غازی صاحب کا شہد کا چھتّا


برصغیر پاک و ہند میں خطوط لکھے جانا کا سنہرا دور 1857ء کے بعد شروع ہوا اور تقریباً 2000ء میں تمام ہوا۔ سیل فون، ای میل وغیرہ جیسی جدتوں اور بدعتوں کی موجودگی میں اب کون خط لکھنے کا تکلف کرے گا۔ دنیا کے ہر گوشے میں آپ جس سے چاہیں، جب چاہیں، فی الفور مخاطب ہو سکتے ہیں۔ یہ سہولتیں، یہ رعایتیں پہلے کہاں تھیں۔ ان چیزوں کو ایجاد کرنے والے یہ کہنے میں حق بہ جانب ہوں گے: ہم کو دعائیں دو، تمھیں فاعل بنا دیا۔

خط ان ڈیڑھ سو برسوں میں لاکھوں لکھے گئے لیکن انھیں محفوظ کرنے پر ہم نے کم توجہ دی۔ بے شک بیشتر افراد کے خط ایسے ہوتے بھی نہیں کہ انھیں سنبھال کر رکھا جائے۔ غضب یہ ہے کہ ہم نے ان حضرات کے خطوط بچانے سے بھی اغماض کیا ہے جو ادبی، سیاسی، تاریخی یا کسی اور حیثیت میں اہم تھے یا ہیں۔

شاید اسی کبھی نہ ختم ہونے والی بے اعتنائی سے گھبرا کے غازی علم الدین نے وہ تمام خطوط جھٹ پٹ کتابی شکل میں چھپوا ڈالے جو انھیں 1996ء سے 2016ء تک موصول ہوے تھے۔ سوچا ہوگا کہ کل کا انتظار کون کرے۔ لگے ہاتھوں، جو بن پڑے، آج ہی کر لینا چاہیے۔ بعض حضرات اس عاجلانہ حرکت کو خود پسندی پر محمول کریں گے۔ حق یہ کہ اسے احتیاط پسندی سمجھنا ہوگا۔

ایک سو اکیانوے حضرات کے خطوط اس مجموعے کی زینت ہیں۔ بیشتر ایک طرح کی رسیدیں ہیں۔ غازی علم الدین نے اپنی زیر ادارت شائع ہونے والے کالج کے رسالے ”سروش“ اور ”سیماب“ انھیں بھجوائے۔ جواب میں ان کا شکریہ ادا کیا گیا۔ اس طرح کے خط آپ ڈھیر سارے جمع کر سکتے ہیں بہ شرطے کہ اپنا رسالہ یا کتاب سیکڑوں افراد کو ارسال کرنے کی استطاعت رکھتے ہوں۔ اس لحاظ سے ان رسائل کی ترسیل پر غازی صاحب نے اچھی خاصی رقم خرچ کی ہوگی۔ معلوم نہیں ڈاک کا خرچ انھوں نے خود برداشت کیا یا کالج نے۔

جن اصحاب کے خطوط نسبتاً طویل ہیں یا معلومات افزا اور دلچسپ معلوم ہوے ان کے اسمائے گرامی درج کرنے میں ہرج نہیں۔ یعقوب نظامی، سیف اللہ خالد، خواجہ غلام ربانی مجال (یہ صاحب باکمال نظر آئے۔ افسوس اب ان سے فیض حاصل کرنا ممکن نہیں)، محمد یعقوب شاہق، ظفر حجازی، اسد عباس خاں، قاضی ظفر اقبال، معین نظامی، شمس الرحمن فاروقی، ظہیر جاوید اور جاوید اقبال تنولی۔ کتاب کے پروف بڑی توجہ سے پڑھے گئے ہیں۔ شاید ہی کوئی غلطی ہو۔ اس کی داد مرتب کو ملنی چاہیے۔

غازی علم الدین کو لسانیات اور زبان کی درستی یا اصلاح سے خاص شغف ہے۔ ان مسائل پر بعض حضرات نے ان سے اختلاف کیا ہے، بعض نے اتفاق۔ ادب کی تفہیم کے بارے میں ہمارے ہاں غلط رویے پروان چڑھتے رہے ہیں۔ خاص طور پر ”میں“ کے معنی متعین کرنے میں اکثر غلطی کی جاتی ہے۔ صیغہ واحد متکلم کا لامحالہ یہ مطلب نہیں کہ شاعر یا فکشن نگار دل کی باتیں کہہ رہا ہے۔ وہ مختلف افراد کے عقائد یا جذبات کی ترجمانی کا خواہاں ہو سکتا ہے۔ اتنی سی بات نہ سمجھنے سے، کم از کم ادب کی تفہیم میں، بڑی خرابی پیدا ہو جاتی ہے۔

زبان کی اصلاح کا معاملہ اور ہے۔ اس میں شک نہیں کہ فی زمانہ بہت معمولی، اور بعض اوقات بہت خراب، زبان لکھی اوربولی جا رہی ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ لکھنے والے، اپنا کلاسیکی سرمایہ پڑھنے کی زحمت نہیں کرتے۔ فارسی سے قطع تعلق نے بھی بگاڑ کو ہوا دی ہے۔ علاوہ ازیں ایسے لوگ اب ہمارے درمیان نہیں جن کی صحبت سے مستفید ہو کر گفتگو کا فن سیکھا جا سکے۔ نتیجہ یہ کہ ہمیں نہ اردو ٹھیک طرح آتی ہے نہ انگریزی۔ ایک عجیب کھچڑی زبان وجود میں آ رہی ہے جس میں آیندہ نہ شاعری ممکن ہوگی نہ فکشن نگاری۔

زبان کی ایک حد تک درستی ممکن ہے۔ اس حد کو پار کرنے کے بعد ہم اپنی مشکلات میں اضافہ کریں گے اور زبان کا کچھ بھلا نہ کر پائیں گے۔ زبان انسانوں کی سب سے تہ دار اور غیر منطقی تخلیق ہے۔ اسی تخلیق کے بل بوتے پر اسے فوقیت حاصل ہے۔ ورنہ بعض سماجی حشرات کے معاشرے اس قدر منظم ہیں کہ ان کے سامنے ہماری کاوشیں ہیچ ہیں۔ فرق یہ ہے کہ کروڑوں سال سے وہ میکانکی انداز میں خود کو دہراتے آئے ہیں۔ ان کے برعکس انسان ہزاروں سال میں کہاں سے کہاں جا پہنچا اور یہ فضیلت اسے زبان سے ہے۔

جب زبان کو بے عیب بنانے کی بات ہوتی ہے تو انیسویں صدی اور بیسویں صدی کے اوائل کے وہ یورپی فاضل احمق یاد آتے ہیں جو سمجھتے تھے کہ انسانوں کی ایک افضل اور برتر نسل پیدا کرنے میں جلد کامیاب ہو جائیں گے اور پھر صرف اسی نئی نویلی، اور ظاہر ہے یورپی، نسل کو جینے کا حق ہوگا۔ ہر زبان ایک کراماتی، خود فرمان اور خود کفیل شے ہے۔ کوئی شخص، چاہے کتنا ہی بڑا نابغہ ہو، اسے رام نہیں کر سکتا۔ اس ضمن میں غازی صاحب کی مساعی مستحسن نہیں اور انجام کار اس سے کچھ حاصل نہ ہوگا۔ اتا ترک کے دور میں کوشش کی گئی تھی کہ ترکی سے فارسی اور عربی کے الفاظ نکال دیے جائیں۔ آخر ناکامی کے سوا کچھ نہ ملا۔ یاد آتا ہے کہ غازی صاحب نے کہیں لکھا تھا کہ بار بیرین کا لفظ شمالی افریقہ کے بربر مسلمانوں کی تحقیر کے لیے گھڑا گیا۔ دراصل یہ یونانی لفظ ہے جو کم و بیش ڈھائی ہزار سال یا اس سے بھی زیادہ پرانا ہے۔ اس کا بربر قبائل سے دُور کا بھی تعلق نہیں۔ یونانی ہر اس قوم کو، جو اپنی بولی بولتی تھی، بربروئی کہتے تھے۔ مطلب یہ تھا کہ پتا نہیں یہ غیر ملکی کیا بڑ بڑ کرتے رہتے ہیں۔ ہمارے پلے کچھ نہیں پڑتا۔ اگر اسی انداز سے، اپنے تعصبات کو ساتھ لے کر، لسانی معاملات پر رائے زنی کی جائے گی تو پھر ٹھوکریں کھانا ناگزیر ہے۔ وہ جو جی چاہے لکھیں، نتائج اخذ کریں اور زبان کو بنائیں سنواریں۔ یہ آزادی انھیں حاصل ہے اور ہونی بھی چاہیے۔ یہ کسی کو معلوم نہیں کہ آنے والے برسوں میں اردو کیا روپ اختیار کرے گی یا اس کے اختیار میں کچھ رہے گا بھی۔ آئیے، ہم آپ انتظار کرتے ہیں کہ، خطوط کی صورت میں، ہمارے کام و ذہن کے لیے، غازی صاحب شہد کا اگلا چھتّا کب لگاتے ہیں۔ خط پڑھنے کا مزہ ہی کچھ اور ہے۔

اہل قلم کے مکاتیب بنام غازی علم الدین، مرتب ڈاکٹر آصف حمید

ناشر: مثال پبلشرز، فیصل آباد۔

ص، 558؛ ایک ہزار روپیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).