ہمارے ستاروں کی چالیں


یہ کہانی ایک حجام کی دکان سے شروع ہوئی۔

انتظار کے لئے مخصوص نشستوں کے قریب اخبارات اور میگزین پڑے ہوتے ہیں۔ لڑکپن میں اخبار کون پڑھتا ہے؟ سو ہم نے ایک میگزین اٹھا لیا۔ بچوں کا صفحہ اس رسالے کے درمیانی صفحات کے قریب چھپتا تھا اور ہم نے سیدھا اسے ہی کھولنا چاہا۔ اتفاق سے اس روز ایک ایسا صفحہ کھل گیا جو پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ کچھ ستاروں اور بروج کے بارے میں لکھا تھا۔ تجسس ہوا اور مزید پڑھا تو معلوم ہوا کہ تاریخ پیدائش کے حساب سے ہر شخص کا ایک برج یاستارہ ہوتا ہے اور وہ ستارہ اس کی شخصیت اور عادات کے بارے میں بتا سکتا ہے۔ دیے گئے چارٹ کے مطابق ہمارے برج کا نام حمل لکھا تھا۔ علامتی نشان کے لیے ساتھ ایک مینڈھے کی تصویر بنی ہوئی تھی۔

سچ پوچھیں تو ہمیں یہ برج بالکل پسند نہ آیا۔ سْپرمین کے فین کو قوس کا تیر انداز جنگجو ز یادہ اچھا لگا۔ خیر، مزید پڑھنا چاھتے تھے کہ بال کٹوانے کی باری آ گئی اور ہم نے رسالہ رکھ دیا۔ پہلی فرصت میں اس برج سے متعلق ایک کتاب خریدی گئی۔ پڑھنا شروع کیا تو حیران ہوتے گئے۔ یہ تو ایسے تھا کہ کسی ذاتی دوست نے ہمارا خاکہ لکھا ہو۔ ہُو بہ ہُو ہماری عادات۔ برج حمل کے لوگ یعنی دل کے سچے لوگ، فیاض، زبان کے کھرے، دوستوں کے کام آنے والے، لیکن تھوڑے سے جلد باز! واہ وا! کیسا سولہ آنے پکا علم تھا۔ حیرت ہوئی کہ نصاب میں کیوں نہیں شامل۔ کتاب بھی اچھی اور مناسب قیمت کی تھی۔ سرورق پر بلا وجہ کی نمودونمائش سے مکمل گریز! مصنف کوئی ’پروفیسر‘ صاحب تھے۔ مزید کئی متفرق علوم سے متعلق بھی لکھ چکے تھے۔ مثلاً پولٹری فارمنگ، ایک ماہ میں چینی زبان، بیکری کا کام وغیرہ۔ اور ہم نا شکرے لوگ قحط رجال کا رونا روتے ہیں! برکت کیسے ہو؟

خیر، اس نئے علم سے ہماری زندگی میں کئی مثبت تبدیلیاں آئیں۔ پہلے ہم اکثر دوستوں سے اپنی تنک مزاجی کے سبب، جس میں ہمارا کوئی قصور نہ تھا ہمارے برج کا تھا، کوئی سخت بات کہہ جاتے۔ خواہ مخواہ کئی دن پچھتاوہ رہتا۔ اب یہ بہتری آئی کہ ہم نے اپنے جارح مزاج رویئے کے لیے پشیمان ہونا چھوڑ دیا۔ ایک اور تبدیلی یہ آئی کہ دوستوں کی تعداد بہت کم رہ گئی۔ اب آپ سے کیا چھپانا، صاف گو لوگ کسی کو پسند ہی نہیں آتے۔ ایک اور نیا کام ہم یہ کرنے لگے کہ دوسروں کے بھی برج کے بارے میں جاننے لگے۔ ہمیں بتایا گیا کہ ہمارا مخالف برج میزان ہے جو بڑے سیاسی اور چالاک لوگ ہوتے ہیں۔ میزان کے زیر اثرپیدا شخصیات میں گاندھی جی کا نام پڑھا تو خیال کو مزید تقویت ملی۔ کچھ پیشگویاں خود میں اپنے آپ کو پورا کروانے کی طاقت رکھتیں ہیں۔ ’ میں نے تو پہلے ہی کہا تھا کہ یہ بندہ ٹھیک نہیں‘ ٹائپ کام شروع ہو گیا۔ تعصبات بڑے نمک حلال ہوتے ہیں۔ اپنے پالنے والوں کو مایوس نہیں کرتے۔ استاذی حاشر بن ارشاد کو سلام پہنچے۔

لیکن اس ’شعبہ ‘کے ایک صاحب ایسے بھی ملے کہ جن کے کمال کے ہم معترف ہیں۔ پاکستانی روایت کے مطابق شادی کے بعد کوہ مری جانا ہوا۔ مال روڈ پر چہل قدمی کے دوران خاتون ایک دکان میں گرم شال خریدنے چلی گئیں۔ اسی پلازہ کی ایک دکان میں ایک صاحب بورڈ لگا کر بیٹھے تھے کہ محض نام سے آپ کی شخصیت بتاتے ہیں۔ غلط ثابت ہونے پر فیس واپس۔ چلو یہ بھی دیکھتے ہیں۔ فیس ادا کی اور نام بتایا۔ وہ صاحب گویا ہوئے کہ نام کے پہلے حرف یعنی ک کے مطابق ہمارا برج ہے جوزا۔ وہی فہرست دل کے سچے لوگ، فیاض، زبان کے کھرے، دوستوں کے کام آنے والے، لیکن تھوڑے سے جلدباز۔ لاحول ولا! لیکن پکچر ابھی باقی تھی۔ فرمایا برج جوزا کا مخالف برج ہے قوس۔ وہ لوگ جن کا نام ف سے شروع ہو۔ ہم ابھی سر ہلا ہی رہے تھے کہ اہلیہ ہمیں ڈھونڈتے ہوئے آئیں اور پوچھا کہ کیا ہوٹل کے کمرے کی چابی ہمارے پاس ہے؟ ہم نے جواب دیا، ہاں، فائزہ۔ یہ سن کر وہ صاحبِ خوش اطوار مسکرا کر بولے’ میرے منہ میں خاک‘ اور ہمیں فیس واپس دینا چاہی۔ اپنے حال پہ ہنسنے سے بڑا کیا کمال ہو گا؟

پھر ایک دن پرانے کاغذات ٹٹولتے اپنا سکول چھوڑنے کا سرٹیفیکیٹ ملا۔ سکول کی یادیں، بچپن کے دن۔ ابھی ناسٹلجیا کا حملہ قریب ہی تھا کہ نظر اپنی درج شدہ تاریخ پیدائش پر گئی: اٹھایئس نومبر! دھت تیرے کی!حق بات ہے اس کے بعد، نئی خوبیوں، خامیوں کی، نئے دوستوں، دشمنوں کی فہرست جاننے کا حوصلہ نہ تھا۔ حیرت کہ ایک عمر غلط فہمی میں مبتلاء رہے۔ تہیہ کر لیا کہ آئندہ را احتیاط۔ اصل قصہ بعد میں ابا نے بتایا کہ مشنری سکول میں داخلے کے وقت ہماری عمر داخلے کے لیے مخصوص عمر سے چند ماہ کم یا زیادہ تھی۔ چونکہ داخلہ ٹیسٹ پاس کر لیا تھااس لیے دفتر کے کلرک کے مشورہ سے یہ تاریخ پیدایئش لکھوائی گئی۔ اٹھائیس مارچ کے بجائے اٹھائیس نومبر۔ سو یہ ہے کوہلو کے بیل کا سفر۔

لیکن شاید بیل اپنے دائرے کے سفر کے بعد اتنا بے مایہ بھی نہیں رہتا۔ درخت کے تنے میں عمر کے ساتھ بڑھتے دائرے کمزوری نہیں ہوتے۔ بقول آسکر وائلڈ، غلطیوں کا نام ہی تجربہ ہے۔ یا فرمایا مشتاق احمد یوسفی نے کہ کائنات توہم کا کارخانہ ہے، یاں وہی ہے جس پہ اعتبار کیا۔ سو کیوں نا یہ اعتباراپنے آپ پہ کیا جائے؟

اور اگر آپ کو ایسا لگے کہ یہ سارا مضمون محض آپ یہ بتانے کا واسطے کھینچا گیا ہے کہ آج اٹھائیس مارچ، ہمارا جنم دن ہے تو بردباری سے کام لیں اور یہ حماقت برج حمل کی عادات کے کھاتے میں ڈال دیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).