فسق و فجور کا خاتمہ کرنے پر الٹا کوتوال چور کو ڈانٹے


معاشرے میں گمراہی پھیل رہی ہے۔ برادران، ہمیں آگے بڑھ کر اس فسق و فجور کو روکنا ہو گا۔ کل صبح سے ہی اس مقدس مشن پر کام شروع کرتے ہیں۔

آج کچھ طلبہ گانے گا رہے تھے اور ناچ رہے تھے۔ ہم نے پوچھا کہ یہ کیا ہنگامہ ہے تو کہنے لگے کہ اتن ہے۔ ہم نے ان کو پیار سے سمجھا بجھا دیا ہے۔ اب وہ ایسا نہیں کریں گے۔ ہمارے علاوہ انہیں ڈاکٹر نے بھی انہیں سختی سے منع کر دیا ہے کہ پہلے ٹانگ کی ہڈی ٹھیک طرح سے بیٹھنے دو پھر اس پر وزن ڈالنا اور اتن رقص کرنا۔

آج لڑکیوں کے ایک کالج میں کوئی فیسٹیول تھا۔ ادھر ہم صبح سے لے کر فنکشن ختم ہونے تک سٹیج کے سامنے کھڑے پرفارمنس دیکھتے رہے کہ اس میں کوئی غلط بات تو نہیں ہے۔ اس دوران جو بدقماش شخص بھی ادھر کالج کے گیٹ پر آیا اس کو سمجھا دیا کہ گرلز کالج کے باہر کھڑا ہونا صحت کے لئے سخت مضر ہے۔ لڑکیوں میں بھی فسق و فجور پھیل رہا ہے۔ چیخ چلا رہی تھیں کہ یہ ہمارا بھائی ہے ابا ہے کچھ نہ کہو۔ لیکن ہم نے حق کا پرچم خوب لہرایا۔ آئندہ یاد سے پرچم میں اچھی کوالٹی والا ڈنڈا ڈلوانا ہے۔ سستا ڈنڈا جلدی ٹوٹ جاتا ہے اور اگلے کی ہڈی پر ذرہ برابر اثر بھی نہیں ہوتا۔

آج تو گمراہی مٹانے میں بس پانچ منٹ ہی لگے۔ ہم شہر کا جائزہ لے رہے تھے کہ ایک تعلیمی ادارے کے باہر بینر لگے دیکھے ’طلبہ و طالبات کا میوزیکل شو اور علاقائی رقص‘۔ ہم نے دیکھتے ہی دھاوا بول دیا۔ غضب خدا کا۔ مخلوط جشن چل رہا تھا اور ناچ گانا ہو رہا تھا۔ ہمارے تصور سے بھی باہر تھا کہ اتنے کم عمر دکھائی دینے والے لڑکے لڑکیاں ایسی مذموم حرکات کرنے میں مصروف ہوں گے۔ ہم نے لڑکوں کو وہ سبق سکھایا کہ آئندہ کسی نامحرم لڑکی کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھیں گے۔ ویسے یہ مانٹیسوری کا فنکشن کیا ہوتا ہے؟ نام سے تو یہ بھی ویلنٹائن ڈے جیسا کوئی فنکشن دکھائی دیتا ہے۔

آج تو بہت بڑا کنسرٹ کر رہے تھے یہ فاسقین۔ لڑکے لڑکیاں سب ہی جمع تھے۔ وہ بھی شہر کے بیچوں بیچ کھلے میدان میں۔ اونچی آواز میں گانے چل رہے تھے۔ باقاعدہ ڈی جے بلایا ہوا تھا ان نابکاروں نے۔ شرم حیا تو وہاں سے تیمور کے گھر کی مانند رخصت ہو چکی تھی۔ ٹولیاں بنا بنا کر لڑکے لڑکیاں ناچ گا رہے تھے۔ لڑکیوں نے ٹوپیاں پہن رکھی تھیں اور لڑکوں نے دوپٹے۔ ہماری تو آنکھوں میں خون اتر آیا۔ ہوسٹل سے کمک منگوا کر پھر جو دھاوا بولا ہے تو سارے کے سارے ہمارے رعب سے اپنے جوتے چپل وہیں چھوڑ کر بھاگ نکلے۔ حق کی اتنی بڑی فتح تھی کہ ادھر سے ویسے ہی یہ دوپٹہ اٹھا کر لایا ہوں جیسے کرکٹر میچ جیتنے پر وکٹ اٹھا کر لاتے ہیں۔ ایسا سبز اور سرخ رنگ کا دوپٹہ پتہ نہیں کون بدذوق بیچ رہا ہے۔ ویسے یہ پی ٹی آئی کیا ہوتا ہے؟ دوپٹوں اور ٹوپیوں پر یہی لکھا ہوا ہے۔ شاید ایلومیناٹی جیسی کوئی یہودی تنظیم ہو جو نوجوان نسل کے اخلاق بگاڑنے کے مشن پر ہے۔

آج دوران گشت ایک بڑی سی مسجد نما عمارت کے باہر سے گزرے تو اندر سے لوگوں کے گانے کی بلند آوازیں آ رہی تھیں۔ بخدا کانوں پر یقین ہی نہیں آیا کہ ایسی جگہ بھی یہ گمراہی برپا ہو سکتی ہے۔ اندر جا کر دیکھا تو چند لوگ ایک ٹولی بنا کر ہارمونیم سامنے رکھے گا رہے تھے اور سبز فینسی ڈریس پہنے درجنوں لوگ اس موسیقی پر ناچ رہے تھے۔ بظاہر تو کافی عمر رسیدہ تھے لیکن سینگ کٹا کر بچھڑوں میں شامل ہو رہے تھے۔ ہم نے ہارمونیم کو اٹھا کر زمین پر پھینک کر نشاندہی کی کہ یہ شیطانی آلہ ہے تو کہنے لگے کہ ہم عرس پر دھمال ڈال رہے ہیں۔ ہم نے سمجھایا کہ خواہ دھمال ہو یا شمال، ہے تو ناچ ہی ناں۔ وہ نہیں مانے تو انہیں زور لگا کر قائل کرنا پڑا۔ وہ کافی جلدی میں رخصت ہوئے لیکن اتنے شکرگزار تھے کہ جلدی میں جاتے جاتے بھی موٹے موٹے منکوں والی کئی مالائیں ہمارے لئے چھوڑ گئے۔ چھوڑ تو وہ چپل بھی گئے تھے لیکن وہ ہم نے اٹھانے مناسب نہیں سمجھے۔ پرانے تھے۔

آج تو بہت ہی بڑا فنکشن تھا ناچ گانے کا۔ وہاں فل والیوم پر گانے چل رہے تھے۔ ایک جیسے لباسوں والی ٹولیوں کی ٹولیاں آ رہی تھیں۔ کبھی نوجوان لڑکوں کی ٹولی آ کر میوزک پر ناچنے لگتی تھی تو کبھی لڑکیوں کی۔ ہماری آنکھوں میں تو خون اتر آیا یہ سب کچھ دیکھ کر۔ کئی ٹرکوں پر تو یہ دونوں ٹولیاں ہی تھیں اور سرِعام رقص کر رہی تھیں۔ فاسقین کی اتنی بڑی تعداد دیکھ ہم نے بھِی پوری مسلح کمک منگا لی۔ ہوسٹلوں سے بسیں بھر بھر کر سارے ساتھی آئے تھے۔ ہم نے ان گنہگاروں رقص سے روکنے کی بھرپور کوشش کی۔ ڈنڈے طپنچے سب نکال کر ان کو سبق سکھانا شروع کیا ہی تھا کہ سیدھی ٹینک کی نال میری ناک سے آ کر رکی اور گھبراہٹ میں اپنا طپنچہ میں نے زمین پر پھینک دیا۔

پہلے انہوں نے خود دھویا۔ پھر تھانے والوں نے دھویا۔ اب وہ کہتے ہیں کہ دہشت گردی کا پرچہ کٹے گا۔ خدا کے لئے ہمیں بچا لو امیر صاحب۔ خدا کے لئے۔ آئندہ ایسا کچھ نہیں کریں گے۔ سرکار ہمیں کیا پتہ تھا کہ 23 مارچ کی پریڈ بڑی سرکار کراتی ہے۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar