گونگا پنجاب اپنی زبان منگدا اے


خواہش تو تھی کہ یہ مضمون پنجابی زبان میں ہی تحریر کرتا لیکن ’ہم سب ‘ کی ادارتی پالیسی آڑے آ گئی، اس لئے صرف عنوان ہی کو پنجابی تک محدود رکھا امید ہے کہ ادارہ ہذٰا اس خلاف ورزی پر در گزر فرما دے گا۔ زبان کسی بھی معاشرے میں خیالات، احساسات، تجربات اور ثقافت کی ترسیل میں بنیادی کردار ادا کر تی ہے۔ شہرہ آفاق بائیولوجسٹ ”چارلس ڈارون کے مطابق زبان کا ارتقا حیوانات کی بے ہنگم آوازوں سے ہوا“۔ انسان سماجی تفاعل کے ذر یعے زبان سیکھتا ہے۔ عام طور پر یچہ تین سال کی عمر تک الفاظ کو تسلسل کے ساتھ ادا کرنا شروع کر دیتا ہے۔ علمائے لسانیات کا خیال ہے کہ اس وقت دنیا میں تقریباً 3 ہزار سے 6 ہزار تک زبانیں بولی جا رہی ہیں۔

 پاکستان بشمول گلگت بلتسان و آزاد کشمیر میں تقریباً 30 زبانیں بولی جاتیں ہیں جن میں پنجابی، پشتو، اردو، سندھی، بلوچی اور ہندکو بڑی زبانیں سمجھی جاتی ہیں۔ یونیسکو کی ایک رپورٹ کے مطابق وطن عزیز میں 48 فی صد لوگ پنجابی، 12 فیصد سندھی، پشتو اور اردو بالترتیب 8 فیصد، 3 فیصد بلوچی اور 2 فیصد لوگ ہندکو بولتے ہیں ۔ اس اعتبار سے پاکستان میں سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان پنجابی (ان اعدادو شمار کے مطابق سرائیکی زبان کو بھی پنجابی کا حصہ تصور کیا گیا ہے) جبکہ پوری دنیا میں پنجابی کا نمبر گیارہواں ہے۔

پنجابی زبان کا ماخذ قدیم ویدک سنسکرت کو سمجھا جاتا ہے جو حضرت عیسٰی علیہ السلام کی پیدائش سے 600 سال قبل برصغیر میں بولی جاتی تھی تا ہم پنجابی کو حقیقی پذیرائی 11 ویں صدی سے ملنا شروع ہوئی ۔ بعد ازاں صوفی شعرا اور گرو نانک دیو نے پنجابی ادب تخلیق کرنے کی طرح ڈالی۔ سن 1600 سے 1850 کے عرصہ کے درمیان سکھوں، صوفی بزرگوں اور کچھ ہندو لکھاریوں نے لا زوال پنجابی ادب تخلیق کیا جو آج بھی اس زبان کا سب سے قیمتی اثاثہ سمجھا جاتا ہے۔ پنجابی زبان کا شمار دنیا کی ان چند ایک زبانوں میں ہوتا ہے جو آج کے دور میں بھی دو بالکل مختلف رسم الخط میں لکھی اور سمجھی جاتی ہے۔ بھارتی پنجاب میں یہ زبان گُرمکھی رسم الخط میں لکھی جاتی ہے جس میں تحریر کو بائیں سے دائیں لکھا جاتا ہے جبکہ پاکستانی پنجاب میں اسے شاہ مکھی رسم الخط میں لکھا جاتا ہے۔

یوں تو پنجابی زبان پاکستان میں سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان ہے لیکن عملی طور پر پنجاب میں یہ زبان بہت تیزی سے زوال پذیری کی طرف بڑھ رہی ہے۔ جہاں بھارتی پنجاب میں پنجابی کو دفتری زبان کا درجہ حاصل ہے وہاں پاکستانی پنجاب میں سکولوں اور کالجوں میں پنجابی بولنے کی سختی سے ممانعت کی جاتی ہے۔ اس کی بہترین مثال اکتوبر 2016 میں ساہیوال میں ایک نجی سکول کی جانب سے طلبا پر سکول کی حدود میں پنجابی بولنے پر پابندی لگانا ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لئے سکول انتظامیہ نے باقاعدہ ایک نوٹس بھی جاری کیا تھا جس میں پنجابی کو ”فاﺅل لینگوئج “ یعنی غیر مہذب زبان قرار دیا گیا تھا۔ ہمارے سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پنجابی زبان بولنے والوں کو جاہل، گنوار، اجڈ اور پینڈو کے القابات سے نوازا جاتا ہے۔ بات یہیں ختم نہیں ہوتی آج کل تو دیہی علاقوں میں بھی نیم خواندہ قسم کی مائیں اپنے بچوں کو پنجابی بولنے پر انتہائی سختی سے ٹوک دیتی ہیں بعض مائیں تو بچوں کو اس ’گناہ عظیم‘ کا مرتکب پا کر تھپڑ بھی رسید کر دیتی ہیں۔ پنجابی زبان کو صرف گالیوں اور جگت بازی تک محدود کر دیا گیا ہے۔ پنجاب میں پڑھے لکھے نوجوانوں کی اکثریت ایسی ہے جو پنجابی زبان لکھنے اور پڑھنے سے نا بلد ہیں۔ یو این او کی ایک رپورٹ کے مطابق اگلے پچاس سالوں میں پنجابی زبان کے معدوم ہونے کا خطرہ ہے۔

بھارتی پنجاب میں پنجابی زبان کے تحفظ کے لئے اعلٰی سطح پر اقدامات ہو رہے ہیں، پنجابی دفتری زبان ہونے کے ساتھ ساتھ علاقائی سطح پر لازمی مضمون کے طور پر نصاب کا حصہ بھی ہے۔ اس کے علاوہ بھارتی پنجاب کی فلم انڈسٹری تیزی سے مقبولیت کی طرف بڑھ رہی ہے ۔ ان فلموں میں پنجابی ثقافت اور لوک گیتوں کو خاص طور پر اجا گر کیا جاتا ہے۔ اس کے بر عکس اگر پاکستانی پنجاب کی بات کی جائے تو یہاں صورتِ حال یکسر مختلف ہے یہاں پنجابی زبان لازمی مضمون کے طور پر نصاب کا حصہ نہیں ہے، کالجز اور ہائیر سیکنڈری سکولز میں مضامین کے ایسے گروپ ترتیب دیئے جاتے ہیں کہ زیادہ تر طلباءپنجابی کا مضمون منتخب کرنے سے گریز کرتے ہیں، آخر میں وہ طلباءرہ جاتے ہیں جو پرائیویٹ امیدوار کے طور پر امتحان میںحصہ لیتے ہیں ایسے طلباءبھی محض اسی لئے پنجابی کے مضمون کا انتخاب کرتے ہیں کہ اس میں عام طور پر نمبر اچھے آ جاتے ہیں حالانکہ ذاتی طور پر انہیں ہیر وارث شاہ یا سلطان باہو کے مرشد میں چنداں دلچسپی نہیں ہوتی۔

نئی نسل میں’ ماں بولی ‘ کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لئے سنجیدہ قسم کے اقدامات کرنے ضرورت ہے۔ پنجابی کو پنجاب میں کم از کم میٹرک تک لازمی مضمون قرار دینا ایک معقول تجویز ہے جس پر اربابِ اختیار کو کان دھرنے چاہییئں، اس کے علاوہ نجی و سرکاری تعلیمی اداروں میں پنجابی زبان بولنے پر پابندی عائد کرنے کی بجائے پنجابی مشاعروں، مباحثوں اور تھیٹر وغیرہ جیسے مشاغل کو فروغ دینا چاہیے تاکہ نوجوان طلباءکے اندر مادری زبان کا تخلیقانہ پہلو بھی سامنے آسکے۔

بھارتی پنجاب کے مکینوں نے تو ماں بولی کے تحفظ کے ساتھ ساتھ گرو نانک، گرو ارجن اور گرو انگد جیسے کرداروں کو ہمیشہ کے لئے امر کر دیا ہے لیکن اگر پاکستانی پنجاب میں صورتِ حال اسی طرح ہی رہی تو اگلی پیڑھی کے سنِ بلوغت تک پہنچتے پہنچتے وارث شاہ، بلھے شاہ، بابا فرید، سلطان باہو اور میاں محمد بخش جیسے لافانی شعرا قصہ پارینہ بن جائیں گے اور کوئی یہ تان چھیڑنے والا نہ ہو گا کہ….

                                                                بلھے شاہ اسیں مرنا ناہیں

                                                                گور پیا کوئی ہور….

(نوٹ:تحریر کا عنوان لاہور میں پنجابی زبان کے تحفظ میں کئے گئے مظاہرے کے ایک بینر سے لیا گیا ہے)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).