نیو لبرل ازم: وہ نظریہ جو تمام مسائل کی جڑ ہے


جارج مانبیئٹ

تصور کیجئے کہ کیا ایسا ممکن ہےکہ سویت یونین کے شہریوں نے کمیونیزم کے بارے سنا ہی نہ ہو؟ وہ نظریہ جو آج ہماری زندگیوں پر غالب ہے، ہم میں سے بہت سے لوگ اس کے نام تک سے بھی واقف نہیں ہیں۔ اگر کسی محفل میں اپنے دوستوں یا اہل علم کے ساتھ گفتگو کے دوران اس نظریے کا ذکر کریں گے تو آپ کو حیرانی اور بیزاری کا سامنا کرنا پڑے گا، حتٰی کہ اگر آپ کے مخاطبین نے اس اصطلاح کے بارے میں پہلے سے سن بھی رکھا ہو تو بھی اُنہیں اِس کو لفظوں میں بیان کرنے میں مشکل درپیش ہو گی۔

کیا آپ جانتے ہیں کہ نیو لبرل ازم کیا ہے؟ اس کی گمنامی ہی اس کی سب سے بڑی نشانی اور کامیابی کا راز ہے۔ 2007-2008 کا معاشی بحران، طاقت اور دولت کی بیرونِ ملک منتقلی (پانامہ پیپرز جس کی محض ایک جھلک ہیں)، بتدریج تباہ ہوتی عوام کی تعلیم، پھر سے بڑھتی ہوئی بچوں کی غربت، اکیلے پن کی پھیلتی وبا، ماحولیاتی نظام کا متاثر ہونا اور ڈونلڈ ٹرمپ جیسے نسل پرست حکمران کے ابھرنے جیسے مختلف بحرانوں میں اس نظریے نےانتہائی اہم کردار ادا کیا ہے۔

لیکن ہم خیال کرتے ہیں کہ شاید یہ سب مسائل ایک دوسرے سے الگ الگ ہیں اور بظاہر اس حقیقت سے لاعلم نظر آتے ہیں کہ ان سب مسائل کے پیدا ہونے اور ان کے بڑھنے کے پیچھے ایک باہم مربوط فلسفہ کار فرما ہے جس کا ایک نام بھی ہے۔ گمنام رہ کر لوگوں کے ذہنوں پر حکومت کرنے اور ان کی زندگیوں کو متاثر کرنے سے زیادہ بڑی طاقت کیا ہوسکتی ہے!

 نیو لبرازم ہماری سوچ اور خیالات میں اتنا سرایت کر گیا ہے کہ ہم شاذو نادر ہی اسے ایک نظریہ کے طور پر پہچان پاتے ہیں۔ ہم ڈارون کے نظریہ ارتقاء کی طرح اسے بھی خوشی اور راحت کے ایک غیر جانبدار اور فطرتی قانون کی طرح قبول کر رہے ہوتے ہیں جب کہ حقیقت میں یہ فلسفہ انسانی زندگی کو ایک نئی شکل دیتا ہے اور دانستہ طور پر طاقت کے مراکز کو تبدیل کرتا ہے۔

نیو لبرل ازم انسانوں کے باہمی تعلقات میں مقابلے کی کیفیت کو فیصلہ کن عامل قرار دیتا ہے۔ کسی بھی ریاست کے شہریوں کی تعریف محض ایک صارف کے طور پر کرتا ہے جو کہ خریدو فروخت کے عمل کے دوران ”آزادانہ“ طور پر اپنی جمہوری رائے کا اظہار کرتے ہیں۔ مسابقت کا یہ سارا عمل انتہائی بے رحم اصولوں پر کام کرتا ہے جس میں خوبیوں پر انعام اور نالائقی پر سزا ملتی ہے۔ دوسرے سے پیچھے رہ جانے کا مطلب ہے کہ اب آپ کے کوئی حقوق نہيں رہے اور جو کچھ بھی برا بھلا اب آپ کےساتھ ہوگا وہ آپ کا اپنا قصور ہی سمجھا جائے گا۔ یہ اِس مفروضے کو ایک آفاقی حقیقت کے طور پر پیش کرتی ہے کہ کھلی منڈی کے معاشی فوائد ایک منصوبہ بند معیشت میں کبھی بھی حاصل نہیں کئے جاسکتے۔

نیو لبرل ازم کی فکر مقابلے کی فضا کو حدود و قیود میں لانے کی کسی بھی کوشش کو انسانی آزادی کا دشمن سمجھتی ہے۔ اس فکر کے مطابق ٹیکسوں اور ریاستی کنٹرول کو کم سے کم ہونا چاہیے، عوامی خدمات فراہم کرنے والے اداروں کی نجکاری کرنی چاہیے، مزدوروں کی تنظیم اور ٹریڈ یونینز کے ذریعے کی جانے والی اجتماعی حقوق کی جدوجہد کو مارکیٹ کے لئے تباہ کن بنا کر پیش کیا جاتا ہے کیونکہ یہ جیتنے اور ہارنے والوں کی فطرتی تقسیم (جسے ہم نیو لبرل تقسیم بھی کہہ سکتے ہیں) میں رکاوٹ پیدا کرنے کا سبب بنتا ہے۔ طبقاتی تفریق اور معاشی ناہمواری کو ایک خوشگوار قدر، محنت کے پھل اور پیدائش دولت کے مرکزی عامل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے جس کے فوائد معاشرے کی تمام پرتوں تک بتدریج خود بخود پہنچ جاتے ہیں۔ ایسی تمام کوششیں جو کہ معاشرے میں معاشی ناہمواری کو ختم کرتی ہوں، کو غیر پیداواری اور غیر اخلاقی سمجھا جاتا ہے۔ نیو لبرل ازم کے مطابق مارکیٹ اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ ہر کسی کو وہی کچھ ملے گا جس کا وہ حق دار ہے۔

ہم لاشعوری طور پر اس عقیدے کو قبول کرتے ہیں اور پھر اس کی نشر واشاعت میں بھی اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ امیر لوگ خود کو اس بات پر قائل کر لیتے ہیں کہ جو دولت ان کو حاصل ہوئی ہےوہ ان کی اپنی خوبی اور صلاحیت کی بنیاد پر ہے۔ اس دوران وہ تعلیم، وراثت اور بالادست طبقے سے تعلق ہونے والے فوائد کو نظر انداز کر جاتے ہیں۔ غریب لوگ خود کو اپنی تمام ناکامیوں اور محرومیوں کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں، ان امور میں بھی جنہیں بدلنے کی وہ خاطر خواہ طاقت اور وسائل نہیں رکھتے۔

اس نظريے کے مطابق ریاستی پالیسیوں کے تحت منظم طریقے سے پیدا کی گئی بے روزگاری محض ایک واہمہ ہے؛ اگر آپ بے روزگار ہیں تو یہ آپ کا ہی قصور ہے کہ آپ میں نیا کاروبار شروع کرنے کی ہمت اور صلاحیت نہیں ہے۔ مکانات کی بڑھتی ہوئی اور ناقابل حصول قیمتوں کو چھوڑیے؛ اگر آپ بے گھر ہیں تو یہ آپ کی ہی لاپرواہی اور نااہلی کا نتیجہ ہے۔ اگر آپ کے بچوں کے سکول میں کھیل کا میدان نہیں ہے اور کھیل کود کے مواقع نہ ہونے سے وہ موٹاپے کا شکار ہو رہے ہیں تو یہ بھی آپ کا ہی قصور ہے۔

بے رحم مقابلے کے اصولوں پر چلتی اس دنیا میں پیچھے رہ جانے والوں پر ناکام اور نااہل کا لیبل لگا دیا جاتا ہے اور وہ خود بھی اپنے آپ کو ایسا ہی سمجھنے لگتے ہیں۔ اس ضمن میں ایک مقبول عام مقولہ جو لوگوں کے ذہنوں میں انڈیلا جاتا ہے وہ یہ ہے: ”اگر آپ بھاپ سے چلنے والا رولر نہیں ہیں تو لامحالہ آپ سڑک کا حصہ ہی ہوں گے۔ “ یعنی یا تو بھاپ سے چلنے والا رولر بن کر سڑک کو دباؤ اور اسے تہس نہس کر دو۔ اگر ایسا نہیں کرسکتے تو پھر سڑک کا حصہ ہونے کی حیثیت سے جو کچھ تمہارے ساتھ ہو رہا ہے اسے اپنا ہی قصور مان کر قبول کر لو۔ تیسرا کوئی متبادل موجود نہیں ہے۔ پال ویر ہیگی نے اپنی کتاب ”میرا کیا بنے گا؟ “میں اپنی ذات سے متعلق اس مایوسی اور نفرت کے نتائج کے ضمن میں لکھا ہے کہ اپنی ذات کو نقصان پہنچانا، کھانے پینے سےمتعلق مسائل، ذہنی دباؤ، اکیلا پن، کامیاب ہونے کی لئے غیر ضروری بے چینی اور معاشرہ میں بے وقعت ہوجانے کا خوف اندھا دھند مسابقت کے لازمی نتائج ہیں۔ یہ بات قطعاً حیران کن نہیں ہے کہ برطانیہ، جہاں پر نیو لبرل قوانین کا سختی سے نفاذ کیا گیا، کو یورپ کے تنہائی زدہ لوگوں کا دارلحکومت بھی کہا جاتا ہے۔ اب ہم سب نیو لبرل ہیں!

نیو لبرل ازم کی اصطلاح 1938 میں پیرس میں منعقدہ ایک میٹنگ میں پیش کی گئی- مندوبین میں سے دو آدمی، جن کا نام لاؤڈونگ وون مائسز اور فریڈرک ہائیک تھا، نے یہ اصطلاح پیش کیا۔ یہ دونوں افراد آسٹریا سے تعلق رکھنے والے تارک وطن تھے اور فرینکلن روز ویلٹ کے سوشل ڈیموکریسی کے نظریے پر عملدرآمد اور برطانیہ کے بتدریج ایک فلاحی ریاست بننے کے اجتماعی عمل کو اسی طرح برا سمجھتے تھے جس طرح نازی ازم اور کمیون ازم کو سمجھا جاتا ہے۔

1944 میں شا‏ئع ہونے والی کتاب ”جاگیرداری کی شاہراہ پر“ میں فریڈرک ہائیک دعوی کرتا ہے کہ شخصی آزادی کو کچلتے ہوئے حکومتی منصوبہ بندی کرنا لازمی طور پر ریاست کو آمریت کی طرف لے جاتا ہے۔ یہ کتاب بھی لاؤڈونگ وون مائسز کی کتاب ”بیوروکریسی“ کی طرح وسیع پیمانے پر پڑھی گئی- یہ کتاب چند امیر ترین لوگوں کی توجہ کا مرکز بنی جنہوں نے اس فلاسفی میں اپنے آپ کو ٹیکسوں اور قوانین سے آزاد کروانے کے مواقع دیکھ لئے تھے۔ جب 1947ء میں” مونٹ پیلرن سوسائٹی“ کے نام سے ہا‏ئیک نے نیو لبرل ازم کی ترویج و اشاعت کرنے والے پہلا ادارہ کا سنگ بنیاد رکھا تو اس کی مالی اعانت کرنے والوں میں بڑے بڑے کروڑ پتی افراد اور ان کی سرپرستی میں قائم کردہ فاؤنڈیشنیں شامل تھیں۔

اپنے ان کرم فرماؤں کی مدد سے ہائیک نے دانشوروں، تاجروں، صحافیوں اورسماجی کارکنوں پر مبنی ایسا بین البراعظمی نیٹ ورک قائم کرنا شروع کیا جسے ڈینیل سٹیڈمین کی کتاب ”ماسٹرز آف یونیورس“ میں عالمی نیو لبرل نظام کے نام سے موسوم کیا گیا ہے۔ اس تحریک کی پشت پر موجود امیر ترین افراد نے محتلف تھنک ٹینکس کو فنڈ دینا شروع کیا تاکہ اس نظریے کو مزید نکھارا اور فروغ دیا جاسکے۔ ان تھنک ٹینکس میں امریکن انٹر پرائز انسٹیٹیوٹ، دی ہیریٹیج انسٹیٹوٹ، دی کاٹو انسٹیٹیوٹ، دی انسٹیٹوٹ آف اکنامک آفیئرز، دی سینٹر آف پا لیسی سٹڈیز اور ایڈم سمتھ انسٹیٹوٹ شامل ہیں- انہوں نے تعلیمی اداروں اور اساتذہ کو بھی اس نظریے کے فروغ کے لئے مالی امداد دی جن میں شکاگو یونیورسٹی اور ورجینیئا یونیورسٹی خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔

انتہائی حیران کن امر یہ ہے کہ جو نظریہ”  انفرادی رائے کی آزادی“ کا  وعدہ کرتا ہے، اس کی ترویج و تبلیغ اس اعلان کے ساتھ کی گئی کہ ”اس( نیولبرل نظام)   کا کوئی متبادل نہیں ہے۔“۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ  جب کوئی متبادل ہی نہیں ہے تو پھر رائے کی آزادی اور پسند ناپسند کیسی!

نیو لبرل ازم اپنے ارتقاء کے ہر اگلے مرحلے پر پہلے سے زیادہ سخت گیر اور بے رحم ہوتا گیا۔ ہائیک کا نظریہ تھا کہ حکومت یکساں مقابلے کو یقینی بنانے کے لئے اجارہ داریوں کی تشکیل کو روکے، لیکن رفتہ رفتہ اجارہ داریوں کی تشکیل کو بہتر کارکردگی کے انعام کے طور پر دیکھا جانے لگا جس کے مرکزی مبلغین میں ملٹن فرائیڈ مین جیسے معاشی دانشور شامل ہے۔

اس ارتقائی تبدیلی کے دوران ایک اہم کام یہ ہوا کہ نیولبرل ازم کی یہ تحریک رفتہ رفتہ اپنا سماجی تعارف اور پہچان کھونے لگی۔ 1951ء میں فرائیڈ مین خود کو ایک نیو لبرل دانشور کے طور پر متعارف کروانے میں فخر محسوس کرتا تھا۔ لیکن جلد ہی یہ اصطلاح سماجی حلقوں میں گمنام ہونے لگی – مزید حیران کن امر یہ ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ نظریاتی تحریک اپنے اہداف میں واضع، توانا اور باہم مربوط ہوتی گئی لیکن اس کے پرانے نام (نیولبرل ازم) کو کسی متبال نام سے بدلنے کی کوئی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔

 پہلے پہل، بے تحاشا اخراجات کے باوجود نیو لبرل ازم کی مقبولیت بہت محدود رہی – دوسری جنگ عظیم کے بعد لارڈ جان مینارڈ کینز کے معاشی نظریات (جسے کنیشین ازم بھی کہا جاتا ہے) پر کم و بیش سب معاشی فلسفیوں اور ریاستی پالیسی سازوں کا اتفاق رائے تھا۔ بے روزگار ی اور غربت کا خاتمہ امریکہ اور مغربی یورپ کے بیشتر ممالک کا مشترکہ ہدف تھا- اس ہدف کے حصول کے لئے بالائی طبقات پر ٹیکسوں کی شرح بڑھا دی گئی، سماجی ترقی کو بلا جھجک مرکزی اہمیت دی گئی اور عوامی سہولیات کے شعبوں میں خاطر خواہ ترقی ہوئی۔

 لیکن 1970ء کی دہائی میں کنیشین معاشی پالیسیوں کا زوال شروع ہوا اور معاشی بحران نے بحراوقیانوس کے دونوں جانب حملہ کر دیا۔ یہی وہ وقت تھا جب نیو لبرل نظریات کو مرکزیت حاصل ہونا شروع ہوئی۔ جیسا کہ فرائیڈ مین نے کہا تھا :”جب تبدیل ہونے کا وقت آئے تو ایک متبادل لازمی موجود ہونا چاہیے جسے فوری طور پر اختیار کیا جاسکے“- ہم خیال صحافیوں اور سیاسی مشیروں کی مدد سے ” نیو لبرل ازم کے عنا صر“خصوصا معاشی پالیسیوں کے متعلق تجاویز کو امریکہ میں جمی کارٹر اور برطانیہ میں جم کالغان کی حکومتوں نے اپنایا-

رونالڈ ریگن اور مارگریٹ تھیچر کے اقتدار میں آنے بعد جلد ہی اس نظریے کے باقی اصولوں پر بھی عمل درآمد کیا جانے لگا جن میں امیروں کے لئے ٹیکسوں میں چھوٹ، ٹریڈ یونینز کا بزور تباہ کیا جانا، معاشی امور میں حکومتی نگرانی کو یقینی بنانے والے قوانین کا ختم کرنا، عوامی خدمات کے اداروں کی نجکاری یا انہیں ٹھیکے پر دینا اور لامحدود انفرادی منافعوں کے لئے مقابلہ سازی شامل ہیں۔ آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، ماسٹ ریخت معاہدہ اور ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن جیسے استحصالی اداروں کے ذریعے ان نیو لبرل پالیسیوں کو بالعموم جمہور کی مرضی کے بغیر دنیا کے بیشتر حصوں میں نافذ کیا گیا – سب سے حیران کن امر یہ ہے کہ اِن نظریات کو اُن سیاسی پارٹیوں، مثلاً امریکہ میں ڈیموکریٹ پارٹی اور برطانیہ میں لیبر پارٹی، نے بھی اپنا لیا جو کسی زمانے میں بائیں بازو سے تعلق رکھتی تھیں اور مذکورہ بالا نیو لبرل پالیسیوں کی شدید مخالف رہی تھیں۔ سٹیڈمین جونز نے اس تبدیلی کے بارے میں کہا تھا: ”شاید ہی کو‏‏ئی اور خیالی دنیا اتنی کامیابی سے حقیقت پذیر ہوئی ہو جتنی کامیابی سے یہ (نیو لبرل دنیا) حقیقت پذیر ہوئی ہے۔ “

انتہائی حیران کن امر یہ ہے کہ جو نظریہ” انفرادی رائے کی آزادی“ کا وعدہ کرتا ہے، اس کی ترویج و تبلیغ ہی اس دعویٰ کے ساتھ کی گئی کہ ”اس (نیو لبرل نظام) کا کوئی متبادل نہیں ہے“۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب کوئی متبادل ہی نہیں ہے تو پھر رائے کی آزادی اور پسند ناپسند کیسی! لیکن جیسا کہ جنرل پنوشے کے دور میں چلی کے دورے کے موقع پر پر ہائیک نے کہا تھا ”میری ذاتی رائے میں ایک لبرل ڈکٹیر اس جمہوری حکومت سے بہتر ہے جس میں لبرل ازم کی گنجائش موجود نہ ہو۔ “ یاد رہے کہ چلی ان ابتدائی ممالک میں شامل تھا جہاں اس نیولبرل پروگرام کو جامع طور پر سماج میں نافذ کیا گیا۔ وہ آزادی جو لبرل ازم پیش کرتا ہے عام الفاظ میں تو بہت پرکشش لگتی ہے لیکن حقیقت میں یہ مچھلی کی غلامی اور اسے شکار کرنے والے ہتھیار کی آزادی کا پروانہ ہے (یعنی یہ صرف طاقتور کو آزادی دیتی ہے کہ وہ کمزور کا جس طرح مرضی چاہے استحصال کرے)۔

ٹریڈ یونینز اور ورکروں کی اجتماعی طاقت سے آزادی کا مطلب ایسی آزادی جس کے ذریعے تنخواہوں اور مزدور طبقات کو حاصل مراعات کو ختم یا کم کیا جا سکے – قوانین سے آزادی کا مطلب ہے کہ چاہے آپ دریاؤں کو زہر آلود کریں، حفاظتی انتظامات نہ کر کے مزدروں کی جان کو خطرے میں ڈالیں، انتہائی بلند شرح سود وصول کریں یا لوگوں کے استحصال کے لئے نت نئے معاشی حربے ایجاد کریں، آپ کو کوئی کچھ نہیں کہے گا۔ ٹیکسوں سے آزادی کا مطلب دولت کی مساویانہ تقسیم سے آزادی ہے۔ یاد رہے کہ دولت کی یہی منصفانہ تقسیم غربت میں کمی اور انسانی مسائل کے حل ہونے کو یقینی بنا سکتی ہے۔

ناؤمی کلین نے اپنی کتاب ” دی شاک ڈاکٹرائن“ میں لکھا ہے کہ نیو لبرل نظریہ سازوں نے بحرانوں کو نامقبول پالیسیوں کو نافذ کرنے کے مواقع کے طور پر استعمال کرنے کی پرجوش وکالت کی تاکہ لوگوں کی توجہ غیر ضروری عوامل میں الجھی رہے اور وہ اصل استحصال کرنے والی پالیسیوں کا جائزہ اور مخالفت نہ کرسکیں۔ مثال کے طور پر جنرل پنوشے کے چلی میں اقتدار پر قابض ہونے، عراق جنگ اور قطرینہ نامی سمندری طوفان کو غیر معمولی اہمیت دی گئی جسے فرائیڈ مین نے نیو اورلینز میں ”تعلیمی نظام میں جوہری تبدیلیوں کے لئے ایک شاندار موقع“ کے طور پر بیان کیا۔

جہاں نیو لبرل پالیسیوں کو مقامی سطح پر رائج نہیں کیا جا سکے، وہاں ان پالیسیوں کو بین الاقوامی سطح پر مختلف بہانوں سے نافذ کر دیا جاتا ہے۔ ان بہانوں میں ریاست اور سرمایہ کار کے درمیان تنازعات کا حل اور آف شور عدالتوں میں مقدمات کے فیصلے کروانا شامل ہیں جن میں ملٹی نیشنل کارپوریشنیں سماجی اور ماحولیاتی قوانین کی پکڑ سے بچ سکتی ہیں۔ جب مختلف ممالک کے جمہوری اداروں نے سگریٹ کی خریدوفروخت کو محدود کرنے، زمینی پانی کو کان کن کمپنپوں سے محفوظ بنانے، توانائی کے بلوں کو کم کرنے یا دواساز کمپنیوں کو حکومت اور عوام کو لوٹنے سے روکنے کے لئے قانون سازی کرنے کی کوشش کی تو ملٹی نیشنل کمپنیوں نے عدالت میں مقدمات دائر کر کے دھونس، دھاندلی اور بے دریغ سرمائے کے استعمال کے ذریعے اکثر اوقات اپنے حق میں فیصلہ کروا لئے۔ جمہوریت کی حیثیت ایک تماشے اور دکھاوے سے زیادہ کچھ نہیں رہ گئی ہے۔

نیو لبرل ازم کا ایک اور تضاد یہ ہے کہ عالمی مسابقتی میدان کا انحصار بین الاقوامی سطح پر اعداد و شمار اور تقابل پر قائم کیا گیا ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہر قسم کے محنت کش اور نوکری پیشہ افراد کو چھوٹے چھوٹے لایعنی امور میں نگرانی اور جانچ پڑتال کے کڑے عمل سے گزرنا پڑتا ہے جس کا لازمی نتیجہ کامیاب افراد کی ایک چھوٹی سی اقلیت کی صورت میں نکلتا ہے اور بقیہ اکثریت کو ناکام قرار دے کر بے روزگاری کے سمندر میں دھکیل دیا جاتا ہے۔ وان میسز کا دعویٰ تھا کہ نیو لبرل ازم، بیوروکریسی کے ذریعے چلنے والے منصوبہ بندی کے مرکزی نظام سے چھٹکارا دلا دے گا لیکن اس کے برعکس اس نظریے نے زیادہ بے رحم اور مرکزی فیصلہ ساز اداروں کو جنم دے دیا ہے جہاں فیصلہ سازی کا ارتکاز پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔

 نیو لبرل ازم کے بارے میں عام طور پر گمان نہیں تھا کہ یہ اتنا خود غرض اور انفرادیت پر مبنی نظریہ ثابت ہوگا لیکن بہت جلد اس نے اپنا اصل روپ ظاہر کرنا شروع کر دیا۔ نیو لبرل دور (انگلستان اور امریکہ میں 1980ء کے بعد سے) میں معا‎‎شی ترقی کی رفتار (غیر معمولی دولت مند افراد کو چھوڑ کر) گزشتہ ادوار کے مقابلے میں سست رہی ہے۔ 1980ء سے پہلے کے ساٹھ سالوں میں تنخواہوں اور دولت میں ناہمواری کم ہوتی رہی لیکن نیو لبرل دور کا آغاز ہوتے ہی معاشی ناہمواری میں انتہائی تیزی سے اضافہ ہونے لگا جو کہ آج بھی زور و شور سے جاری و ساری ہے۔ اس سارے عمل کی بنیادی وجوہات میں ٹریڈ یونینوں کا خاتمہ، ٹیکسوں میں کمی، بڑھتے ہوئے کرائے، نجکاری اور معاشی معاملات میں حکومتی نگرانی میں مسلسل کمی شامل ہیں۔

توانا‏ئی، پانی، ریل، تعلیم، صحت، سڑکوں اور جیلوں جیسی عوامی سہولیات کی نجکاری کے عمل نے بڑی کمپنیوں کو اس قابل بنا دیا ہے کہ ان قیمتی اساسوں کے آگے اپنی دکانیں بنا کر حکومت یا عوام سے ان سہولیات کو استعمال کرنے کے منہ بولے کرایے وصول کریں۔ کرایہ بھی درحقیقت بغیر محنت کئے حاصل کی جانے والی دولت کا دوسرا نام ہے- جب آپ ٹرین کی ٹکٹ انتہائی مہنگے داموں خریدتے ہیں تو اس کا ایک حقیر حصہ ٹرین پر ہونے والے اخراجات، مثلاً تیل، تنخواہوں اور دیکھ بھال وغیرہ پر خرچ ہوتا ہے جب کہ بقیہ کثیر حصہ پرائیویٹ کمپنی زبردستی آپ کی جیب سے نکلوا کر اپنے بینک بیلنس بڑھا رہی ہوتی ہے۔

برطانیہ میں نجکاری کے عمل کے بعد جو افراد یا کمپنیاں سہولیات فراہم کرنے والے ادارے چلا رہی ہیں وہ ہوش ربا شَرح منافع کما رہی ہیں۔ روس اور انڈیا میں پچھلے تیس سالوں میں قومی اور بین الاقوامی اشرافیہ نے سیاسی اور قانونی نظام میں موجود کمزوریوں سے فائدہ اٹھا کر ریاستی اثاثوں کو کوڑیوں کے بھاؤ خریدا ہے۔ میکسکو میں کارلوس سَلم کو لینڈ لائن اور موبائل فون کی سہولیات پر کم و بیش مکمل اجارہ داری قائم کرنے کی اجازت دے دی گئی۔ جلد ہی وہ دنیا کا امیر ترین آدمی بن گیا۔

اینڈریو سیئرز اپنی کتاب ”ہم دولت مندوں کو کیوں نہیں سنبھال سکتے“ میں بیان کرتا ہے کہ سود پر مبنی قوانین کے ذریعے مالیاتی سرمائے میں لامحدود اضافے کے بھی قومی اور بین الاقوامی معیشتوں پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ سیئرز کے مطابق کرائے کی طرح سود بھی بغیر محنت کئے دولت حاصل کرنے کا ہی ایک طریقہ ہے۔ جیسے جیسے غریب، غریب سے غریب تر اور امیر امیر سے امیر تر ہوتا ہے ویسے ویسے امیر طبقے کا ایک اور اثاثے، یعنی دولت، پر کنٹرول بھی بڑھتا جا رہا ہے۔ سود کی ادائیگی درحقیقت غریب سے امیر کی طرف دولت کی منتقلی کا دوسرا نام ہے۔ جب پراپرٹی اور دیگر ضروریاتِ زندگی کی قیمتیں بڑھتی ہیں اور ریاست اپنی عوام پر خرچ کرنے سے ہاتھ کھینچتی ہے تو لازمی طور پر عوام پر قرضوں کا بوجھ بڑھنے لگتا ہے جس کا براہ راست فائدہ بینکوں کی مالک اشرافیہ کو ہوتا ہے اور وہ عوام کی خون پسینے کی کمائی سے پیدا شدہ لامحدود دولت کے مالک بنتے جاتے ہیں۔

اینڈریو سیئرز کے مطابق پچھلی چار دہائیوں میں نہ صرف غریب سے امیر طبقات کی طرف دولت کی منتقلی کا عمل شدت سے تیز ہوا ہے بلکہ دولت مند طبقات کے اندر بھی یہ عمل جاری ہے جس میں پیداوری عمل اور سہولیات کے شعبوں میں کام کر کے دولت کمانے والے امیر طبقات سے اثاثہ جات اور سرمائے کے مالک امیر طبقات کی طرف کرائے اور سود کی شکل میں دولت کی منتقلی شامل ہے۔ کرائے اور سود کی شکل میں دولت کمانے کے عمل نے محنت کر کے دولت کمانے کے عمل پر فیصلہ کن برتری حاصل کرلی ہے۔

نیو لبرل پالیسیوں کے نتیجے میں ہر جگہ منڈی کی معیشت ناکامی سے دوچار ہے لیکن بڑے بڑے بینک اور سہولیات فراہم کرنے والی کارپوریشنیں اتنی دیو ہیکل بن چکی ہیں کہ ان کی ناکامی کو بین الاقوامی معاشی نظام برداشت کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ ٹونی جوڈٹ اپنی کتاب میں بیان کرتے ہیں کہ ہائک اپنے نیو لبرل نظریات پیش کرتے وقت یہ بات بھول گیا کہ بنیادی عوامی سہولیات کی فراہمی کبھی بھی منقطع نہیں کی جاسکتی۔ اس لئے ہر طرح کے منافعے کاروباری کمپنیاں حاصل کرتی ہیں لیکن کسی بھی قسم کے بحران کے نتیجے میں سارا بوجھ ریاست کو اٹھانا پڑتا ہے۔ ریاست کا کاروباری اداروں کی امداد کرنا نیو لبرل نظام کے مسابقت کے بنیادی اصول کی کھلم کھلی خلاف ورزی ہے۔

نیو لبرل ازم میں بحران جتنا شدید ہوتا ہے اتنا ہی یہ نظریہ بے رحم اور کرخت ہوتا جاتا ہے۔ حکومتیں ان بحرانوں کو بیک وقت ایک عذر اور موقع کی شکل میں استعمال کرتی ہیں تاکہ اشرافیہ کو ٹیکسوں میں چھوٹ دی سکیں، بقیہ بچے کھچے اداروں کو اپنے ذاتی یا گروہی مفادات کے چکر میں کوڑیوں کے بھاؤ بیچ سکیں، سماجی بہبود اور تحفظ کے اخراجات میں کٹوتی کرسکیں، کارپوریشنوں کو لوٹ مار کی کھلی چھوٹ دے سکیں اور عوام پر ریاستی گرفت کو مزید مضبوط بنا سکیں۔ اپنے آپ سے نفرت کرتی ریاست پبلک سیکٹر کے تمام شعبوں میں اپنے خونی پنجے گاڑ کر انہیں نجی ملکیت کے سپرد کر دیتی ہے۔

نیو لبرل ازم کا سب سے خطرناک پہلو اس کا پیدا کردہ معاشی بحران نہیں بلکہ سیاسی بحران ہے۔ جیسے جیسے ریاست کے اختیارات میں کمی آتی ہے، عوام الناس کی ووٹ کے ذریعے اپنے حالات تبدیل کرنے کی صلاحیت بھی مانند پڑتی جاتی ہے۔ اس کے برعکس، نیولبرل تھیوری پُر زور دعویٰ کرتی ہے کہ لوگ اپنی رائے کا اظہار خریداری کے عمل کے ذریعے کرسکتے ہیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ کچھ لوگوں کی قوت خرید باقیوں سے بہت زیادہ ہے؛ اس لئے ایک صارف جمہوریت میں سب کے ووٹ اور پسند نا پسند ایک جیسی اہمیت اور طاقت نہیں رکھتے۔ اس کا لازمی نتیجہ غریب اور متوسط طبقے کی سیاسی عمل میں کمزوری اور بے بسی کی شکل میں نکلتا ہے۔ جوں جوں دائیں بازو اور سابقہ بائیں بازو کی جماعتیں نیو لبرل پالیسیاں اختیار کرتی جا رہی ہیں، عوام کی بے بسی اب لاتعلقی اور بے حسی میں بدلتی جا رہی ہے۔ لوگوں کی بڑی تعداد سیاسی عمل سے بیزار اور متنفر ہوتی جا رہی ہے۔

کرس ہیجز بیان کرتے ہیں ”فاشسٹ تحریکوں نے اپنی بنیاد اُن لوگوں میں تعمیر نہیں کی جو سیاسی طور پر متحرک تھے بلکہ اُن افراد میں کی جو کہ سیاسی طور پر غیر متحرک اور بے شعور تھے۔ وہ شکست خوردہ تھے اور اکثر اوقات محسوس کرتے تھے کہ ان کا سیاسی عمل میں کوئی فیصلہ کن کردار نہیں ہے- ان کی یہ رائے اکثر بیشتر مواقع پر ٹھیک بھی ہوتی ہے۔ جب سیاسی مباحث کا تعلق عوام سے ختم ہو جاتا ہے تو عوام جذباتی نعروں، گروہی شناختوں اور سنسنی خیزی کی طرف لپکتی ہے- ٹرمپ کے مداحوں کے لئے حقائق اور دلیلیں کوئی اہمیت نہیں رکھتیں۔

جوڈٹ نے وضاحت کی کہ جب ریاست اور عوام میں پایا جانے والا ایک پیچیدہ اور مضبوط تعلق ختم ہو کر محض طاقت اور فرمان برداری میں تبدیل ہوتا ہے تو لوگوں کو یکجا رکھنے والی واحد شئے صرف ریاستی طاقت ہی رہ جاتی ہے – ہائیک جِس آمریت سے خوفزدہ تھا وہ درحقیقت اُسی وقت جنم لیتی ہے جب حکومتیں سہولتوں کی فراہمی میں ناکامی پر اپنی اخلاقی ساکھ کھو بیٹھتی ہیں اور عوام کو اپنا مطیع و فرمانبردار بنائے رکھنے کا واحد طریقہ زور زبردستی اور خوف کا استعمال ہی رہ جاتا ہے۔

 اشتراکیت کی طرح نیو لبرل ازم بھی ایک خدا ہے جو ناکام ہو گیا ہے- لیکن یہ آدم خور نظریہ اس لئے آج بھی موجود ہے کیونکہ اس نے اپنے آپ کو مختلف غلافوں میں چھپا کر رکھا ہے بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ گم نام نظریات اور پالیسیوں کا پورا ایک نیٹ وریک ہے جس کا ادراک حاصل کرنا اتنا آسان نہیں ہے۔

نظر نہ آنے والوں کا نہ نظر آنے والا نظریہ، نظر نہ آنے والے ہاتھوں کے ذریعے پھیل رہا ہے۔ لیکن آہستہ آہستہ ہم ان میں سے چند ایک کےناموں کو جاننے لگے ہیں- آج ہم جانتے ہیں کہ انسٹیٹیوٹ آف اکنامک افئیرز، جس نے تمباکو کی صنعت کے خلاف ہونے والی قانون سازی کی میڈیا میں پر زور مخالفت کی، کو برٹش امریکن ٹباکو کمپنی 1963ء سے خفیہ طور پر پیسہ دے رہی ہے- ہم نے سراغ لگایا ہے کہ دنیا کے دو امیر ترین افراد چارلس اور ڈیوڈ کاؤچ نے ایسا ادارہ بنایا جس نے آگے چل کر ٹی پارٹی موومنٹ کو قائم کیا جو کہ ریاستی کنٹرول کو کم سے کم کرنے کی حمایت کرنے والی ایک اشرافیائی تحریک ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ چارلس کاؤچ نے اپنے ایک تھنک ٹینک کو قائم کرتے ہوئے کہا تھا کہ ”غیر ضروری تنقید سے بچنے کے لئے اس بات کی زیادہ تشہیر نہیں کرنی چاہیے کہ کوئی بھی آرگنائزیشن کیسے چلائی اور کنٹرول کی جاتی ہے۔“

نیو لبرل ازم بیشتر اوقات میں بظاہر بڑے خوش نما الفاظ کا استعمال کرتا ہے جو کہ حقائق کے معمولی حصوں کو ظاہر لیکن بیشتر حصوں کی پردہ پوشی کر رہے ہوتے ہیں- ”کھلی منڈی کی معیشت“ عام طور پر ہمیں ایک فطرتی نظام کی طرح محسوس ہوتی ہے جو کَشش ثقل اور فضائی دباؤ کی طرح سب پر برابر اثر انداز ہوتی ہے- لیکن حقیقت میں یہ تصور طاقت پر مبنی تعلقات کی پیچیدگیوں سے بھرا ہوا ہے۔ ”منڈی کیا چاہتی ہے؟ “ کی بظاہر پرکشش اصطلاح کا اصل مطلب یہ ہوتا ہے کہ بڑی کمپنیاں اور ان کے مالکان کیا چاہتے ہیں-سئیرز کے مطابق انویسٹمنٹ کی دو مختلف اقسام رائج ہیں۔ پہلی قسم یہ ہے کہ ایسی معاشی سرگرمیوں کو فروغ دیا جائے جو کہ پیداوار میں اضافہ کریں اور معاشرتی طور پر کارآمد ہوں۔ جب کہ دوسری قسم وہ ہے جس میں پہلے سے پیدا شدہ اثاثہ جات کو خریدنا شامل ہے تا کہ وہ کرایہ، سود اور دیگر غیر پیداواری معاشی فوائد کے لئے استعمال کیے جا سکیں- مختصراً یہ کہ نیو لبرل ازم کا طریقہ واردات یہ ہے کہ دولت کے حقیقی ذرائع کو چھپایا جاسکے اور ہم عوام دولت کی پیدائش کے حقیقی عمل اور دولت کی لوٹ کھسوٹ میں فرق کو سمجھ نہ سکیں۔

آج سے تقریباً ایک صدی پہلے وہ لوگ جن کو وراثت میں دولت ملی تھی اپنی محنت سے دولت کمانے والوں کو حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں اور انہیں ”نو دولتیا“ کہتے تھے۔ نئے کاروباری طریقے ایجاد کرنے والوں (Entrepreneurs) کو معاشرے میں کرائے وصول کر کے دولت کمانے والوں کی حیثیت حاصل تھی- آج یہ باہمی تعلق الٹ ہو گیا ہے۔ سود، کرایہ اور وراثت میں دولت حاصل کرنے والے سب حضرات اپنے آپ کو نئے کاروباری طریقے ایجاد کرنے والا (Entrepreneur) ظاہر کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ وہ اُس دولت کو اپنی محنت کی کمائی قرار دے رہے ہوتے ہیں جو حقیقت میں انہوں نے کمائی نہیں ہوتی (بلکہ مختلف غیر پیداواری ذرائع سے اکٹھی کی ہوتی ہے)۔

یہ گمنامیاں اور فکری الجھنیں جدید سرمایہ داری نظام کی بقاء اور ترقی کے لئے انتہائی اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ یہ ایک ایسا بالواسطہ تجارتی ماڈل (Franchise Model) ہے جو اس بات کی یقین دہانی کرواتا ہے کہ محنت کش طبقات کو معلوم ہی نہ ہو کہ وہ کس کے لئے کام کر رہے ہیں۔ کمپنیاں خود کو ایک بین الاقوامی آف شور نیٹ ورک کے ذریعے رجسٹر کرواتی ہیں تاکہ پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے اس بات کا سراغ ہی نہ لگا سکیں کہ سارے کاروبار سے فائدہ حاصل کرنے والا اصل مالک کون ہے – ٹیکس چوری کے ایسے ایسے طریقے ایجاد کئے جاتے ہيں جو حکومتی اداروں کو چکرا کر رکھ دیتے ہیں۔ ایسی پیچیدہ معاشی سکیمیں متعارف کروائی جاتی ہیں جن کی تفصیلات اور فائدے نقصان کو سمجھنا کسی عام آدمی یا سرکاری ادارے کے بس کی بات نہیں ہوتی۔

 نیو لبرل ازم کو خفیہ اور گمنام رکھنے کے لئے تمام جائز و ناجائز طریقے بروئے کار لائے جاتے ہیں۔ جو لوگ ہائیک، مائسز اور فرائڈ مین کے نظریات سے متاثر ہیں وہ نیو لبرل ازم کی اصطلاح اور اس سے وابستہ تنقید کا سرے سے ہی انکار کر دیتے ہیں لیکن اس دوران وہ کوئی دلیل یا وضاحت بھی پیش نہیں کرتے۔ ان میں سے کچھ لوگ اپنے آپ کو کلاسیکل لبرل یا آزادی پسند کے طور پر متعارف کرواتے ہیں – لیکن یہ دونوں وضاحتیں گمراہ کن اور اپنی ذات کے دانستہ انکار پر مبنی ہیں کیوں کہ اِن کے ذریعے بظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے فریڈرک ہائیک کی کتاب”جاگیرداری کی شاہ راہ پر“، مائسز کی کتاب ”بیوروکریسی“ اور ملٹن فرائڈمین کے اہم ترین کام ”سرمایہ داریت اور آزادی“ میں کچھ بھی نیا نہیں ہے بلکہ ان میں کلاسیکی لبرل ازم کے پرانے خیالات ہی درج کئے گئے ہیں (جب کہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے)۔

ان سب سے ہٹ کر نیو لبرل دور کے کچھ پہلو قابلِ تعریف بھی ہیں۔ اپنی ابتداء میں یہ ایک منفرد اور اچھوتا نظریہ تھا جو کہ کارکنوں اور دانشوروں کے ایک باہم مربوط گروہ کی طرف سے دیا گیا جن کے پاس ایک واضح منصوبہ اور لائحہ عمل موجود تھا – اِس نظریے کی سب سے بڑی خوبی اِس کا صبر اور مستقل مزاجی ہے۔ رفتہ رفتہ فریڈرک ہائیک کے ”جاگیرداری کی شاہ راہ پر“ میں درج کردہ اصول ہی کامیابی کا حتمی اور یقینی فارمولہ بنتے گئے۔

 نیو لبرل ازم کی فتح بائیں بازو کی ناکامی کی عکاسی بھی کرتی ہے – جب کھلی منڈی کی آزاد معیشت 1929 میں تباہی کی طرف گئی تو لارڈ کینز نے ایک جامع معاشی نظریہ دیا تا کہ موجودہ معاشی ماڈل کو تبدیل کیا جاسکے۔ اسی طرح جب 70 کی دہائی میں کینیشین ماڈل ناکام ہونے لگا تو نیو لبرل ازم کی شکل میں اس کا متبادل تیار تھا- لیکن جب 2008 ميں نیو لبرل ازم کا بت دھڑام سے نیچے گرا تو اس کی جگہ لینے کے لئے کچھ بھی موجود نہیں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ نیولبرل ازم کی آدم خور بدروح آج بھی معاشی نظاموں پرحاوی ہے- بائیں بازو اور متوسط نظریات کے حامل دانشوروں اور جماعتوں نے پچھلے اَسّی سال سے کوئی نیا معاشی نظریہ اور قابلِ عمل حل انسانیت کے سامنے پیش نہیں کیا۔

دور حاضر میں لارڈ کینز کی معاشی پالیسیوں کو دوبارہ اختیار کرنے کی ہر کوشش اس حقیقت پر مہر ثبت کر رہی ہےکہ ہم کوئی نیا اور انسانیت کے لئے فائدہ مند متبادل پیش کرنے میں ناکام ہوچکے ہیں۔ اکیسویں صدی کے بحرانوں کے حل کے لئے کینز کی معاشی پالیسیاں بطور حل پیش کرنے کا مطلب تین بنیادی حقییقتوں کو نظر انداز کرنا ہے۔ پہلی حقیقت یہ کہ لوگوں کو پرانے اور فرسودہ نظریات کے گرد متحرک کرنا ایک مشکل کام ہے، دوسرا یہ کہ 70 کی دہائی میں کنیشین پالیسیوں کے نتیجے میں جو مسائل ظاہر ہوئے تھے وہ آج بھی اپنی جگہ موجود ہیں اور تیسری سب سے اہم بات یہ کہ کنیشین پالیسیوں میں دور ِحاضر کے سب سے بڑے بحران، ماحولیاتی آلودگی، کا کوئی حل موجود نہیں ہے۔ کینیشن ازم کی بنیاد صارفین کی مانگ کو بڑھا کر معاشی پیداوار کو پروان چڑھانے پر قائم ہے۔ لیکن آج یہ حقیقت ہم سب کے سامنے ہے کہ صارفین کی بڑھتی ہوئی مانگ اور اس کے نتیجے میں ہونے والی معاشی ترقی ہی ماحولیاتی تباہی کے سب سے بڑے اسباب ہیں۔

 کینیشین ازم اور نیو لبرل ازم کی تاریخ یہ بات واضع کرتی ہے کہ محض پہلے سے شکست خورہ نظام کی مخالفت اور اس پر تنقید کرنا ہی کافی نہیں ہے بلکہ ایک باہم مربوط اور قابل عمل متبادل پیش کرنا پڑے گا۔ لیبر پارٹی، ڈیموکریٹس اور دنیا بھر میں بائیں بازو کی دوسری جماعتوں کے سامنے سب سے اہم چیلنج یہی ہے کہ وہ شعوری بنیادوں پر ایک ایسے سیاسی، معاشی اور سماجی نظام کا خاکہ تیار کریں جو کہ اکیسویں صدی کے مسا‎ئل کا حقیقی اور دیر پا حل پیش کرسکے۔

(بشکریہ: دی گارڈین ترجمہ: محمد علی عمیر)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).