کشمیری نسوانیت کی تعمیر میں نسلی قومیت کا کردار!



سیکولر ونسلی قوم پرستوں کا ماننا ہے کہ کلچر کے اندرونی یا روحانی خدوخال کو امتیازی حثیت میں تحفظ فراہم کرنے سے ہی جموں کشمیر کی خودمختار قوم اپنی شناخت کا دفاع کرسکتی ہے اور اقوام عالم کی صف میں شامل رہ سکتی ہے۔ قومیت کے اِس تصور سے اندر اور باہر کی تفریق پیدا ہوجاتی ہے اور اندرون کی ناقابل تنسیخ حالت روایتی نظر آتی ہے۔ مثال کے طور پر نسلی قوم پرست اِس بات پر زور دیتے ہیں کہ جموں کشمیر کی پشتنی خاتون باشندہ جب کسی غیر کشمیری، غیر ڈوگری یا غیر لداخی باشندے کے ساتھ شادی رچائے، وہ اُسی دم وراثت کے حقوق سے محروم ہوجاتی ہے اور ریاست میں منقولہ یا غیر منقولہ جائیداد کی خرید وفروخت نہیں کرسکتی ہے۔ اُن کی نظر میں اندرونی بندشوں میں تبدیلی نہ لانے کے نتیجے میں ریاست کی پشتنی خاتون تہذیب اور نسل کی شفافیت کو تحفظ فراہم کرتی ہے اور ثقافتی حدود کو پھلانگنے سے اِن خصوصیات پر داغ لگ سکتے ہیں۔

ثقافت کے رنگ وروپ کو ناقابل تنسیخ بنائے رکھنے سے متعلق حکمت عملی کی آڑ میں نسلی قوم پرست ریاست کے سٹیٹ سبجیکٹ قانون کو پیچیدگیوں کی نذر کر رہے ہیں۔ سٹیٹ سبجیکٹ قانون کو مہاراجہ ہری سنگھ نے 20،اپریل 1927 کو جموں کشمیر پر نافذ کردیا تھا۔ اور اِس قانون کو مقامی جاگیرداروں اور زمینداروں کو باہر کے مالدار لوگوں سے تحفظ فراہم کرنے کی نیت سے عملدر آمد کیا گیا تھا۔ یہ مالدار لوگ یہاں زمین جائیداد خرید کر مقامی آبادی کو بے گھر بنانے کے لئے کمر بندھے ہوئے تھے۔ ریاست کے لئے نئے آئین میں 1957 میں سٹیٹ سبجیکٹ قانون کو مستقل رہائش قانون کا نام دیا گیا اور 14، مئی 1957 سے ایک دہائی سے زائد عرصہ سے قبل ریاست میں رہایش پزیر باشندوں کو مستقل رہائش کے زمرے میں شامل رکھا گیا۔ 25، مارچ 1969 کو ریاستی حکومت نے ڈپٹی کمشنروں کے نام حکم نامہ میں کہا کہ خواتین کے حق میں اجرا مستقل رہائشی سند میں لفظ ’’قابل عمل تاتاریخ شادی‘‘ درج کیا جائے۔ اِس کے بعد خواتین پر لازمی قرار دیا گیا، کہ ریاست کے کسی پشتنی باشندہ کے ساتھ شادی کرنے کی صورت میں مستقل باشندہ سرٹیفکیٹ کی تصدیق نو کی جائے اور غیر پشتنی باشندہ کے ساتھ شادی رچانے کی صورت میں مستقل باشندہ سرٹیفکیٹ اپنے آپ ناکارہ قرار دی جائے گی۔ اِدھر مرد مستقل باشندہ ریاست کو غیر مستقل خاتون باشندہ کے ساتھ شادی رچانے کی صورت میں حقوق شہریت بدستور حاصل رہنے کی نہ صرف اجازت دی گئی، بلکہ اُس کی غیر ریاستی باشندہ بیوی کو بھی حقوق شہریت دیئے گئے اور جب تک وہ ریاست چھوڑ کر جانے اور شادی توڑنے کا فیصلہ نہ کرتی، یہ حقوق برابر حاصل رہیں گے۔ (عبداللہ 1993، زتشی 2004 ملا خطہ ہو)۔
2002

میں ہائی کورٹ نے فیصلہ دیا کہ سٹیٹ سبجیکٹ قانون میں اِس قسم کی تبدیلی لانے میں آئینی رضامندی شامل نہیں ہے کیونکہ یہ تبدیلی جنسی برابری کے حقوق سے متعلق ریاستی و وفاقی آئین کے منشا کے خلاف ہے۔ عدالت کے مطابق یہ تبدیلی برٹش قانون کے سیکشن 10 پر انحصار رکھتی ہے اور ہندوستان کے بٹوارے سے قبل کا معاملہ ہے۔ جب کہ اِس قانون میں بھی ترمیم ہوچکی ہے۔ (بھگت 2005، پوری 2004 )۔ عدالت کے بنچ نے سری پرتاپ کنسالی ڈیشن لا ایکٹ کے سیکشن 4کے حوالے سے کہا، کہ واحد آئینی ممانعت کے تحت مستقل خاتون باشندہ، غیر مستقل (غیر پشتنی )باشندہ کے ساتھ شادی رچانے کی صورت میں اپنی جائیداد غیر پشتنی باشندہ کو فروخت کرنے کی مجاز نہیں ہے۔ لیکن عدالت کے اِس فیصلے سے ہلچل مچ گئی۔ تب کی حزب اختلاف جماعت این سی کے مطابق خاتون باشندہ ریاست کا غیر پشتنی باشندہ کے ساتھ شادی رچانے کی صورت میں جائیداد سے بے دخل نہ ہوجانے کا ترمیمی قانون ریاست کی مخصوص ثقافتی شناخت پر ضرب ہے۔ این سی نے تب کی بر سر اقتدار پی ڈی پی پر الزام عاید کیا، کہ ریاستی ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں زیر التوا اپیل کو واپس لے کر اِس جماعت نے عوامی مفادات پر سمجھوتہ کیا۔ اقتدار پر خطرے کے بادل منڈلاتے دیکھ کر پی ڈی پی نے اپنے خواتین ممبران کے ہمراہ مستقل باشندگی سے متعلق پہلی وضاحت کی بنیاد پر ایک بل کا مسودہ جلد بازی میں مرتب کیا۔ ہندو بنیاد پرست جماعتوں نے مستقل باشندگی سے متعلق مسئلے پر سیاست کرنے کی ٹھان لی اور بی جے پی سمیت آر ایس ایس نے ریاست کی سالمیت کو نقصان پہچانے کے لئے استعمال کیا۔ اِن جماعتوں نے این سی اور پی ڈی پی کی ہائی کورٹ آرڈر کی مخالفت کرنے کے لئے مذمت کی۔ اور اِس کو مسلم علحیدگی پسندی کی پیروی کرنا قرار دیا۔ این سی اور پی ڈی پی نے مقننہ میں ہائی کورٹ کے فیصلے کی مخالفت کی، جبکہ کانگریس اور بی جے پی اِس فیصلے کی طرف داری کرتی رہیں۔ (پوری 2004 )۔ نتیجے میں خواتین کو نہ صرف علاقائی سیاسی جماعتوں نے، بلکہ قومی جماعتوں نے بھی سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال میں لایا۔
خواتین سیاست کاروں اور مقننہ کی نمایندوں نے دوسروں کے اشاروں پر کام کیا اور سماج، ثقافت اور اخلاق کے نام پر قائم اُن ہی اداروں پر تکیہ کیا، جو مرد جنس کی طاقت بڑھانے میں مصروف عمل ہیں۔ (ایمنسٹی انٹرنیشنل 2005، ترک اسلحہ اور امن کے لئے کشمیری خواتین کے اقدامات، پروب گیمک)۔ برسر اقتدار لوگوں نے بھی وابستگی کی سیاست کے لئے اور آفت رسان اوقات پر حکومت کو موثر طریقے سے کام انجام دینے کا موقعہ نہیں دیا۔ (میک کلنٹوکس 396:1997)۔

ڈاکٹر نائلہ علی خان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر نائلہ علی خان

ڈاکٹر نائلہ خان کشمیر کے پہلے مسلمان وزیر اعظم شیخ محمد عبداللہ کی نواسی ہیں۔ ڈاکٹر نائلہ اوکلاہوما یونیورسٹی میں‌ انگلش لٹریچر کی پروفیسر ہیں۔

dr-nyla-khan has 37 posts and counting.See all posts by dr-nyla-khan