اسلامی جمعیت …. میری پہلی محبت


جامعہ پنجاب میں اسلامی جمعیت طلبہ اور پختون سٹوڈنٹ فیڈریشن کے جھگڑے کے بعد ملک میں ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے ٹی وی دیکھ کر تو ایسا لگ رہا تھا کہ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ بھی یہی ہے، ٹی وی سے نظر ہٹی تو سوشل میڈیا پر ایک جنگ چھڑی تھی، عملی جنگ نہیں دلائل کی جنگ ۔اس جنگ میں پختون سٹوڈنٹ تنظیم کے نمائندے کم تھے لیکن بیگانی شادی میں ناچنے والے دوسرے لوگ زیادہ تھے، اپنے آپ کو سیکولر کہنے والے لوگ جمعیت کو برا بھلا کہہ رہے تھے تو جمعیت کے لوگ اپنا دفاع کرنے میں مورچوں پر ڈٹے پائے گئے، جمعیت کو صرف لبرلز ہی نہیں بلکہ مولوی حضرات بھی کوسنے میں مصروف نظر آئے، یہ سب لوگ جمعیت کی برائی کررہے ہیں تو میں نے سوچا تھوڑی سے برائی میں بھی بیان کردیتا ہوں لیکن اس کو سننے کیلئے تاریخ میں جانا پڑے گا۔

آج سے ٹھیک 10سال قبل میں ایمرسن کالج ملتان کا طالب علم تھا۔ ہم نے جولائی میں میٹرک کے نتائج کے بعد نئے آنے والے طلبہ کی رہنمائی کیلئے کیمپ لگایا، یہ تین روزہ کیمپ تھا پہلے دن ہم نے سینکڑوں طلبا کی رہنمائی کی۔ ان کو مفت سٹیشنری، داخلہ فارمز کی سہولت بھی دی تھی، دوسرے دن بھی ہم اسی کام میں مصروف تھے کہ اچانک 15 سے20 نوجوان جن کے ہاتھوں میں ڈنڈے اور کچھ کے ہاتھوں میں پستول بھی تھے ہم پر حملہ آور ہو گئے۔ فائرنگ کے بعد جب ہم ڈٹے رہے تو انہوں نے ہماری خوب دھلائی کی۔ سر میں کرسیاں لگنے سے میں زخمی ہوگیا، مجھے ساتھ کھڑا نوجوان اٹھا کر ہسپتال لے گیا جہاں سر میں ڈاکٹرز نے ٹانکے لگائے، جب ہوش آیا تو پتا چلا کہ اس جرم کی سزا میرے ساتھ موجود جواد بھٹہ کو بھی ملی ہے، جواد ایک نڈر نوجوان تھا جو دوستی کو جان پر فوقیت دیتا تھا اور اس نے ثابت بھی کیا، باقی ساتھی شاید میدان جنگ سے بھاگ چکے تھے، یہ حملہ ہم پیپلز سٹوڈنٹ فیڈریشن کی طرف سے کیا گیا تھا جس کی سربراہی سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے بیٹے کے ہاتھ میں تھی اور تحریک انصاف کے موجودہ ایم این اے عامر ڈوگر ان کو اسلحہ فراہم کرتے تھے۔

جمعیت والے فطرت میں ڈھیٹ تو ہیں ہی مار کھانے کے بعد بھی نہیں سیکھتے۔ مار کے بعد تو پکے جماعتیے بن جاتے ہیں، ایسا کچھ ہمارے ساتھ بھی ہوا ہم نے مار کھانے کے بعد بھی کالج نہیں چھوڑا، سردیوں کے دن تھے اور ہم فارغ وقت کے دوران گراﺅنڈ میں کرکٹ کھیل رہے تھے کہ جیالے بھائیوں نے موٹر بائیکس پر ایسے دبنگ انٹری ماری جیسے بالی ووڈ فلموں میں ولن مارتا ہے، انہوں نے آﺅ دیکھا نا تاﺅ، ہم پر مکوں گھونسوں کی بارش کردی، ڈنڈے اور ٹھڈے خوب لگے، اس بار بھی میرے ساتھ جواد قابو آیا اور ساتھ میں ہمارے ناظم (صہیب عمار صدیقی جو آج کل جماعت اسلامی ضلع ملتان کے جنرل سیکرٹری ہیں) بھی ہمارے ساتھ تھے، صہیب بھائی گولڈ میڈلسٹ اور اچھے مقرر اور بہترین سکالر بھی ہیں۔

ان واقعات کا بتانا مقصود یہ تھا کہ جمعیت نے اچھے کام کیے طلبہ کو مثبت سرگرمیاں دیں جو مخالفین کو برداشت نہیں تھیں وہ اپنا قبضہ کالج پر چاہتے تھے، پی ایس ایف کے گروہ میں سب غیر طلبہ عناصر تھے جن کو کالج کے اندر سے ہی سہولت کار پروفیسر ملے ہوئے تھے، اس گروہ کا کام صبح گیٹ پر کھڑے ہو کر بیچارے طلبا کی جیبوں کو صاف کرنا، کینٹین اور سائیکل سٹینڈ سے بھتہ وصولی ہوتا تھا، ہماری وجہ سے ان کے کاروبار کو نقصان ہوتا تھا کوئی اپنے کاروبار میں نقصان تھوڑا چاہے گا۔ جمعیت کی سب سے بڑی برائی بھی یہی تھی۔

اسلامی جمیعت طلبہ کے ساتھ گزارے گئے لمحات میری زندگی کے سب سے انمول لمحات ہیں، جمعیت نے کبھی ہتھیار اٹھانے کا درس نہیں دیا، جوانی کے عروج پر انسان برے کاموں سے بچ جائے اور اس کی تربیت بھی ایسی ہوجائے جس کو کرنے کی ذمہ داری اداروں کی ہوتی ہے تو اس بڑی نعمت کیا ہو گی۔ آج کل ادارے ڈگریاں تو دے دیتے ہیں لیکن صلاحیت اور قابلیت صفر ہوتی ہے، سب سے بڑی منافقت یہ ہوتی ہے کہ بندہ اعتراف نہ کرے جمعیت والے کوئی فرشتے بھی نہیں ہوتے ان سے بھی فیصلہ سازی میں غلطیاں ہوجاتی ہیں، میں اعتراف کرتا ہوں کہ گاﺅں سے نکلنے کے بعد شعوری طور پر میں گونگا اور بہرا تھا، یہ جمعیت ہی ہے جس نے ٹاٹ سکول کے پڑھے ہوئے طالبعلم کو ہزاروں افراد کے سامنے بولنے کا اعتماد دیا، لکھنے کا ایسا ڈھنگ سکھایا کہ اپنے دل کی ہربات لفظوں میں پرو دیتا ہے، ذہنی آبیاری ایسی کی کہ تنگ نظر کو وسیع النظر بنا دیا۔ اسلام کا شعوردیا، دین کی خاطر قربانی دینے کا جذبہ ٬دوسروں سے محبت کا درس٬ قرآن کی حقیقی تعلیم عقلی دلیل کے ساتھ٬ملک سے وفاداری کا درس٬ فرقہ پرستی کی لعنت سے تحفظ۔ سب سے بڑھ کر ملک سے محبت کا کلمہ پڑھایا۔

میں جماعت اسلامی میں نہیں ہوں بلکہ مجھے اس کے طرز سیاست سے نفرت ہے، ان کے بہت سارے لیڈروں کے بارے میں بھی اچھی طرح جانتا ہوں، اس کے کچھ لوگوں نے جماعت کے نام پر اپنے ہی لوگوں کر لوٹ کر جائیدادیں بنائی ہیں، دوسروں کی کی گردنوں پر سوار ہوکر بلندیاں حاصل کی ہیں، یہ جماعت اپنے لوگوں کے رویوں کی وجہ سے آج تک انتخابی سیاست میں کامیاب نہیں ہوئی جس طرح ہونا چاہیے، اس کی آستین میں سانپ چھپے ہیں جسے وہ خود تلاش کرے، جمعیت نے جماعت اسلامی سمیت تمام سیاسی جماعتوں کو قیادت دی ہے، آج جس جماعت میں بھی کوئی اچھا مقرر اورسیاست میں ادب اور احترام، اخلاقیات کا دامن نہ چھوڑنے والا کوئی ملا ہوگا تو اس درسگاہ سے کچھ سیکھ کر آیا ہوگا، جمعیت میری پہلی محبت اور محسن ہے جس کے لوگوں اور حکمت عملی کے اختلاف کے باوجود دامن چھوڑایا نہیں جا سکتا۔ رہی بات پنجاب یونیورسٹی واقعہ کی تو اس میں دونوں طرف سے معصوم طلبہ کو استعمال کیا گیا ہے اس بار بھی انہی لوگوں نے استعمال کیا ہے جنہوں نے چند سال پہلے عمران خان کے خلاف استعمال کیا تھا، بہرحال سوشل اور الیکٹرانک میڈیا پر نفرت کی بجائے محبت، لسانیت کے بجائے پاکستانیت کو فروغ دینا چاہیے ورنہ پاکستان کے دشمنوں اور ہم میں کوئی فرق نہیں رہے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).