دمشق کی تازہ ترین صورتحال


باغی گروہ جونہی دمشق کے مشرقی دروازے پہ آن پہنچا تو سب سے پہلے چوری کھانے والے طوطے نے ایک انجان منزل کی جانب اڑان بھری اور یہ جا وہ جا۔ اب کسی اور نے کیا مزاحمت دکھانا تھی۔ نامقبول حاکمین کا یہی حال ہوتا ہے جب کشتی ڈوبنے لگتی ہے تو۔

باغی کسی بڑے تردد کے فوراً دمشق میں داخل ہو گئے۔ شامی قوت و جبروت کی آخری علامت حافظ الاسد کا بت وہ پہلے ہی گرا چکے تھے۔ یوں ایک پچاس سالہ دور آمریت کا پرامن خاتمہ ممکن ہوا یوں چشم فلک نے دور فرعون کا عہد اختتام پذیر ہوتے کھلی آنکھوں دیکھا۔ اس میں نظارۂ عبرت ہے گر ہو چشم بینا۔

دمشق کے مرکزی چوک میں فلک شگاف نعروں سے فضا اس وقت لبریز ہے آزادی کے نعرے لگاتے نوجوان خوشی سے شاداں و فرحان ہیں۔ اسیران کو جیلوں سے فوری رہائی ملنے کی حسرت بیتاب کی یاوری ہوئی ہے۔ سیدانیاں کی عسکری جیل خاصی بدنام تھی ہزارہا قیدیوں کو برسوں بلکہ کئی دہائیوں سے یہاں زیر زمین تہہ خانوں میں قبر نما ڈربہ نما کمروں میں قید رکھا جاتا تھا جہاں انسان سورج کی کرنوں کو بھی ترس جائے انہیں بے بس قیدیوں کو شدید اذیتیں دے کر سفاک بشار الاسد حظ اٹھاتا تھا لیکن اب آزادی کے متوالے سڑکوں پہ جھوم رہے ہیں۔ اپنے آپ کو انتہائی مضبوط سمجھنے والا بشار الاسد ایک شامی جہاز میں تیز رفتاری سے بھاگا پہلا اس کا ٹھکانہ شاید اس کا اپنا مادری علاقہ الولایات تھا مگر پھر دس منٹ بعد ہی جہاز نے پلٹا کھایا اور شامی حدود سے باہر کسی نامعلوم منزل کی جانب روانہ ہو گیا۔ اب سنا ہے کہ ماسکو ہی آخری جائے پناہ ہے اور بقیہ زندگی شامی پرکیف نظاروں کو یاد کر کے ہی گزرے گی۔ اپنی عزیز از جان بیوی بچوں کو لے کر وہ پرسکون ماسکو میں سیاسی پناہ گزین بن چکا ہے۔

شامی وزیراعظم محمد ابو الجلالی نے باغی گروہ کے سربراہ سے براہ راست رابطہ قائم کر کے منت کی ہے کہ کسی ممکنہ تبدیلی میں سویلین معاشرے کے لوگوں کو بھی شامل کیا جا سکے۔ وہ ایک نئے انتخابات کے بھی خواہشمند ہیں۔ عنان حکومت فی الحال جلالی کے زیر انتظام ہی رہیں گے۔ باغی گروہ کے سربراہ نے اپنے حواریوں کو پرامن رہنے کی تلقین کی ہے اور ہوائی فائرنگ کرنے سے بھی روک دیا ہے۔ انہوں نے ٹیلی گرام پہ لکھا ہے کہ تمام معاملات سابق وزیراعظم جلالی کے زیر انتظام چلیں گے جب تک سرکاری طور ان کو یہ ملتے نہیں۔ محمد جلالی اور دیگر اپوزیشن قائدین نے شام کی ازسرنو تعمیر و ترقی کا عزم ظاہر کیا ہے۔

بشار الاسد کے چوبیس سالہ خاندانی ظالمانہ دور کا اختتام ہوا اور عوامی سرشاری قابل دید ہے۔ الولایات وہ علاقہ ہے جہاں بشار الاسد کو خاندانی و سیاسی مقبولیت حاصل تھی۔ یہیں روسی ہوائی اڈہ اور نیول بیس قائم کی گئی تھی جو دنیا بھر میں روس کے باہر واحد روسی نیول بیس ہے۔ باغیوں نے قبضہ کرتے ہی جیلیں توڑ ڈالیں اور تمام ریکارڈ جلا کر راکھ کر ڈالا۔ ہمسایہ عرب ممالک میں خوف و ہراس کے سائے دراز ہوتے جا رہے ہیں۔ قطر، سعودی عرب، اردن، مصر، ایران، عراق، ترکیہ اور روس نے ایک مشترکہ بیان جاری کیا ہے کہ شام میں سیاسی حل ڈھونڈا جائے کیونکہ یہ حرکت اور تیز قدمی خاصی خطرناک ہے۔

حیات التحریر الشام نے تمام آمروں اور غاصبوں کو ایک سخت سبق سکھلایا ہے اور یوں ان پہ قدرتی طور پہ لرزاں طاری ہے۔ بہرحال خوشی کے ان لمحات میں بھی ایک خوف شامیوں کے دل میں پنہاں ہے کہ یہ اسلامی گروہ کہیں طالبان ٹائپ ہی نہ نکلے۔ ویسے ہفتہ بھر جہاں جہاں انہوں نے قدم جمائے ہیں وہاں کسی تادیبی کارروائی کی اطلاعات نہیں ہیں۔ شام کے ان علاقوں میں جہاں ایرانیوں کا غلبہ تھا وہ بھی کل شام ہی وہاں سے ڈیڑھ سو گاڑیوں کا قافلہ لے کر نکل گئے ہیں۔ ایک طویل خون آشامی کے بعد یہ ایک نئی صبح کا آغاز ہے۔ دعا ہے شامیوں کو بھی پرامن زندگی گزارنے کا ایک اور موقعہ ملے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments