ، محکمہ دفاع، سی آئی اے اور نیشنل سیکیورٹی کونسل کی خفیہ دستاویزات کے مطابق1951 کے موسمِ خزاں میں پاکستان کے حوالے سے امریکی ترجیحات یہ تھیں۔ (الف) پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ کے خطرے کا خاتمہ۔(ب) پاکستان کے ساتھ ایسی مفاہمت جو امریکہ کو اس ملک میں فضائی اڈے رکھنے کے قابل بنا دے اور(د) پاکستان کو فوجی امداد کی فراہمی جو بھارت کے ساتھ فوجی عدم توازن کو کم کر دے۔

حال ہی میں سامنے آنے والی خفیہ دستاویزات میں کراچی میں امریکی سفیر وارن کا امریکی وزیر خارجہ کے نام ایک تار شامل ہے جو7 ستمبر 1951 کی شام بھیجا گیا۔ اس روز شدید بیمار غلام محمد نے امریکی سفیر سے ملاقات کی تھی (یہ بتانا مشکل ہے کہ یہ ملاقات خفیہ تھی یا نہیں)۔ اس معنی خیز پیغام کا آخری حصہ قابل غور ہے۔ [ پیغام کا عکس ملاحظہ فرمائیے ]

”غلام محمد (وزیرِخزانہ ) کہتا ہے کہ وہ پاکستان کی تعمیر اور نیز مسلم دنیا کو کیمونزم کے خلاف منظم کرنے کا نصب العین پورا کیے بغیر مرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔ اس نے کہا ہے کہ آپ کو بتا دیا جائے کہ وہ خود، ظفراللہ اور گورمانی بھارت کی چھیڑخانی کو جنگ میں تبدیل نہیں ہونے دیں گے۔ غلام محمد دسمبر میں امریکہ کا دورہ کرے گا اور اس موقع پر آپ سے ملنا چاہے گا۔“

لیاقت علی کے قتل سے پانچ ہفتے قبل بھیجے گئے اس پیغام میں وزیر اعظم لیاقت علی کا ذکر سرے سے غائب ہے۔ گویا مستقبل کی منصوبہ بندی میں وزیرِ اعظم کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ وزیرِ خزانہ غلام محمد کو شدید علالت کے باعث وزارت سے سبکدوش کیا جا رہا تھا مگر وہ دسمبر میں امریکہ کا دورہ کرنے کا پروگرام بنا رہا تھا۔ گویا اسے معلوم تھا کہ وہ دسمبر میں بھی نہ صرف حکومت کا حصہ ہو گا بلکہ امریکی وزیرِ خارجہ سے بھی ملاقات کر سکے گا۔ امریکی وزیرِ خارجہ وزیرِ خزانہ سے تو ملاقات نہیں کرتا۔

\"photo2\"غلام محمد کس حیثیت میں ”مسلم دنیا کو کیمونزم کے خلاف منظم کرنے“ کے منصوبے باندھ رہا تھا۔ بھارت کے خلاف جنگ روکنا یا شروع کرنا بھی وزیرِ خزانہ کا منصب نہیں۔ ”پاکستان کی تعمیر“ جیسے قائدانہ لہجے سے معلوم ہوتا ہے کہ گویا پاکستان کی قیادت سنھالنے کی تیاری مکمل تھی۔ دلچسپ بات یہ کہ اس پیغام میں امریکی ترجیحات تسلیم کرنے کا ٹھیک ٹھیک اشارہ دیا گیا ہے۔

بھارت سے متعلق آئندہ پالیسی بیان کرتے ہوئے جن تین اصحاب کا ذکر کیا گیا وہ تینوں پنجابی اور سرکاری ملازمت کا پس منظر رکھتے تھے۔ تینوں لیاقت علی کے قتل کے بعد مقتدر ٹولے میں شامل تھے۔ اس اہم معاملے میں لیاقت علی کا ذکر تک نہیں۔ گویا لیاقت علی کا منظر سے ہٹنا طے ہو چکا تھا۔ نیز یہ کہ اگر امریکی لیاقت علی کے قتل میں شریک نہیں تھے تو بھی انہیں اس صورتِ حال کا کچھ نہ کچھ علم ضرور تھا۔

امریکی وزیرِ خارجہ کے نام لیاقت علی کا مکتوب

16 اکتوبر1951 کی شام جب وزیرِ اعظم لیاقت علی حاں کو قتل کیا گیا، پاکستان کے سیکرٹری خارجہ اکرام اللہ ہالینڈ میں تھے۔ ٹھیک دو روز بعد 18 اکتوبر 1951 کو اکرام اللہ امریکہ میں پاکستانی سفیر ایم ایم ایچ اصفہانی کی معیت میں امریکی محکمہ خارجہ کے اسسٹنٹ سیکرٹری جارج میگی کے دفتر (واشنگٹن) پہنچے۔ اکرام اللہ نے جارج میگی کو بتایا کہ وہ امریکی وزیرِ خارجہ ایچی سن کے نام مرحوم وزیر اعظم لیاقت علی خاں کا ایک خط لے کر آئے ہیں۔لیاقت علی کے خط میں پاکستان کے لیے دفاعی سازو سامان کی درخواست کی گئی تھی اور خط پر25 اگست 1951 کی تاریخ درج تھی۔ سوال یہ ہے کہ ایک اہم مسئلے پر 25 اگست 1951 کو لکھا گیا خط 18 اکتوبر تک امریکہ کیوں نہ پہنچ سکا۔

اکرام اللہ کی ملاقات امریکی وزیرِ خارجہ ایچی سن سے 22 اکتوبر 1951کو ہو سکی جب یہ خط بالآخر مکتوب الیہ تک پہنچایا گیا۔ اکرام اللہ نے ایچی سن کو بتایا کہ نئے گورنر جنرل غلام محمد خط بھیجنے کے فیصلے میں شریک تھے۔ یہ فیصلہ کب کیا گیا؟ لیاقت علی کے اس خط پر دستخط کرنے کا مطلب تھا کہ وہ اسے ارسال کرنا چاہتے تھے۔ جب اکرام اللہ کراچی سے روانہ ہوئے تو لیاقت علی خاں زندہ تھے۔غلام محمد نے 17 اکتوبر کو گورنر جنرل کا حلف اٹھایا۔ جب اکرام اللہ بحیرہ اوقیانوس پر محو پرواز تھے۔ قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ لیاقت علی کے قتل میں شریک سازشی ٹولے نے یہ خط دانستہ طور پر روکے رکھا تاکہ لیاقت علی کے منظر سے ہٹنے کے بعد اسلحے کی خرید نیز مشرق وسطیٰ میں ”اعتدال پسندی“ کے فروغ میں کردار کے ضمن میں امریکی انتظامیہ کی نظر میں اپنا مقام بڑھایا جا سکے۔

اردو رسم الخط میں لیاقت کے ہجے میں قتل اور قاتل دونوں کے حروفِ تہجی موجود تھے۔ لیاقت علی خاں کی سیاسی لیاقت اور بصیرت ہی ان کے خونِ ناحق پر منتج ہوئی۔ پروفیسر مہدی حسن کے مطابق غلام محمد مرض المرگ میں ہذیانی کیفیت کا شکار ہو کر چلاتا تھا کہ ”لیاقت کے قتل کا سارا الزام مجھ ہی پر کیوں دھرا جاتا ہے۔ گورمانی بھی تو شریک تھا۔“ لیڈی میکبتھ نے ٹھیک ہی کہا تھا، ڈنکن کے خون کے دھبے پورے بحیرہ عرب سے بھی نہیں دھلتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments