کیا دلی کیا لاہور: سموگ


حسب سابق بڑے شہر ”کیا دلی کیا لاہور“ اس سال بھی سموگ کی لپیٹ میں ہیں اور فضائی آلودگی کے اعتبار سے دنیا میں سر فہرست ہیں۔ حال ہی میں سموگ کی آگاہی مہم کے حوالے سے ایک ویڈیو کلپ دیکھنے کو ملا۔ جس میں پنجاب کے ایک بڑے شہر کے ٹریفک اہلکار رکشہ ڈرائیورز یا مالکان کو ان کے رکشوں کا معائنہ کرانے کا کہتے ہوئے نظر آئے۔ تاکہ رکشوں سے دھوئیں کا اخراج کم سے کم ہو اور فضائی آلودگی میں کمی لائی جا سکے۔ وہ ویڈیو کلپ ہی اس آرٹیکل کا محرک بنا کہ اس فضائی زہر (سموگ) کے حوالے سے کچھ بات کی جائے۔

سموگ دراصل ہوا میں مختلف آلودہ ذرات (Particulate matter) اور زہریلی گیسوں کے اخراج کی وجہ سے پیدا ہونے والی دھند اور دھویں کا ایک امتزاج ہے۔ حرارتی بجلی گھروں (Thermal power stations ) ، ڈیزل اور پٹرول سے چلنے والی گاڑیوں، کارخانوں، اور دیگر سرگرمیوں سے خارج ہونے والے ذرات اور گیسیں (نائٹروجن اور سلفر کے آکسائیڈز) ہوا میں مل کر سورج کی روشنی کی موجودگی میں نامیاتی مرکبات کے ساتھ کیمیائی عمل کر کے دھند نما آلودگی پیدا کرتی ہیں۔

سموگ کی تشکیل میں بنیادی کردار گاڑیوں اور کارخانوں میں جلنے والے ایندھن کا ہے۔ مثال کے طور پر کوئلے، پٹرول اور ڈیزل جیسے بھاری ایندھن عام طور پر زیادہ مقدار میں زہریلے ذرات اور گیسیں پیدا کرتے ہیں۔ اس کے برعکس، قدرتی گیس جیسے ایندھن، جس میں ایل پی جی شامل ہے، کو نسبتاً صاف سمجھا جاتا ہے، کیونکہ اس سے خارج ہونے والی زہریلی گیسوں کی مقدار کم ہوتی ہے۔ البتہ، اگرچہ ایل پی جی کی نسبتاً بہتر ماحول دوست خصوصیات ہیں، لیکن اس کا غلط استعمال اور ناقص انجن کی کارکردگی بھی سموگ میں اضافے کا سبب بن سکتی ہے۔

سموگ کا مسئلہ عموماً سردیوں میں زیادہ شدت اختیار کرتا ہے، جس کی بڑی وجہ درجہ حرارت میں کمی ہے۔ سردیوں میں ہوا کا دباؤ اور درجہ حرارت نیچے آ جاتا ہے، جس کی وجہ سے دھویں اور آلودگی کے ذرات زمین کے قریب ہی معلق رہ جاتے ہیں۔ اس موسمیاتی عمل کو ”ٹمپریچر انورژن“ کہتے ہیں، جس کی وجہ سے سموگ اور زیادہ سنگین صورت حال اختیار کر لیتا ہے۔ درجہ حرارت کی اس تبدیلی کی وجہ سے ہوا میں معلق آلودہ ذرات منتشر نہیں ہو پاتے اور لوگوں کو سانس لینے میں دشواری ہوتی ہے۔

سموگ کا انسانی صحت پر نہایت ہی مضر اثر پڑتا ہے۔ یہ سانس کی بیماریوں، جیسے کہ دمہ، برونکائٹس، اور حتیٰ کہ پھیپھڑوں کے کینسر کا باعث بھی بن سکتا ہے۔ خاص طور پر بچوں، بوڑھوں اور ان لوگوں کے لئے جو پہلے ہی سانس کی بیماریوں میں مبتلا ہوتے ہیں، سموگ انتہائی خطرناک ہو سکتی ہے۔ سموگ کے ذرات آنکھوں میں جلن، جلد کی خشکی، اور نزلہ زکام جیسے مسائل بھی پیدا کرتے ہیں۔ پھیپھڑوں میں طویل عرصے تک زہریلی گیسوں کا جمع ہونا جسم کے مدافعتی نظام کو کمزور بنا سکتا ہے اور دل کی بیماریوں کا خطرہ بڑھا سکتا ہے۔

سموگ پر قابو پانے کے لئے ہمیں اجتماعی اور انفرادی سطح پر مختلف اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے تو یہ ضروری ہے کہ گاڑیوں اور صنعتوں کے اخراج کو محدود کیا جائے۔ حکومتیں پابندیاں لگا کر یا کڑی نگرانی و قانون سازی کے ذریعے ان ذرائع سے نکلنے والی آلودگی کو کم کر سکتی ہیں۔ کوئلے اور ڈیزل کے استعمال کو کم کیا جائے۔ ترقی یافتہ ممالک میں نہ صرف ہر ایک یا دو سال بعد گاڑیوں کے اخراج کا معائنہ کرانا لازم قرار دیا گیا ہے بلکہ بایو فیولز اور الیکٹرک گاڑیوں کے استعمال کو بھی فروغ دیا جا رہا ہے۔

انفرادی سطح پر بھی ہمیں مختلف احتیاطی تدابیر اختیار کرنی چاہیے۔ جب سموگ کی شدت زیادہ ہو تو باہر نکلنے سے گریز کریں۔ انفرادی طور پہ گاڑیوں کے استعمال کی بجائے پبلک ٹرانسپورٹ کے ذریعے سفر کریں اس سے سڑکوں پہ نکلنے والی گاڑیوں کی کمی سے نہ صرف فضائی آلودگی میں کمی ہوگی بلکہ ٹریفک کے مسائل بھی نسبتاً کم ہوں گے۔ گاڑیوں کے انجن کا بروقت معائنہ کروانا اور صحیح طریقے سے ایندھن کا استعمال کرنا بھی اہم ہے تاکہ اخراج میں کمی ہو۔ سموگ کے دنوں میں جب بھی گھر سے باہر نکلیں N۔ 95 ماسک استعمال کریں۔ ان دنوں میں زیادہ سے زیادہ پانی پینا بھی مفید ہوتا ہے تاکہ جسم سے زہریلے مواد کا اخراج بہتر طریقے سے ہو سکے۔

سموگ جیسے خطرناک فضائی زہر کے پیش نظر، آگاہی مہمات کی اشد ضرورت ہے تاکہ عوام اس مسئلے کی سنگینی کو سمجھیں اور احتیاطی تدابیر پر عمل کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments