پاکستان میں انٹرنیٹ کی بندش: ایک متنازع اور غیر مقبول حکمت عملی


Loading

کسی جلسہ یا جلوس یا دھرنے وغیرہ کا اعلان ہوتے ہی حکومت کی جانب سے انٹرنیٹ اور براڈ بینڈ سروس معطل کرنے کا فیصلہ کیا جاتا ہے، پاکستان میں یہ ایک نیا اقدام ہے جس کے سیاسی، سماجی اور اقتصادی اثرات پر غور کرنا ضروری ہے۔ حالیہ دنوں میں یہ فیصلہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے اسلام آباد میں احتجاج اور نیکٹا کی جانب سے جاری کردہ دہشتگردی کے ممکنہ خطرات کے تناظر میں کیا گیا ہے۔

تاریخی پس منظر کے لحاظ سے جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ پاکستان میں انٹرنیٹ اور موبائل سروسز معطل کرنے کا رجحان نیا نہیں۔ مختلف مواقع پر احتجاج، سیاسی ہنگاموں اور دہشتگردی کے خدشات کے باعث ان خدمات کو ماضی میں بھی معطل کیا جاتا رہا ہے۔ یہ رجحان عموماً 2007 کی وکلاء تحریک، 2014 کے دھرنے، اور حالیہ برسوں میں مذہبی اور سیاسی احتجاج کے دوران دیکھنے میں آیا ہے۔

حکومتیں اکثر اس اقدام کو عوامی تحفظ اور امن و امان قائم رکھنے کے لیے ضروری قرار دیتی ہیں، لیکن یہ فیصلہ ہمیشہ متنازع رہا ہے کیونکہ یہ شہریوں کے بنیادی حقوق، جیسے آزادی اظہار اور معلومات تک رسائی پر اثر انداز ہوتا ہے۔

فیصلے کی کئی وجوہات ہیں جن میں چند یہ ہیں :

نیکٹا کی جانب سے جاری کردہ تھریٹ الرٹ کے مطابق دہشتگرد عناصر احتجاج کے دوران شہریوں کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔ ”فتنہ الخوارج“ کی جانب سے جلسوں اور جلوسوں پر حملوں کی اطلاعات اور ان کے ارکان کی پاک افغان سرحد سے ملک میں داخل ہونے کی خبریں سیکیورٹی اداروں کے لیے باعث تشویش ہیں۔

احتجاج کے دوران مظاہرین اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے درمیان تصادم کا خدشہ ہو سکتا ہے، جو امن و امان کی صورتحال کو مزید خراب کر سکتا ہے۔ انٹرنیٹ کی معطلی کو حکومت اس تناظر میں معلومات کے غیر ضروری پھیلاؤ اور افواہوں کی روک تھام کے طور پر دیکھتی ہے۔

یہ فیصلہ سیاسی حکمت عملی کا حصہ بھی ہو سکتا ہے۔ انٹرنیٹ معطلی کی مدد سے حکومت احتجاج کے دائرے کو محدود کرنے اور مظاہرین کے درمیان مواصلات کو مشکل بنانے کی کوشش کر سکتی ہے۔

انٹرنیٹ سروس کی معطلی شہریوں کے روزمرہ معمولات، تعلیمی سرگرمیوں اور صحت کی خدمات پر منفی اثرات ڈال سکتی ہے۔ وبا کے بعد سے آن لائن تعلیم اور کام کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے، اور یہ فیصلہ ان سرگرمیوں کو مزید متاثر کرنے کا سبب بنے گا۔

ای کامرس، ڈیجیٹل بزنس اور دیگر آن لائن سرگرمیاں انٹرنیٹ بندش کے باعث شدید طور پر متاثر ہوں گی۔ کاروباری ادارے اور فری لانسرز اس فیصلے سے مالی نقصان کا شکار ہو سکتے ہیں۔

انٹرنیٹ کی بندش آزادی اظہار کو محدود کرنے کا سبب بنے گی۔ شہریوں کو سیاسی رائے دینے، خبریں شیئر کرنے اور احتجاج کی تفصیلات عام کرنے میں مشکلات کا سامنا ہو گا۔

حکومت کے اس اقدام کو اپوزیشن جماعتوں، انسانی حقوق کے کارکنوں اور صحافیوں کی جانب سے شدید تنقید کا سامنا ہے۔ ان کا موقف ہے کہ انٹرنیٹ معطلی عوام کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے اور حکومت اس فیصلے کے ذریعے احتجاج کو دبانے کی کوشش کر رہی ہے۔

سیکیورٹی خدشات کو جواز بنا کر انٹرنیٹ بند کرنا، ماہرین کے مطابق دیرپا حل نہیں۔ اس کے بجائے، حکومتی مشینری کو سیکیورٹی کو موثر بنانے اور دہشتگردوں کے خلاف عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔

حاصل کلام یہ ہے کہ انٹرنیٹ سروس معطلی کا فیصلہ وقتی طور پر سیکیورٹی خطرات کو کم کر سکتا ہے، لیکن یہ ایک متنازع اور غیر مقبول حکمت عملی ہے۔ اس کے طویل مدتی اثرات عوام کے بنیادی حقوق، معیشت، اور حکومتی ساکھ پر مرتب ہوں گے۔ حکومت کو ایسے اقدامات سے قبل عوامی مفادات اور متبادل حکمت عملیوں پر غور کرنا چاہیے تاکہ شہریوں کی زندگیوں پر منفی اثرات کو کم سے کم کیا جا سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments