10  سالہ مستنصر حسین تارڑ اور حیرت زدہ نگری عورت!


بلتی کہاوت ہے کہ آپ ہمارے ساتھ جب پہلا چائے کا پیالہ پیتے ہیں تو اجنبی ہوتے ہیں ۔ دوسرے چائے کے پیالے کے ساتھ دوست ہو جاتے ہیں جبکہ تیسرے چائے کا پیالہ ساتھ پینے سے آپ ہمار ے خاندان کا حصہ بن جاتے ہیں۔ گریگ مورٹینسن نے اپنی مشہور کتاب ‘تھری کپس آف ٹی’ کا نام اسی کہاوت کو بنیاد بنا کر رکھا۔ لیکن سچ پوچھیں تو یہ کہاوت دل کو نہیں لگتی۔ گلگت بلتستان میں پہلا کپ ہی ساری اجنبیت کی دیواریں گرا کر آپ کو انمول اور انمٹ رشتے میں جوڑ دیتا ہے۔ بھلا گلگت بلتستان کا باسی تین چائے کے پیالوں کا انتظار کیوں کر کرنے لگا۔

جب ہم دران گیسٹ ہاؤس سے نکل رہے تھے تو گول مٹول چہرے والے ڈاکٹر عاکف پاؤں میں قینچی چپل پہنے ہوئے کھڑے تھے۔ معلوم ہوا کہ ڈاکٹر عاکف نےہمارے ساتھ راکاپوشی بیس کیمپ نہیں جانا۔ ڈاکٹر عاکف بیوی بچوں سمیت دران میں براجمان تھے۔ ہر سال نگر آتے ہیں۔ گاڑی کی ڈگی میں ادویات بھری ہوتی ہیں ۔ نگر میں ہفتوں گزارتے ہیں۔ خود پورا دن مفت علاج کرتے ہیں اور دوائیاں تقسیم کرتے ہیں۔ ان کے بچے نگری بچوں کے ساتھ پورے گاؤں میں گھومتے ہیں۔ پھل کھاتے ہیں غل مچاتے ہیں۔ خاتون خانہ نگری خواتین کے ساتھ اپنی مصروفیات میں مگن ہیں۔ اور میں سوچتا ہوں ۔۔۔کیا خوش قسمت بچے ہیںٗ کیا بھاگوں والی خاتون خانہ ہے اور کیا عظیم انسان ڈاکٹر عاکف ہیں جو نگر میں زندگی کرتے ہیں۔مجھے کچھ مایوسی ہوئی جب علم ہوا کہ ڈاکٹر عاکف ہمارے ساتھ نہیں جا رہے ۔

گمان تھا کہ شاید دران گیسٹ ہاؤس سے نکلتے ہی چند کھیت عبور کرنے ہیں اور ٹریک شروع ہو جائے گا ۔ لیکن دیکھا کہ دو کاریں تیار
کھڑی ہیں اور ہمیں ان میں بیٹھنا ہے۔ صبح کے وقت ٹھنڈی اور خوبانیت سے بھرپور ہوا چہرے سے ٹکرا رہی تھی۔ دس منٹ چلنے کے بعد کاریں رک گئیں۔ ایک بہت ہی پرشور گلیشئیر نالہ بہہ رہا تھا۔ پانیوں کا شور نہیں تھا چنگھاڑ تھی۔ پانیوں کی سطح پر وحشت کی جھاگ تھی ۔ پانی پتھروں پر سر پٹختے تھے۔

پانیوں کے شور گلگت بلتستان کی بنیادی شناخت ہیں۔ آپ کسی بھی ہوٹل کے ڈائننگ ہال میں بیٹھے کھانا کھا رہے ہیں پانیوں کا شور آ رہا ہے۔ آپ بیڈ روم میں ہیں کھڑکیوں سے دریا یا نالوں کا شور آ رہا ہے۔ دریا زیادہ دور ہے اور اتفاق سے کوئی نالہ بھی قریب نہیں ہے تو قل (کھالہ) کے شور آ رہے ہیں۔غسل خانہ میں نہانے کے لیے گھسے ہیں تو روشن دان سے پانیوں کی آواز پہلے ہی گھس کر آپ کے انتظار میں بیٹھی ہے۔

پانی پانی پانی ۔۔ بہتے پانی ۔۔کھیلتے پانی ۔۔اترتے پانی ۔۔اچھلتے پانی ۔۔ چکر کھاتے پانی ۔- پگھلتے پانی ۔۔جمتے پانی ۔۔یہ گلگت بلتستان ہے۔

اور جہاں میں کار سے اترا وہاں ایک منظر ہمیشہ کے لیے میری یاداشت کا حصہ بن گیا۔ یہ ایک ایسا منظر ہے جو بستر مرگ پر میری افسردگی کم کرے گا۔ اس مشکل وقت میں جب میں یہ منظر یاد کروں گا تو لبوں میں ایک مسکان پھیل جائے گی۔

کیا دیکھتا ہوں کہ سرخ سویٹر میں ملبوس مستنصر حسین تارڑ اپنے سائے (جمیل عباسی) کے ساتھ گلیشئیر کے پانیوں کے اوپر پل پر کھڑے ہیں۔ میری جانب ان کی پشت ہے۔ ان کے سامنے ڈاکٹر احسن نے ابھی ابھی پل عبور کیا ہے۔ تارڑ صاحب پل کے عین درمیان میں ہیں۔ ایک بچھڑے کے ساتھ نگری عورت پل عبور کر رہی ہے۔ تارڑ صاحب کے ایک ہاتھ میں چھڑی ہے۔ اور اچانک۔۔10 سالہ مستنصر حسین تارڑ اپنے ہاتھ فضا میں بلند کرتے ہیں ۔ پانیوں کے علاوہ کوئی آواز کانوں تک پہنچنے کا دم خم نہیں رکھتی لیکن مجھے 10 سالہ بچے مستنصر حسین تارڑ کی ہو ہو سنائی دیتی ہے ۔ وہ چیخ رہے ہیں۔ ساتھ گزرنے والی نگری عورت اپنے آگے بچھڑے سے غافل ہو کر 10 سالہ مستنصر حسین تارڑ کو دیکھ کر حیران ہو رہی ہے ۔ اسے حیرت چیخنے پر نہیں ہے ۔ سیاح ایسی حرکتیں کرتے ہیں۔ وہ بچپن سے سیاحوں کو ایسی حرکتیں کرتا دیکھتی آئی ہے ۔

اسے حیرت یہ ہے کہ اس 10 سالہ بچے کے سر کے تمام بال سفید کیوں ہیں ؟

یہ جو فضا میں ہاتھ بلند کیے بچہ شور مچا رہا ہے اس کی توند کیوں بڑھی ہوئی ہے ؟

اس بچے کا چہرہ خوشی سے لال سرخ ہے اور اس کے سرخ گالوں پر جب گلشئیر نالے کے چھینٹے پڑتے ہیں تو ایسی آواز آتی ہے جیسے کسی تپتے انگارے پر پانی کے قطرے پڑنے سے ‘چھس’ کی آواز آتی ہے ۔ گلیشیر پانی اس بچے کے انگارہ گالوں کو بجھانے میں ناکام کیوں ہو رہے ہیں ؟ اور اس 10 سالہ بچے کا قد اتنا بلند کیوں ہے؟

 بچھڑا نگری عورت سے دور جا چکا ہے۔ عورت سر جھٹکتی ہے اور سوالوں سے پیچھا چھڑاتے بچھڑے کی جانب دوڑتی ہے ۔

تارڑ صاحب پل عبور کرتے ہوئے پیچھے دیکھتے ہیں ۔ میں کیمرہ لیے کھڑا تھا ۔ تارڑ صاحب ایک بار پھر ہاتھ فضا میں بلند کر خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔ کیمرے کی آنکھ منظر محفوظ کر لیتی ہے۔

ڈاکٹر احسن ٗ فہد ٗ کامران سلیم اکھٹے چل رہے ہیں۔ ان کے پیچھے تارڑ صاحب اور ان کا شرمیلا سایہ جمیل عباسی ہیں۔ ان کے پیچھے مدثر ڈار اور استاد جی خاورندیم ہیں۔

سب سے پیچھے میں شمشالی دوست عبدل جوشی کے ساتھ چل رہا ہوں۔

پوچھتا ہوں جوشی یہاں سے کس طرف جانا ہے؟

جوشی ایک بلند ہوتے پہاڑ کی جانب اشارہ کرتاہے۔ وہ دیکھیں اس پہاڑ پر آڑی ترچھی بلند ہوتی لکیریں نظر آ رہی ہیں؟ وہ ٹریک ہے

میں ان لکیروں پر غور کرتا ہوں اور حیرانگی سے جوشی کو کہتا ہوں۔کیا ؟ کیا مطلب اس پہاڑ پر چڑھنا ہے؟ اس پہاڑ پر چڑھنے کے بعد راکاپوشی بیس کیمپ آئے گا؟ یہ تو بہت خوفناک چڑھائی ہے۔

نہیں اسکے بعد راکا پوشی بیس کیمپ نہیں آئے گا۔جوشی تصحیح کرتا ہے۔۔اس پہاڑ پر چڑھنے کے بعد ٹریک کا آغاز ہو گا۔

میں ایک ٹھنڈی آہ بھرتا ہوں۔ سوچتا ہوں کہ جیسے ہی تارڑ صاحب کو پہاڑ پر چڑھتی یہ لکیریں دکھائی جائیں گی وہ صریحا انکاری ہو جائیں گے۔ اس ٹور کے ورغلانے پر ڈاکٹر احسن اور کامران سلیم کو کھری کھری سنائیں گے۔ ہم یہاں سے ہنزہ چلے جائیں گے وہاں کسی آرام دہ ہوٹل میں چند آسودہ دن گزاریں گےاور واپس ہو جائیں گے۔

 راکا پوشی بیس کیمپ کا سہ حرفی لفظ۔۔۔ صرف لفظ کی حد تک ہماری یاداشتوں کا حصہ بن جائے گا!

وقار احمد ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وقار احمد ملک

وقار احمد ملک اسلام آباد میں مقیم ایک صحافی ہے۔ وہ لکھتا نہیں، درد کی تصویر بناتا ہے۔ تعارف کے لیے پوچھنے پر کہتا ہے ’ وقار احمد ملک ایک بلتی عورت کا مرید اور بالکا ہے جو روتے ہوئے اپنے بیمار بچے کے گالوں کو خانقاہ کے ستونوں سے مس کرتی تھی‘ اور ہم کہتے ہیں ، ’اجڑے گھر آباد ہوں یا رب ، اجڑے گھر آباد۔۔۔‘

waqar-ahmad-malik has 180 posts and counting.See all posts by waqar-ahmad-malik