اور زندگی اس کی آنکھوں میں مر گئی


سچ تو یہ ہے کہ ثریا اب اکتا سی گئی تھی خود کو بہلاتے بہلاتے۔ اس نے مکمل خواب دیکھے لیکن کوئی مکمل خوشی نہ دیکھی۔ بچپن لڑکپن میں ڈھل گیا اور لڑکپن نے جوانی کی دہلیز کو چھو لیا لیکن اس کی چھوٹی چھوٹی معصوم ادھوری خواہشوں کو قرار نہ ملا۔ جب بھی وہ ماضی کی کتاب کا کوئی ورق الٹتی غمگین ہو جاتی۔

اسے اچھی طرح سے یاد ہے جب چھوٹی تھی تو شہر کے ایک بڑے بنگلے پر ماں کے ساتھ کام کرنے جایا کرتی۔ ماں برتن مانجھتی ، جھاڑو لگاتی ، کپڑے دھوتی ، استری کرتی، فرنیچر صاف کرتی ، بنگلے کی مالکن کو بیگم صاحبہ، بیگم صاحبہ کہہ کر مخاطب کرتی۔ بیگم صاحبہ کے بچوں کے پاس ہر طرح کے کھلونے تھے۔ بچے گھر میں اچھلتے کودتے، کھلونوں سے کھیلتے، کبھی کھلونے توڑتے، اٹکن بٹکن کھیلتے اور ثریا مرجھائی ہوئی نظروں سے یہ سب دیکھا کرتی۔ اسے اچھی طرح سے یاد ہے ایک بار جب اس نے اپنی ماں سے ضد کی کہ مجھے بھی ایسے ہی کھلونے لا دو تو ماں نے اسے سمجھایا کہ ’ڈنگ ٹپانے کو پیسے نہیں اور تجھے کھلونے چاہئیں‘ جب نہیں مانی تو اس کی پٹائی کر دی۔ اس دن کے بعد سے ثریا نے کبھی کسی چیز کی ضد نہیں کی تھی۔ اسے یہ بھی یاد ہے کہ کس طرح ایک روز بیگم صاحبہ کا سوٹڈ بوٹڈ صاحب گھر میں داخل ہوا تو خوشی سے پھولا جا رہا تھا۔ کندھے اچکا کر بیوی سے بولا۔ ’آج عدالت نے میرا کیس بالآخر خارج کر ہی دیا۔ بیگم کی آنکھیں حیرت سے کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ وہ کیسے؟ بیوی کے استفسار پر صاحب نے بتایا کہ ایک کروڑ کے غبن کا الزام تھا۔ پچاس لاکھ میں جج کو منوایا۔ وہ تو اچھا ہوا جج اپنی ہی برادری کا نکلا ورنہ پھنس گیا تھا‘ اور یہ سب سن کر بیگم صاحبہ کے چہرے پر شیطانی مسکراہٹ پھیل گئی۔

ایک واقعہ ثریا کے ذہن میں نقش ہو گیا تھا۔ جب بیگم صاحبہ نے چوری کا الزام لگا کر ثریا کی ماں کو دھکے دیکر گھر سے نکال دیا۔ ثریا کی ماں بیگم صاحبہ کے پاو¿ں پکڑ کر ہاتھ جوڑ کر اپنی بے گنا ہی کی دہائیاں دیتی رہی لیکن بیگم صاحبہ غلیظ گالیاں دیے جا رہی تھی۔ اس نے غراتے ہوئے ثریا کی ماں کو کہا کہ ’ تم چھوٹے لوگ ہوتے ہی گھٹیا ذات ہو ‘۔ تب سے ثریا نے یہ باور کر لیا تھا کہ گھٹیا ذات نہیں انسان کی سوچ اور رویے ہوتے ہیں۔ جب بھی ثریا کو یہ سب یاد آتا اس کی آنکھوں سے دکھ کے فوارے پھوٹ پڑتے۔ وقت کے ساتھ ساتھ حالات و واقعات کے تلخ تجربات و مشاہدات نے اسے یہ باور کرا دیا تھا کہ سماج کی ناہمواری اور غربت کی ایک بڑی وجہ ناجائز امارت ہے۔

بلقیس بیگم کی نوکری سے فراغت کو کئی دن گزر گئے اور گھر میں فاقہ کشی کی نوبت آ گئی۔ بلقیس بیگم کا میاں گھر میں چارپائی پر پڑا تھا۔ کچھ ہی روز قبل روڈ ایکسیڈنٹ میں ایک ٹانگ سے معذور ہو گیا۔ کام سے تھا تو سبزی کا ٹھیلہ لگاتا۔ کبھی دو کبھی تین کبھی چار سو روپے دیہاڑی بچا لیتا۔ اس طرح بلقیس بیگم اور عزت اللہ کی محنت سے اتنا پیسہ آ جاتا کہ زندگی کا پہیہ بمشکل گھوم رہا تھا لیکن اب تو تن اور روح کا ملاپ برقرار رکھنا مشکل ہو رہا تھا۔

وقت نے پلٹا کھایا اور بلقیس بیگم کو ایک دوسرے بنگلے پر کام مل گیا۔ جلد ہی بلقیس بیگم کو یہ خوشگوار احساس ہونے لگا کہ اس بنگلے کے لوگ اور ماحول پہلے والوں سے یکسر مختلف تھا۔ اس بنگلے کی بیگم صاحبہ منکسرالمزاج اور ہنس مکھ تھی۔ پہلی بار جب ثریا ماں کے ساتھ بنگلے پر آئی تو اس کا دل کیا کہ یہیں کی ہو کر رہ جائے۔ یہاں ثریا کا صوفے پر بیٹھنا اور ٹی وی دیکھنا منع نہیں تھا۔ پیٹ بھر کے کھانا ملتا۔ اور تو اور وہ یہاں بچوں کے کھلونوں کو نہ صرف ہاتھ لگا سکتی بلکہ کھیل بھی سکتی تھی۔ کچھ ہی دنوں میں وہ بچوں میں گھل مل گئی۔ اب اسے اچھے اچھے کپڑے بھی پہننے کو ملتے۔ بیگم صاحبہ کو جب معلوم ہوا کہ تعلیم ثریا کا سب سے بڑا خواب ہے تو نہ صرف سکول میں داخل کرایا بلکہ پڑھائی کے اخراجات اپنے ذمے لے لئے۔ اب ثریا خوشی خوشی سکول جانے لگی۔

آٹھویں جماعت میں تھی جب نفیسہ شاہ کا خاندان بیرون ملک منتقل ہو گیا لیکن بیرون ملک جانے کے بعد بھی نفیسہ شاہ نے ثریا اور اس کے خاندان کی مالی امداد سے ہاتھ نہیں کھینچا۔اب ثریا نے سلائی کڑھائی کا کام بھی سیکھ لیا تھا اور پڑھائی اور کمائی ایک ساتھ ہونے لگی۔ بالآخر وہ دن بھی آیا جب ثریا نے چودہ جماعتیں پاس کر لیں اس طرح پانچ بہن بھائیوں میں ثریا ہی تھی جو تعلیم حاصل کر سکی۔

معاشی تنگ دستی اور محرومیوں کی وجہ سے ثریا کے احساسات پر افسردگی اور احساس محرومی کی چھاپ لگی ہوئی تھی لیکن اس کا منگیتر ابصار اس کی زندگی کی کتاب کا ایک رنگین ورق تھا۔ سب سے زیادہ حسین ورق۔ یہ ابصار کی محبت کا احساس ہی تھا جو ثریا کے سارے دکھوں کا مداوا تھا۔ ایک صبح ثریا کو ابصار کا پیغام موصول ہوا کہ ’ آج کسی وقت میں کال کروں گا۔ کوئی ضروری بات کرنی ہے فون آن رکھنا‘۔ ثریا اس روز بہت خوش تھی ….کیوں نہ ہوتی…. ابصار اس سے کوئی ضروری بات کرنے والا تھا۔کیا کہے گا۔ یہی نا کہ ثریا ہمارے خوابوں کو اب تعبیر مل جائے گی، میں نے کہا تھا نا وقت صدا ایک سا نہیں رہتا، تمہارا انتظار اور دعائیں رنگ لے آئیں۔ میری اچھی تنخواہ پر نوکری لگ گئی ہے۔ بس پاکستان لوٹتے ہی ہم شادی کے بندھن میں بندھ جائیں گے۔ تند و تیز خیالات نے اس کے دماغ میں ہلچل مچا رکھی تھی۔ شام کے سائے گہرے ہو رہے تھے۔ سارا دن ثریا نے خوشی اور بے چینی کی کیفیت میں گزار دیا۔ کبھی وہ کمرے میں ٹہلتی، کبھی حیرت زدہ نظروں سے شیشے میں خود کو دیکھتی، کبھی سرہانے کے نیچے سے ابصار کی فوٹو نکال کر دیر تلک اس پر نظریں گاڑھے رکھتی، اسے یہ بھی یاد نہ رہا کہ باورچی خانے میں کام بھی کرنا ہے،ہانڈی روٹی تیار کرنی ہے، اچانک باورچی خانے میں کچھ گرنے کی آواز آئی۔ اس نے چونک کر کر ادھر ادھر دیکھا اور بھاگتی ہوئی باورچی خانے میں پہنچی۔ دیکھا برتنوں کی ٹوکری فرش پر پڑی ہے اور ماں برتن سمیٹ رہی ہے۔

اماں کیا ہوا….؟ کانپتی ہوئی آواز میں بولی۔

دیکھ نہیں رہی کیا ہوا۔ تجھے معلوم بھی ہے تیرا باپ کام سے لوٹتے ہی کھانا کھاتا ہے۔ سارا دن ایک پیالی چائے اور دو انڈوں پر گزارتا ہے۔ لیکن تجھے کسی کی فکر ہو تو نا! کل کو پرائے گھر میں جائے گی تو کیسے نبھا کرو گی۔ ماں کی باتیں سن کر وہ منہ سے کچھ نہ بولی لیکن چہرے پر تکلیف کے آثار نمایاں ہو رہے تھے۔ اماں تو نے کبھی مجھے پیار بھری نظروں سے نہیں دیکھا۔ابا نے کبھی شفقت بھرا ہاتھ میرے سر پہ نہیں رکھا’ اگر جھڑکنا ہی تھا تو مجھے دنیا میں لایا ہی کیوں‘۔ بھائی تو سارا دن بے کار پڑا رہتا ہے، اسے نشے کی لت لگی ہے، گھر کی چیزیں تک اس نے فروخت کر دیں، لیکن پھر بھی تو نے اور ابا نے بھائی کے معاملے میں ہمیشہ نرمی ہی برتی ہے اور مجھے ہمیشہ جھڑکا ہی ہے بس۔

وہ دل ہی دل میں اپنی قسمت کو کوسنے دیتی کام میں جت گئی۔ ہانڈی روٹی تیار کرنے کے بعد عبادت کی اور مصلے پر ہی دیوار سے ٹیک لگا کر تسبیح رولنے لگی۔ شام کے سائے گہرے ہو رہے تھے اور اس کے دل کی نبض تیز چل رہی تھی۔ اچانک فون کی بیل بجی اور وہ فون کی طرف لپکی۔ دوسری طرف ابصار کی آواز میں جھنجھلاہٹ تھی۔

’ ثریا میں بہت مشکل میں پھنس گیا ہوں۔ میرے ساتھ پاکستان سے کچھ اور لوگ بھی ہیں۔ ہمیں کہا گیا تھا کہ ہماری منزل خلیج ہے۔ لیکن اچھی نوکری کا جھانسہ دے کر ہمیں لانے والا ایجنٹ انسانی سمگلر نکلا۔ اس نے ہمیں صومالیہ کے کسی انسانی سمگلنگ کا دھندا کرنے والے گینگ کے ہاتھوں بیچ دیا۔ ہمیں کسی نامعلوم مقام پر سخت پہرے میں رکھا گیا ہے۔اس وقت میں چھپ کر تم سے بات کر رہا ہوں۔ مجھے اپنی امی کی فکر ہو رہی ہے۔ وہ یہ صدمہ کیسے برداشت کرے گی۔ تم بس دعا کرو۔بس دعا کرو کہ۔ ابصار بات پوری نہ کہہ پایا اور کال کٹ گئی۔ثریا کے منہ سے صرف ’ا±ف‘ نکل سکا۔ اس کا چہرہ اشکوں سے دھل گیا۔ ساری رات اس نے روتے فریاد کرتے گزار دی۔ صبح اس کی آنکھیں اشک باری اور نیند کی زیادتی سے سوجھ چکی تھیں۔اگلے کئی روز ثریا نے دکھ اور انتظار کی شدت میں گزار دیے لیکن ابصار کی کوئی خبر نہ آئی۔ ایک دن ٹی وی پر خبریں چلنے لگیں کہ کچھ پاکستانی صومالیہ میں انسانی سمگلروں کی قید میں ہیں۔ ان پر ظلم ہو رہا ہے۔ جسمانی اذیتیں پہنچائی جا رہی ہیں اور ایجنٹ ان کی جان بخشی کے لئے گھر والوں سے بھتہ طلب کر رہا ہے۔ لیکن انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والے کچھ لوگ ان کی بازیابی کے لئے سرگرم ہیں۔

یہ سب جان کر ثریا کا حوصلہ جواب دے گیا پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ شام کو اس نے یہی بات اپنے ابا کو ماں سے کہتے سنا کہ کل ابصار کے گھر جائیں گے اس کی ماں کی حوصلہ افزائی کے لئے۔ لیکن اسی رات ابصار کی ماں کی موت کی خبر پھیل گئی۔ بیمار ماں کے لئے خبر جان لیوا ثابت ہوئی اور ابدی نیند سو گئی۔

ابصار کا گھر اجڑ گیا اور ثریا کا دل بھی۔ کئی دنوں تک ابصار کی کوئی خبر نہ آئی اور آخر ایک دن ثریا کو ابصار کا خط موصول ہوا۔

’ ثریا….میں نے ہتھیار پھینک دیے ہیں۔ایسا نہیں ہے کہ میں یہ لڑائی لڑنا نہیں چاہتا لیکن یہ لڑائی میں اکیلا نہیں لڑ سکتا۔ قرض لے کر روزگار کی تلاش میں نکلا تھا اور آج زمین بیچ کر قرض چکایا ہے۔ میں نے تو اپنا قیمتی اثاثہ….اپنی ماں تک کھو دی۔ آج یہ دنیا مجھے اندھیر نگری لگ رہی ہے۔ یہ نظام قاتل ہے صرف چھینتا ہے۔ یا تو انسان خود کو بیچ ڈالے یا بغاوت کر لے۔ ہم اس دھرتی کے ظلم رسیدہ انسان ایک دوسرے کی طاقت کیوں نہیں بن سکتے؟ ہمیں جیتے جی گھٹن زدہ تنگ و تاریک گلیوں میں دھکیل دیا جاتا ہے اور ہم اپنے حق سے دستبردار ہو جاتے۔ میری لاچارگی دیکھو۔ میں آج مشکل ترین حالات میں اکیلا رہ گیا ہوں۔ میرے رشتہ دار تک میرا ساتھ دینے کو تیار نہیں۔ ایک ہفتہ پہلے پاکستان لوٹا اور تمہیں خبر نہ دی۔ خبر دیتا بھی تو کیا دیتا۔

مجھے معاف کر دینا۔ ثریا مجھے معاف کر دینا ہر اس غلطی کے لئے جس میں میرا اختیار، میرا بس ہی نہ تھا۔ ایک تھکا ہوا بدنصیب مسافر۔

کاغذ پہ بکھرے زخمی لفظوں نے ثریا کی روح کو جکڑ لیا اور اس کے دل سے دھواں نکلنے لگا۔ اگلی صبح ہی ابصار کی خودکشی کی منحوس خبر پھیل گئی۔ ثریا کے منہ سے ا±ف تک نہ نکلا، آنکھوں سے ایک بھی آنسو نہیں نکلا۔ کتنی زندگی تھی اس کی آنکھوں میں کتنے خواب تھے۔لیکن اب زندگی اس کی آنکھوں میں مر گئی تھی اور خواب بھی۔ اس کی زندگی کی کتاب کا سب سے رنگین ورق حذف ہو چکا تھا۔ پھول کھلنے سے پہلے ہی مرجھا گئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).