لبنانی خون آشامی


Loading

لبنان کی اپنی ہی ایک الگ داستان الم ہے جس کے ڈانڈے شام سے جا ملتے ہیں۔ یہ کوئی قصہ دو چار برس کا نہیں نصف صدی کی کہانی ہے۔ قتل و غارتگری کی داستانیں ہیں جو زبان زد عام ہیں۔ اب لوگوں کو ایک صبح نو کا انتظار ہے اور مشتاق ہیں کہ ان کے ہاں بھی کوئی امن و سکون کا پہر ہو۔ سیاسی و عسکری میدان ہو یا عام روزگار حیات۔ ہر وقت اہل اسد کے درماندگی کے قصے ہیں۔ عرب اسرائیل جنگ جو 1973 میں ہوئی تب سے حافظ الاسد نے یہ طریقہ ہی بنا لیا کہ اپنی جلد بچانے کے لئے وادی بیکا کو آڑ بنالیا۔ یوں وہ اسرائیل سے براہِ راست مڈبھیڑ سے بچ نکلنے کی کاوش کرتا رہا۔ چونکہ وہ بذات خود ایک غاصب تھا اور اسے ہمہ وقت یہ خوف دامن گیر رہتا تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو جائے کہیں ویسا نہ ہو جائے لہذا اس کی بھرپور کوشش تھی کہ اسرائیل کو ایک حد سے آگے نہ بڑھنے دیا جائے خواہ اس میں کتنے بے گناہ فلسطینیوں اور لبنانیوں کی جانیں قربان ہوجائیں۔ ان میں یاسر عرفات کی پی ایل او، فلسطینیوں کی الفتح تنظیم، عراقیوں کی فتح کونسل تحریک، حافظ الاسد کا متحارب دھڑہ جس کی سربراہی محمد حمدان کرتا تھا اسے 1972 میں شامی انٹیلی جنس کارندوں نے قتل کر دیا تھا۔ اس حوالے سے صدام حسین بھی خاصے سرگرم تھے جس نے لبنان کو مشق ستم بنائے رکھا۔ اس صورتحال میں حافظ الاسد کبھی بھی لبنان کو فری نہیں چھوڑ سکتے تھے۔ کیونکہ لبنان ایک کھلا ڈھلا سا ملک ہے جس میں کچھ بھی کیا جاسکتا تھا لہذا شامی کبھی اس سے سرمو انحراف کا خطرہ مول نہیں لے سکتے تھے۔ پھر ان کی جو لانی طبع سے رہا نہیں گیا اور بالآخر لبنان پہ قبضہ کر لیا جو 29 سال پہ محیط تھا۔ اس کے بعد ایک پندرہ سالہ خانہ جنگی نے مت مار دی جس کی بنیاد عیسائی آبادی کے خلاف شدت پسندی بنی۔ کمال جمبلات جو دروز عیسائیوں کے قائد تھے انہیں 16 مارچ 1977 کی قتل کر دیا گیا اس کا الزام بھی رفعات کے نام لگا جو حافظ الاسد کے بھائی تھے۔ اسرائیل نے 1982 میں لبنان میں گھس کر پی ایل او کے خلاف کام کیا اور اس وقت حافظ کی خوشی دیدنی تھی اسی وجہ سے میرونائٹ عیسائیوں کی لبنان میں حکومت سازی ہوئی دراصل شامیوں کو خدشہ لاحق تھا کہ کہیں فلسطینیوں کی لبنان میں موجودگی اسرائیل کو بھڑکا نہ دے جس سے وہ حملہ آور ہو کر اس کے خلاف بھی کوئی جارحانہ کارروائیوں میں ملوث ہو جائے حافظ الاسد نے ہر وہ کام کیا جس سے یاسر عرفات کمزور و ناتواں ہو جائے۔ جون 1982 میں اسرائیلی فوج بیروت پہ قابض ہو گئی یوں شامی فوج کو نہ صرف نکال باہر کیا بلکہ یاسر عرفات کی جماعت اور اسے خود بھی نکال دیا گیا اور لبنان میں فلسطینیوں کا اثر و رسوخ ختم ہو گیا۔ یہ موقع حافظ الاسد کے لئے ایک غنیمت تھا کہ وہ اپنے قدم لبنان کے اندر جما لے کیونکہ لبنان پہ قابو پانا اپنے ملک کے حالات سدھارنے کے برابر ہی تھا۔ یاسر عرفات اس کے بعد لیبیا چلا گیا اور سال بھر بعد ہی بیروت واپس آ گیا پھر ایک طویل خانہ جنگی کے بعد 1990 میں اس کا خاتمہ ہوا۔ 1991 تا 2005 شام کا لبنان میں مکمل اثر و رسوخ قائم رہا۔ اس دوران بھی مار دھاڑ جاری ہی رہی مگر 26 اپریل 2005 کو اسے لبنان سے انخلاء کرنا پڑا۔ لیکن بڑے بڑے اہم ترین لوگوں کو چن چن کر نشانہ بنایا گیا جس میں وزیر اعظم رفیق الحریری بھی شامل تھا جنہیں قتل کر دیا گیا۔ صحافیوں کو بھی خاص نشانہ بنالیا گیا اور انہیں چن چن کر مارا گیا۔ 2011 میں لبنان میں کابینہ تشکیل دی گئی اس میں اکثر وزراء بشار الاسد کے من پسند افراد تھے جو شامی مفادات کا تحفظ لبنان میں قائم و دائم رکھنے میں ممد و معاون ثابت ہوئے۔ لبنانی معاشرت و سیاست میں شامی اثرات بدستور برقرار ہیں۔ حزب اللہ کی پیدائش اور پھیلاؤ میں بھی شامی اثرات برقرار ہیں۔ لبنانی خون آشامی میں شام کا انمٹ کردار ہے جو تادم تحریر قائم و دائم ہے۔ اسرائیل نے اپنی دلی تمنا ایک نقشے پر ظاہر کردی ہے جس میں اس نے لبنانی، شامی اور اردنی علاقوں کو اسرائیل کے اندر دکھایا ہے۔

پوری عرب دنیا اس کی مذمت کرتی ہے۔ لبنانی جنرل جوسف اون ملک کا چودہواں صدر منتخب ہو گیا ہے۔ لبنان میں ایک نئے صدر کی تلاش پچھلے چھبیس ماہ سے جاری تھی۔ اب اون کو 99 ووٹ ملے جس سے وہ اگلے چھ برس کے لئے عہدۂ صدارت پہ متمکن ہوا ہے۔ وہ اکسٹھ سالہ نوجوان ہے۔ اون کے گاؤں جو جنوبی لبنان کے مضافات میں واقع ہے اس کا نام الآچھیا ہے جہاں خوب ڈھول ڈھمکے بجائے گئے ہیں۔ پارلیمنٹ میں وہ پہلی مرتبہ سول لباس میں داخل ہوا۔ وہ ملٹری کالج کا تعلیم یافتہ ہے۔ اور 8 مارچ 2018 سے سپہ سالار تھا۔ وہ کہتا ہے ملک میں اب قانون اور آئین کی پاسداری کی جائے گی اور ہم سب مل کر اداروں کو مضبوط کریں گے اور عدلیہ کے زیرسایہ کام کریں گے۔ اب کوئی بھی ادارہ یا شخص عدلیہ میں مداخلت نہیں کرے گا۔ جنرل کی شہرت رفاہی اور فلاحی کاموں کے حوالے سے اچھی ہے۔ دعا ہے کہ لبنان میں بھی امن و شانتی لوٹ آئے۔ لبنان مشرقِ و سطیٰ میں ایک انتہائی اہم اور شاندار ملک ہے جس کا ایک خاص تمدن و تہذیب اسے منفرد بناتی ہے۔ بیروت کو ایشیا کا پیرس کہا جاتا تھا۔ پھر خانہ جنگی اور علاقائی تنازعات نے اس کا حسن ماند کر ڈالا۔ اب اسرائیلی جارحیت کے بعد ایک عارضی سا امن ہوا ہے، دیکھئے اس کی پائیداری کب تک برقرار رہتی ہے۔ البتہ اندرونی سیاسی حالات میں بہتری سے شب ستم کے اختتام کی کچھ بھنک پڑ رہی ہے اور ہماری خواہش ہے کہ لبنانی اپنی آزادی و خودمختاری کا تحفظ کر پائیں اور اپنے مستقبل کا خود فیصلہ کرسکیں۔ اب جنرل جوسف اون صدر بن گئے ہیں، اور انہوں نے پہلا اچھا کام یہ کیا ہے کہ ایک وزیر اعظم کو نامزد کر کے ایک سیاسی خلا پر کر دیا ہے۔ وزیر اعظم کے لئے انہوں نے ایک نہایت دانشمندانہ نام چنا جس پہ پوری قوم کو اتفاق ہو گا۔ نواف سلام کو وزیر اعظم نامزد کیا گیا ہے جو انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس کے ایک جج رہے ہیں ان کا بیروت کے ایک نہایت ممتاز اور ایک معزز خاندان تعلق سے ہے وہ 72 سالہ تجربہ کار انسان ہیں اور ان کا نام کئی مرتبہ پہلے بھی وزیر اعظم کے چناؤ کے لئے سنا گیا۔ ان کے ایک بھائی صائم سلام اور بھتیجا طمام سلام اس سے قبل لبنان کے وزیراعظم رہ چکے ہیں۔ جسٹس نواف سلام اس سے قبل اقوام متحدہ میں لبنان کے مستقل نمائندے کے فرائض سر انجام دے چکے ہیں۔ امید ہے یہ تبدیلیاں لبنان میں سیاسی استحکام لائیں گے جس سے معیشت ترقی کرے گی اور عوام ایک خوشحال زندگی بسر کریں گے۔

دوبئی نے اسی خوشی کے عالم میں اپنا سفارتخانہ کھولنے کا اعلان کر دیا ہے۔ جو بدامنی کی وجہ سے ایک طویل عرصہ سے بند تھا۔ سعودی اور دیگر کئی عرب ممالک اس وقت صلح جوئی کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ اس خطہ میں امن کی واپسی ممکن بنائی جا سکے۔ وہ دن دور نہیں جب ایک صبح نو بیروت کو منور کرے گی۔ مشرق وسطیٰ، جو طویل عرصے سے تنازعات کا شکار رہا ہے، حالیہ دنوں میں ایسے انقلابی واقعات کا مشاہدہ کر رہا ہے جو کئی دہائیوں کی کشیدگی سے نمایاں مختلف نظر آ رہا ہے۔ بم دھماکوں، آمرانہ حکمرانی، عسکری تنازعات اور وسیع پیمانے پر مصائب کے سالوں کے بعد ، یہ خطہ امن اور استحکام کی جانب طویل انتظار کے بعد ایک اہم موڑ پر پہنچ چکا ہے۔ ایک انتہائی قابل ذکر پیشرفت شام میں بشار الاسد کے دورِ حکومت کا خاتمہ ہے۔ دمشق سے ان کی روانگی نے نہ صرف ہزاروں بے گناہوں کو بدنام زمانہ سیڈنایا جیل سے آزاد کرایا ہے بلکہ ایک ایسے جابرانہ نظام کو بھی ختم کر دیا ہے جو ظلم و ستم کا مترادف تھا۔ یہ اہم لمحہ جلد ہی لبنان میں تاریخی جنگ بندی کے بعد آیا، جس نے ملک کے ایسی ناقابل یقین سیاسی تبدیلیاں لائی ہیں جو مدت سے عوام چاہ رہے تھے۔ اب لبنان نئے منتخب صدر کے تحت نئی امیدیں دیکھ رہا ہے۔ ان کے ساتھ ایک تجربہ کار اور قابل احترام وزیرِ اعظم ہیں جو بیروت کے انتہائی ممتاز خاندان سے تعلق رکھتے ہیں، جو ملک کے لیے ایک نیا آغاز ثابت ہو سکتا ہے۔ اس لہر میں مزید اضافہ ایک بے مثال امن معاہدہ ہے جو حماس اور اسرائیلی فوج کے درمیان طے پایا ہے۔ یہ معاہدہ فلسطینی عوام کے دو ریاستی حل کے پائیدار مطالبے کی توثیق کرتا ہے، جو ایک ایسے عوام کی مزاحمت کو ظاہر کرتا ہے جنہوں نے ناقابل بیان مشکلات کو برداشت کیا ہے۔

ان امید افزا تبدیلیوں کے باوجود، دیرپا امن کی راہ ہموار کرنا ایک دشوار گزار سفر ہے۔ اس پیشرفت کو برقرار رکھنے کے لیے عالمی برادری کو شام، غزہ، ویسٹ بینک فلسطین، اور دیگر متاثرہ علاقوں میں بحالی اور تعمیر نو کی کوششوں میں مدد کرنا ہوگی۔ بنیادی انفراسٹرکچر کی تعمیر نو، معیاری صحت کی سہولیات کی فراہمی، اور تعلیم تک رسائی کو ان کوششوں میں اولین ترجیح دینا چاہیے۔ نوجوانوں کو ان منصوبوں میں شامل کرنا انتہائی اہم ہو گا ان کو با اختیار بنانا اور سماج میں انضمام مستقل امن کے لئے ضروری ہے۔ علیحدگی اور پسماندگی سے ہر قیمت پر بچنا چاہیے کیونکہ شمولیت طویل مدتی استحکام کی بنیاد رکھے گی۔ تاریخ گواہ ہے کہ مصالحت، مکالمہ، اور تعاون ہی دیرپا امن کے واحد راستے ہیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ اس صبر کو ایک ایسے مستقبل کی تعمیر کے لیے استعمال کیا جائے جو تنازعات کی بجائے بقائے باہمی پر مبنی ہو تاہم، اس لمحے کو حاصل کرنا اجتماعی کوششوں کا متقاضی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments